انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** وفد بنی سُلیم یہ قبیلہ جند میں آباد تھا، ان کے ایک آدمی قیس بن لینیہ نے حضور ﷺ کے دربار میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا، اور اپنی قوم میں واپس ہوکر سب کو اسلام کی دعوت دی،بنی سُلیم کےبت خانہ کا مجاور غادی نام کا ایک شخص تھا ، ایک دن اس نے دیکھا کہ دو لومڑیاں بُت پر پیشاب کررہی ہوں ، یہ دیکھ کر بے اختیار اس کی زبان سے نکل گیا " کیا وہ رب ہوسکتا ہے جس کے سر پر لومڑیاں پیشاب کرتی ہوں، بے شک وہ بڑا ذلیل ہے " اس نے فوراً بُت کو توڑ ڈالا اور حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، حضور ﷺ نے اس سے نام پوچھا ، جواب دیا کہ بنی سُلَیم کا مجاور غاوی بن عبد العزیٰ ہوں ، حضور ﷺ نے فرمایا نہیں تم راشد بن عبد ربّہ ہو ، ( غاوی کے معنی گمراہ کے اور راشد کے معنی ہدایت یافتہ کے ہیں ) حضور ﷺ نے انھیں ایک موضع اھاط بطور جاگیر دیا، اس میں " عین الرسول" نامی چشمہ تھا ،اس سے قبل اسی قبیلہ کے ایک اور شخص قدر بن عمارنے مدینہ آکر اسلام قبول کیا اور وعدہ کیا کہ اپنے قبیلہ کے ایک ہزار لوگوں کو لاؤں گا ، فتح مکہ کے موقع پر پورے ایک ہزار سوار مقام قدید پر آکر مسلمانوں کے لشکر میں شامل ہوگئے ، انہوں نے مقدمۃ الجیش میں رکھتے اور سُرخ جھنڈا عطا کرنے کی درخواست کی ، حضورﷺ نے ان کی درخواست قبول فرمائی ، حضرت راشدؓ بن عبد ربہ کو علم بردار اور حضرت عباسؓ مرداس کو امیر لشکر مقرر فرمایا۔ و فدِ صداء پندرہ افراد پر مشتمل یہ وفد مدینہ آیا تو حضرت سعدؓ بن عبادہ نے انہیں اپنے پاس ٹھہرایا اور ان کی خوب مہمانی کی، سب نے اسلام قبول کیا اور اپنی قوم میں اشاعت اسلام کا وعدہ کیا، حجتہ الوداع کے موقع پر ان کے قبیلہ کے ایک سو افراد نے حضور اکرم ﷺ سے ملاقات کی،ان کے سردار حضرت زیادؓ بن حارث صدائی ایک سفر میں حضور ﷺ کے ساتھ تھے، جب نماز کا وقت آیا تو حضور ﷺ نے انہیں اذاں کہنے کا حکم دیا ، انہوں نے اونٹ پر بیٹھے ہوئے اذاں دی ، جب اگلی منزل پر سب نماز کے لئے اترے تو حضرت بلالؓ نے اقامت کہنا چاہی ؛لیکن حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اذان دی ہو وہی اقامت بھی کہے۔ حضرت زیادؓ نے حضور ﷺ سے درخواست کی کہ ان کے کنوئیں کے نہ سوکھنے کے لئے دعاد فرمائیں جو اکثر گرمیوں میں سوکھ جاتا ہے ، حضور ﷺ نے انہیں سات کنکریاں لانے کے لئے فرمایا ، جب وہ لے کر آئے تو انہیں دست مبارک سے خوب ملا اور فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر ایک ایک کنکری کنوئیں میں ڈال دو ، حضرت زیادؓ نے اس کی تعمیل کی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت دی کہ وہ کنواں خشک نہ ہوا۔