انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سلطان فاتح کے بقیہ کارنامے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد سلطان فاتح نے چند روز تک اپنی توجہ قسطنطنیہ کی آبادی اور رونق بڑھانے میں صرف کی،لیکن ساتھ ہی وہ یہ بات بھی سوچتا رہا کہ یونان کا جنوبی حصہ جو ایک جزیرہ نما کی صورت میں بحر روم میں چلا گیا ہے تمام وکمال سلطنت عثمانیہ میں شامل ہونا چاہئے تاکہ آئندہ کے لئے بہت سے خرخشے جو اتلی وغیرہ کی بحری ترک و تاز سے پیدا ہوسکتے ہیں مت جائیں،لہذا فتح قسطنطنیہ سے اگلے سال سلطان فاتح نے جنوبی یونان کی چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستوں کو فتح کرکے سلطنتِ عثمانیہ میں شامل کیا، اسی جنوبی یونان میں ایک چھوٹی سی ریاست قیصر قسطنطین کی اولاد نے قسطنطنیہ سے فرار ہوکر قائم کی تھی،اس فتح کے بعد قیصر قسطنطنیہ کے بعض ارکان خاندان نے جو یہاں موجود تھے اسلام قبول کرلیا تھا،اوپر یہ بات بیان ہونے سے رہ گئی تھی کہ جب مسلمانوں کی فوج نے قسطنطنیہ کو فتح کرلیا تھا اوپر یہ بات بیان ہونے سے رہ گئی تھی کہ جب مسلمانوں کی فوج نے قسطنطنیہ کو فتح کرلیا تھا اورتمام ملاح فتح کی خوشی میں اپنی کشتیوں کو چھوڑ چھوڑ کر شہر میں داخل ہوئے تو شہر کے عیسائیوں نے جو باہر نکل سکے بندرگاہ میں پہنچ کر اُن عثمانی کشتیوں کو جو بندرگاہ میں کھری تھیں اپنے فرار کا ذریعہ بنایا اورانہیں عثمانی کشتیوں میں سوار ہو ہو کر دردانیال کے راستے جنوبی یونان اوراعملی کی جانب بھاگ گئے،جنوبی یونان کی فتح سے فارغ ہوکر سلطان نے ریاست وینس کی طرف توجہ کی مگر اس ریاست لے دب کر سلطان سے صلح کا عہد نامہ کرلیا، ۶۰۱ھ میں قسطنطنیہ کے شاہی خاندان کا ایک شخص مسمی کوم نینی جو صلیبی مجاہدین کے مذکورہ ہنگامہ میں قسطنطنیہ سے نکال دیا گیا تھا اُس نے بحر اسود کے جنوبی ساحل پر مقام ابزون میں مقیم ہوکر اپنی ایک جُداگانہ چھوٹی سی عیسائی ریاست قائم کرلی تھی، اس ساحلی ریاست کی طرف کسی نے زیادہ التفات نہیں کیا اور دھائی سو سال تک وہ اس طرح قائم رہی کہ جب کسی مسلمان فرماں روانے اس کی طرف توجہ کی اُس نے فوراً انقیا دوفرماں برداری کی گردن جُھکادی اورجب مسلمانوں کو خانہ جنگی میں مصروف ہونے کا اتفاق ہوا وہ باج وخراج کی قید سے آزاد ہوگئی،ایشیائے کوچک پر ترکوں کا قبضہ ہوگیا تھا،لیکن طرابزون کو اُنہوں نے اُس کے حال پر قائم رہنے دیا تھا جو اُن کے مقبوضہ علاقے کی شمالی ومشرقی سرحد تھی،اب فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان فاتح نے ضروری سمجھا کہ ایشیائے کوچک سے اس عیسائی حکومت کو بھی مٹائے کیونکہ فتح قسطنطنیہ کا واقعہ ایسا نہیں تھا کہ اُس کا اثر طرابزون کے عیسائی فرماں روا کے دل پر نہ ہوا ہو جو قیصر قسطنطین کا رشتہ دار اوراُس سے کامل ہمدردی رکھتا تھا،طرابزون کا یہ عیسائی فرماں روا اس لئے اور بھی زیادہ مخدوش ہوگیا، تھا کہ وہ ایران کے ترکمان بادشاہ حسن طویل کا خسر تھا،حسن طویل نے تمام ملک ایران اورارمینیا پر قبضہ کرلیا تھا وہ ایک طاقتور بادشاہ سمجھا جاتا تھا،لہذا ایران کی ترکمان سلطنت ایشیائے کوچک کی عثمانیہ سلطنت کے لئے کسی وقت موجب خطر بن سکتی تھی اور طرابزون کی عیسائی ریاست کو کافی موقعہ میسر تھا کہ وہ عثمانی سلطنت کیلئے مشکلات پیدا کرنے کی تدابیر سوجئے