انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خصائل حمیدہ حضرت امام حسن ؓ نہایت حلیم،صاحب وقار، صاحب حشمت اورنہایت سخی تھے،فتنہ وخوں ریزی سے آپ ؓ کو سخت نفرت تھی، آپؓ نےپیادہ پا پچیس حج کئے حالانکہ اونٹ کو تل آپ ؓ کے ہمراہ ہوتے تھے،عمیر بن اسحاق کہتے ہیں کہ صرف حضرت حسنؓ ہی ایک ایسے شخص تھے کہ جب بات کرتے تھے تو میں چاہتا تھا کہ آپؓ باتیں کئےجائیں اور اپنا کلام ختم نہ کریں اور آپ کی زبان سے میں نے کبھی کوئی فحش کلمہ نہیں سُنا۔ مروان بن الحکم جب مدینہ کا عامل تھا اور حضرت امام حسن بھی بعد ترکِ خلافت مدینہ ہی میں رہتے تھے تو مروان نے ایک مرتبہ حضرت ام حسنؓ کے پاس ایک آدمی کے ہاتھ کہلا کر بھیجوایا کہ تیر مثال خچر کی سی ہے (نعوذ باللہ) کہ جب اس سے پوچھا جائے کہ تیرا باپ کون تھا تو وہ کہتا ہے کہ میری ماں گھوڑی تھی،آپ ؓ نے اس کے جواب میں کہلا بھیجا کہ میں یہ بات کبھی نہ بھولوں گا کہ تو مجھے بلا سبب گالیاں دیتا ہے آخر ایک روز تجھ کو مجھ کو خدا تعالیٰ کے سامنے جانا ہے،اگر تو اپنے قول میں سچا ہے تو خدائے تعالیٰ تجھ کو سچ بولنے کی جزائے خیر دے اوراگر تو جھوٹا ہے تو خوب یاد رکھ کہ خدائے تعالیٰ سب سے زیادہ منتقم ہے، جریر بن اسماءؓ کہتے ہیں کہ جب حضرت امام حسنؓ نے وفات پائی تو مروان آپؓ کے جنازے پر رونے لگا، حضرت امام حسینؓ نے فرمایا کہ اب تو توُ روتا ہے اور زندگی میں اُن کو ستاتا رہا، مروان نے کہا: جانتے بھی ہو میں اس شخص کے ساتھ ایسا کرتا تھا جو پہاڑ سے بھی زیادہ حلم تھا، علی بن زید کہتے ہیں کہ حضرت امام حسنؓ نے دو مرتبہ اپنا مال راہِ خدا میں خیرات کیا اور تین مرتبہ نصف نصف خیرات کردیا،یہاں تک کہ ایک جوتا رکھ لیا،ایک دے دیا،ایک موزہ رکھ لیا اورایک دے دیا،آپؓ عورتوں کو طلاق بہت دیا کرتے تھے،بجز اُس کے جس کو آپ سے محبت ہوجاتی،حتیٰ کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اہلِ کوفہ سے کہنا پڑا کہ تم میرے بیٹے حسنؓ کو لڑکیاں نہ دو، لیکن ہمدان نے کہا کہ ہم سے یہ نہ ہوگا کہ لڑکیاں ان کے نکاح میں نہ دیں، ایک مرتبہ آپ ؓ کے سامنے ذکر ہوا کہ ابوذرؓ کہتے ہیں کہ میں تونگری سے مفلسی کو اورتندرستی سے بیمار کو زیادہ عزیز رکھتا ہوں، آپ ؓ نے فرمایا کہ خدا اُن پر رحم کرے،میں تو اپنے آپ کو بالکل خدا کے ہاتھ میں چھوڑتا ہوں اور کسی بات کی تمنا نہیں کرتا،وہ جو کچھ چاہے کرے، مجھے دخل دینے کی کیا مجال ہے۔ آپؓ نے ربیع الاوّل ۴۱ھ میں خلافت حضرت امیر معاویہؓ کے سپرد کردی تو اس کے بعد آپ کے دوست جب آپ کو عارالمسلمین کے نام سے پکارتے تو آپؓ فرمایا کرتے کہ عار(شرمندگی) نار (دوزخ)سے بہتر ہے،ایک شخص نے آپ ؓ سے کہا کہ اے مسلمانوں کے ذلیل کرنے والے تجھ پر سلام ہو،تو آپؓ نے فرمایا کہ میں مسلمانوں کا ذلیل کرنے والا نہیں ہوں ؛بلکہ مجھے یہ اچھا نہ معلوم ہوا کہ تم کو ملک کے لئے قتل کرادیتا ،جبیر بن نفیلؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے کہا کہ افواہ ہے کہ آپ پھر خلافت کے خواہش مند ہیں،آپؓ نے فرمایا کہ جب اہل عرب کے سر میرے ہاتھ میں تھے، جس سے چاہتا لڑادیتا،اُ س وقت میں نے محض خوشنودی الہیٰ کے لئے خلافت چھوڑدی تو اب محض اہل حجاز کو خوش کرنے کے لئے کیوں قبول کرنے لگا تھا، آپ ؓ نے ماہِ ربیع الاول ۵۰ ھ میں وفات پائی، بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ ؓ کی شہادت زہر کے ذریعہ ہوئی حضرت امام حسینؓ نےہر چند آپؓ سے معلوم کرنا چاہا کہ آپ کو کس نے زہر دیا،مگر آپ ؓ نے نہ بتلایا اور فرمایا کہ جس پر میرا شبہ ہے، اگر وہی میرا قاتل ہے تو خدائے تعالی سخت انتقام لینے والا ہے ورنہ میرے واسطے کوئی کیوں ناحق قتل کیا جائے