انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۲)حافظ اسلم صاحب جیراجپوری آپ بھوپال کے مشہور اہلِ حدیث گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے، مشہور غیرمقلد عالم جناب مولانا سلامت اللہ صاحب کے بیٹے تھے، آپ کے عقائد ملاحظہ ہوں: "نہ حدیث پر ہمارا ایمان ہے اور نہ اس پرایمان لانے کا ہم کوحکم دیا گیا ہے، نہ حدیث کے راوی پرہمارا یمان ہے، نہ اس پر ایمان لانے کا ہم کوحکم دیاگیا ہے، نہ حدیث کی سند میں جورجال ہیں ان پر ہمارا یمان ہے نہ اُن پرایمان لانے کا ہم کوحکم دیا گیا ہے؛ پھریہ کس قدر عجیب بات ہے کہ ایسی غیرایمانی اور غیریقینی چیز کوہم قرآن کی طرح حجت مانیں"۔ (مقامِ حدیث:۱/۱۶۹) "قرآن میں جہاں جہاں اللہ ورسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، اس سے مراد امام وقت یعنی مرکزِ ملت کی اطاعت ہے، جب تک محمدﷺ امت میں موجود تھے ان کی اطاعت اللہ ورسول کی اطاعت تھی اور آپ کے زندہ جانشینوں کی اطاعت اللہ ورسول کی اطاعت ہوگی اور اطاعۃ عربی میں کہتے ہیں زندہ کی فرمانبرداری کو"۔ (مقامِ حدیث:۱/۱۵۵) مولوی صاحب کا یہ استدلال درست نہیں کہ اطاعت زندہ کی ہی ہوسکتی ہے، فوت شدہ کی نہیں، فوت شدہ کی پیروی کے لیئے بھی لفظِ اطاعت حدیث میں موجود ہے، ایک عورت حضرت عمرؓ کے بارے میں کہتی ہے: "مَاكُنْتُ لِأُطِيعَهُ حَيًّا وَأَعْصِيَهُ مَيِّتًا"۔ (مؤطا امام مالکؒ، كِتَاب الْحَجِّ،بَاب جَامِعِ الْحَجِّ،حدیث نمبر:۸۴۵، شاملہ،موقع الإسلام) ترجمہ:یہ نہیں ہوسکتا کہ میں اُن کی زندگی میں تواُن کی اطاعت کرتی رہوں اور جب وہ چل بسے تواُن کے خلاف چلوں۔ اسلم صاحب کا یہ نظریہ مشہور غیرمقلد عالم مولانا وحیدالزماں سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے؛ یہی نظریہ شیعہ علماء کا ہے، مولانا وحیدالزماں لکھتے ہیں: "جومجتہد فوت ہوچکا ہے، اس کی تقلید جائز نہیں، اس میں شیعہ ہمارے ساتھ ہیں"۔ (ہدیۃ المہدی:۱۱۱) فوت شدہ مفتی کے فتویٰ پرعمل کی نفیس بحث حافظ ابنِ قیم رحمہ اللہ (۷۵۱ھ) نے بھی کی ہے۔ (دیکھئے، اعلام الموقعین:۳/۴۷۵، مصر، مطبع: النیل، سنہ۱۲۲۵ھ) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: "مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مُسْتَنًّا فَلْيَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْ مَاتَ"۔ (مشکوٰۃ:۳۲) ترجمہ:جو شخص(کسی کی)اقتداء کرنے والا ہے تو وہ ان لوگوں کی اقتداء کرےجو(اسلام پر)فوت ہوئے۔ حافظ اسلم خاندانی طور پرغیرمقلد تھے؛ پھرانکارِ حدیث کرنے لگے؛ خود لکھتے ہیں: "ہمارا گھر مقامی اور بیرونی اہلِ حدیث علماء کا مرجع تھا"۔ (نوادرات:۲۴۴) شیخ محمداکرام صاحب بھی رقمطراز ہیں: "مولانا محمداسلم بھی اوائل عمر سے اہلِ حدیث سے منسلک تھے"۔ (موج کوثر:۵۴) حافظ محمداسلم جیراجپوری نے ایک مؤرخ کی حیثیت سے زیادہ شہرت پائی، تاریخ الاُمۃ کئی حصوں میں تحریر کی، آپ حدیث کے اُصولاً خلاف تھے؛ مگراسوۂ رسول کواصولاً حجت مانتے تھے، آپ نے بھی حدیث کے خلاف بہت کام کیا ہے، اُسوۂ رسول کے بارے میں ایسی ایسی قیود لگائیں کہ انجام انکارِ حدیث کے ہی قریب رہا، حضرت مولانا سیدبدرعالم مدنی رحمہ اللہ ایک جگہ حافظ صاحب کے مسلک پرنقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "مولانا اسلم صاحب اسوۂ رسول کوتوتسلیم کرتے ہیں؛ مگراس کومتواتر فرماتے ہیں ہمیں علمی لحاظ سے مولانا سے یہ سخت شکوہ ہے کہ وہ حدیث کے لیئے پورے پورے ثبوت بھی ناکافی سمجھے اور انہیں شک کی نظر سے دیکھتے ہیں؛ لیکن جب خود کوئی دعوےٰ کرتے ہیں تواس کے لیئے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں سمجھتے؛ اگراُسوۂ رسول کے تواتر سے اُن کی غرض یہ ہے کہ آپ نے نماز پڑھی تھی اور بس؛ تواس کے لیئے صرف قرآن ہی کاتواتر کافی ہے؛ لیکن اگراس سے آگے کی تفصیل مراد ہے توان کویہ صاف کرنا ضروری تھا کہ کن کن ارکان میں ان کوتواتر مسلم ہے اور کن میں نہیں؛ اسی طرح قرآن کی تمام عبادات کی ادائیگی کا نقشہ انہوں نے کیا اختیار کیا ہے؟ آپ کے اُسوۂ حسنہ میں آپ کی امامت آپ کانظم ونسق امت اور فصل قضایا بھی شامل ہیں یانہیں؟اگرہیں توصرف بہ حیثیت رسالت یایہاں کوئی اور تقسیم ہے؛ اگر ہےتو وہ تقسیم بھی تواتر سے ثابت ہے یانہیں؟ بہرِحال جتنی بات قرآن سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ رسول تمہارے لیئے مطلقاً بلاکسی تخصیص کے اُسوہ اور نمونہ بنایا گیا ہے اور بلاکسی تقسیم کے وہ تمہارا رسول ہے؛ پس جب رسول کی ذات بلاکسی تفصیل کے اُسوہ ہے تویہ ماننا پڑتا ہے کہ جوکچھ بھی عملی پہلو میں اس نے کردکھلایا ہے وہ سب مولانا کے نزدیک بھی قرآنی امر کے ماتحت واجب التسلیم ہونا چاہیے، اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آنحضرتﷺ کی پوری کی پوری زندگی آپ کا تمام کا تمام اسوۂ حسنہ حرف بحرف بطریق تواتر منقول ہے یاا سکا ایک حصہ متواتر ہے اور بڑا حصہ غیرمتواتر، پہلی صورت توتواتر کے خلاف ہے، دنیا میں کوئی شخص بھی یہ دعوےٰ نہیں کرسکتا کہ آپ کے عبادات، معاملات کا ہرہرپہلو تواتر سے ثابت ہے، لامحالہ یہی کہنا پڑے گا کہ اس کا ایک حصہ متواتر اور دوسرا غیرمتواتر ہے؛ بلکہ بڑا حصہ غیرمتواتر ہے، مثلاً یہ متواتر ہے کہ آپ نے ظہر کی نماز پڑھی، یہ بھی متواترہے کہ چار رکعتیں پڑھیں، رکوع، سجدہ کیئے، رکوع پہلے کیا پھرسجدہ، نماز کے آخر میں بیٹھے اور سلام بھی پھیرا، شروع نماز میں ہاتھ اُٹھائے، اس کے بعد ایک آدھی بات کا اور اضافہ کربیٹھے؛ لیکن صرف متواتر اُمور سے بھی نماز کی پوری ہیئت مکمل نہیں ہوتی پھردین کے اس حصہ کے متعلق مولانا کا کیا فیصلہ ہوگا جوصحابہؓ کے سامنے اُسوۂ رسول میں نظر آنے کی وجہ سے قابل قبول تھا اور اب تواتر کے ساتھ منقول نہ ہونے کی وجہ سے قابل تسلیم نہیں رہا، ان جزئیات کے لیئے اب تجویز کیا ہے"۔ (ترجمان السنہ:۱/۱۰۷) پھرایک اور جگہ ان کے جواب میں لکھتے ہیں، اس ضمن میں قارئین کومولانا اسلم صاحب کی علمی سطح کا بھی کچھ اندازہ ہوجائے گا: "مولانا اسلم صاحب جیراجپوری کویہاں عجیب شبہ گزرا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ "مَاأتَاکُمْ" کی آیت مالِ غنیمت کی تقسیم کے بارے میں ہے، حدیث سے اس کا دُور کا واسطہ نہیں ہے؛ یہاں "اٰتَا" کے لفظ کو جو "نَھٰی" کے بالمقابل واقع ہے لوگوں نے غلط فہمی سے امریا قال کے معنی میں سمجھ لیا ہے؛ حالانکہ یہ لفظ قرآن میں سینکڑوں جگہ آیا ہے اور کہیں ان معنوں میں مستعمل نہیں ہوا؛ بلکہ ہرجگہ اس کے معنی دینے ہی کے ہیں؛ لہٰذا یہ استدلال بھی صحیح نہیں؛ کیونکہ حدیثیں اقوال ہیں، اُن کے لیئے لینے دینے کا لفظ نہیں کہا جاسکتا، رسول اللہﷺ نے جوچیز دی ہے وہ قرآن ہے،مولانا کوچونکہ قرآن کی جامعیت کا علم ہی نہیں، اس لیئے یہاں بھی اُنہوں نے آیتِ بالا کوصرف مالِ غنیمت سے خاص کرڈالا، قائلینِ حدیث کے نزدیک آیتِ بالا اپنی شانِ جامعیت کی وجہ سے صرف مال کے ساتھ خاص نہیں؛ بلکہ ان ساری ہادیات کوبھی شامل ہے جوآپ نے اپنی امت کو دی ہیں"۔ (ترجمان السنہ:۱۱۴) حضرت مولانا لکھتے ہیں: "مولانا کی قرآن دانی کی یہ انتہا ہے کہ انہیں سینکڑوں جگہ میں ایسی کوئی آیت نظر نہیں آئی جہاں یہ لفظ ایسے معنی میں مستعمل ہوجوحدیث پربھی بولا جاسکے، قرآن کریم میں ارشاد ہے: "وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ" (المجادلۃ:۱۱) (ترجمہ: اللہ تعالیٰ درجے بلند کرتا ہے مؤمنین کے اور ان کے جن کوعلم دیا گیا ہے) اگر علم کے لیے یہ لفظ مستعمل ہوسکتا ہے توکیا حدیث ایک علم ہی نہیں؟ دوسری جگہ فرمایا: "وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا" (مریم:۱۲) "آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًا" (الکہف:۶۵) "وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ" (لقمان:۱۲) "قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا" (مریم:۳۰) "وَآتَاكُمْ مَالَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ" (المائدۃ:۲۰) "وَآَتَيْنَاهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ" (ص:۲۰) اِن آیات میں "اٰتَا" کا لفظ کتاب کے لیے، علم کے لیے، حکمت کے لیے، حکم اور نبوت کے لیے، فضائل وکمالات کے لیے اور آخری آیت میں "وَفَصْلَ الْخِطَابِ" یعنی اقوال کے لیئے بھی مستعمل ہوا ہے، اس لیئے مولانا کا دعویٰ بالکل بے دلیل ہے، یہ چند سطور ہی مولانا کے دعویٰ کی تردید کے لیئے کافی ہیں"۔ (ترجمان السنہ:۱/۱۱۴)