سلطان فاتح عیسائی قیصر کی ریشہ دوانیوں سے واقف تھا اس لئے اس نے یہی مناسب سمجھا کہ اس ناسور کو پہلے ہی شگاف دے دیا جائے اور جو کچھ ہونا ہو وہ ابھی ہوجائے ؛چنانچہ اس نے یونان و ینس سے فارغ ہوکر ۸۶۰ ھ میں طرابزون پر حملہ کیا اوراس ریاست کو فتح کرکے اپنے قلم رو میں شامل کرلیا، طرابزون کی ریاست اگرچہ خود مختار تھی،لیکن وہ سلطنت ایران کا ایک حصہ سمجھی جاتی تھی، اس لئے ایران کے بادشاہ حسن طویل کو طرزبزون کا سلطنت عثمانیہ میں شامل ہوجانا سخت ناگوار گذرا، مگر چونکہ سلطان فاتح نے طرابزون کی عیسائی ریاست کو اپنی حکومت میں شامل کرکے حسن طویل شاہ ایران کی حدود میں کوئی مداخلت نہیں کی اس لئے اس وقت سلطنت ایران سے کوئی جھگڑا نہ ہوا مگر بعد میں دلوں کی کدورت کا اظہار تیر و شمشیر کے ذریعہ ہوا۔ بہرحال یونان اورایشیائے کوچک کی طرف سے فارغ ہوکر سلطان فاتح ۸۶۰ ھ میں قسطنطنیہ واپس آیا اوریہاں آتے ہی سردیا اوراُس کے بعد بوسینیا کی طرف متوجہ ہوا، یہ علاقے پہلے بھی حکومت عثمانیہ میں شامل ہوگئے تھے لیکن آج کل ان کے باج گذار فرماں رواؤں سے علامات سرکشی ظاہرہونے لگے تھے لہذا سلطان فاتح نے ان روز کے جھگڑوں کا فیصلہ کردینا مناسب خیال کیا؛چنانچہ سرویا اوربوسینیا کو فتح کرکے سلطنتِ عثمانیہ کے صوبے قرار دے کر وہاں اپنی طرف سے عامل مقرر کردیئے چونکہ ہنی داس بادشاہ ہنگری کے ساتھ معاہدہ صلح کی میعاد ختم ہوچکی تھی اور وہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگی تیاریوں میں مصروف اوریورپ کی دوسری عیسائی طاقتوں سے امداد طلب کرچکا تھا اس لئے سلطان فاتح نے ضروری سمجھا کہ ہنگری پر خود ہی حملہ آور ہو، چنانچہ ۸۶۱ھ مطابق جولائی ۱۴۵۶ء میں عثمانی فوجیں ہنگری کی جانب بڑھیں، فتح قسطنطنیہ کے بعد تمام عیسائی سلاطین اورعالمِ عیسائیت سلطنت عثمانیہ کی نسبت غیظ وغضب کے جذبات سے لبریز تھا، ساتھ ہی سب کو خیال تھا کہ اگر سلطان فاتح نے بلگریڈ دار السلطنت ہنگری کو بھی قسطنطنیہ کی طرح فتح کرلیا تو پھر مگربی یورپ کی خبر نہیں ہے،لہذا ہر ایک ملک سے عیسائی فوجیں بلگریڈ کے بچانے کے لئے آ آ کر جمع ہوگئیں،سلطان فاتح راستے کے شہروں اورقصبوں کو فتح کرتا ہوا بلگریڈ تک اپنی فوج کو لے گیا اورجاتے ہی شہر کا محاصرہ کرلیا اُدھر ہنی داس یاہنی ڈیز بھی بہت تجربہ کار سپہ سالار تھا اُس نے بڑی قابلیت کے ساتھ مدافعت شروع کی،آخر بہت کشت وخون اورجنگ وجدل کے بعد عثمانی لشکر شہر کے ایک حسہ میں داخل ہوگیا،یہ حصہ شہر کا زیرین حصہ کہلاتا تھا،عیسائی سپہ سالاروں نے یہ حالت دیکھ کر ہمت نہیں ہاری ؛بلکہ شہر کے بالائی حسہ میں اپنی طاقت کو مجتمع کرکے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے،شہر میں داخل ہونے والے اسلامی دستہ نے شہر کے اندر خوب جم کر مقابلہ کیا اورچھ گھنٹہ کی مسلسل شمشیر زنی کے بعد اپنے آپ کو رات کے وقت شہر کے اندر خطرہ میں دیکھ کر شام ہونے پر پسپا ہوئے اورشہر سے نکل کر اپنے کیمپ میں آگئے،عیسائیوں نے فوراً اس حصہ شہر پر قابض ہوکر خوب مضبوطی کرلی،یہ واقعہ ۲۱ جولائی کو ظہور پذیر ہوا،اس کے بعد بھی کئی مرتبہ مسلمانوں نے فصیل شہر کو عبور کرکے شہر کے محلوں کو لوٹا لیکن محصورین کی خوش انتظامی اورتجربہ کاری نے شہر کو مکمل طور پر فتح نہ ہونے دیا اورہر مرتبہ مقبوضہ حصص شہر کو چھوڑہی دینا پڑا، آخر ۶ اگسٹ کو سلطان فاتح نے بذات خود شہر پر ایک فیصلہ کن حملہ کیا،اس روز شہر کے فتح ہونے میں کوئی کسر باقی نہ تھی کہ ایک موقعہ پر جہاں سلطان خود مصروف شمشیر زنی تھا اوربہت سے عیسائی سرداروں کے سر اپنی شمشیر خاراشگاف سے اُڑا چکا تھا اورہنگری کے بادشاہ ہنی ڈیز کو بھی زخمی کرکے اپنے سامنے سے بھگا چکا تھا ایک عیسائی کے ہاتھ سے زخمی ہوا، عیسائی کی تلوار نے سلطان فاتح کی ران کو زخمی کیا، زخم چونکہ شدید تھا اورسلطان گھوڑے کی سواری یا پیدل چلنے سے معذور ہوگیا اُس کو پالکی میں ڈال کر اُس جگہ سے واپس لے آئے، سلطان کے اس طرح زخمی ہوکر اورپالکی میں پڑے کر خیمے کی طرف واپس ہونے سے فوج میں بددلی پھیل گئی اور اُس کا زخمی ہونا فوج سے پوشیدہ نہ رہ سکا،لہذا عثمانیہ لشکر جو قدم قدم عیسائیوں سے لڑتا اوراُن کو پیچھے ہٹاتا ہوا شہر کے اندر بڑھ رہا تھا،اب خود پسپا ہونے لگا، یہ رنگ دیکھ کر عیسائیوں کی ہمت بڑھ گئی اورانہوں نے پورے جوش وخروش کے ساتھ حملے شروع کردیئے اُن کا بادشاہ ہنی داس بھی اگرچہ سلطان کے ہاتھ سے زخمی ہوکر پہلے فرار ہوچکا تھا لیکن اُس کے زخمی ہونے کا علم تمام عیسائی لشکر کو نہیں ہوا تھا، نیز یہ کہ ہنی داس کے سوا اور بھی کئی زبردست سپہ سالار جو غیر ملکی فوجوں کے افسر تھے،لڑائی کی ذمہ داری اپنے اوپر محسوس کرتے تھے،ادھر سلطان فاتح خود ہی تمام لشکر کا سپہ سالارِ اعظم تھا، اُس کا زخمی ہونا لشکر پر اثر ڈالے بغیر نہیں رہ سکتا تھا، اس مرتبہ عیسائیوں کا حملہ اس قدر سخت تھا کہ مسلمان شہر سے نکل کر بھی اپنے کیپ میں قائم نہ رہ سکے اورزخمی سلطان کو لے کر قسطنطنیہ کی جانب چل دیئے،اس طرح مسلمانوں کی فتح مبدل بہ شکست ہوگئی اور شہر بلگریڈ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوتے ہوتے رہ گیا،لشکر عثمانیہ کی اس پسپائی یاشکست کا یورپ پربہت اثر پڑا اور تمام عیسائی ممالک میں خوشی کے جشن منائے گئے،لیکن اس واقعہ کے اکیس روز بعد ہنی داس اپنے زخموں سے جاں برنہ ہوسکا اُدھر ہنی داس شاہ ہنگری فوت ہوا اُدھر سلطان فاتح نے اپنے زخم کے اچھا ہونے پر غسل صحت کیا۔ اوپر ذکر آچکا ہے کہ اسکندر بیگ البانیہ پر قابض تھا اورسلطان فاتح نے تخت نشین ہوکر اُن تعلقات و مراسم کی وجہ سے جو ایوان سلطانی میں پرورش پانے کے سبب سکندر بیگ کے ساتھ تھے سکندر بیگ کی حکومت کو البانیہ پر باقاعدہ تسلیم کرلیا تھا اورکسی قسم کا آزار پہنچانے یا اُس کو البانیہ سے بے دخل کرنے کا خیال سلطان فاتح کو نہ تھا مگر حادثہ بلگریڈ کے بعد جہاں دوسرے عیسائی سلاطین کی ہمتیں بڑھ گئیں ،سندر بیگ نے بھی سرکشی و بغاوت کے نشانات ظاہر کرنے شروع کئے، سلطان فاتح نے اوّل اوّل اغماض و چشم پوشی سے کام لیا لیکن جب اُس کے حرکات نے خطرناک صورت اختیار کی تو سلطان فاتح نے البانیہ پر فوج کشی کی،سکندر بیگ بہت بہادر اور تجربہ کار شخص تھا، البانیہ چونکہ پہاڑی ملک اورسکندر بیگ کا وطن تھا،وہاں کی رعایا اُس پر جان و دل سے نثار تھی لہذا ایک سلسلۂ جنگ شروع ہوگیا اور البانیہ کا ملک جلد فتح نہ ہوسکا۔ آخر ۸۶۶ھ میں سکندر بیگ نے خود صلح کی درخواست پیش کی اورآئندہ باوفا رہنے کا اقرار کیا،سلطان نے اُس کی درخواست منظور کرلی اور البانیہ سے اپنی فوجیں ہٹالیں لیکن سکندر بیگ نے پھر مخالفت کا اظہار کیا اورسلطان کو دوبارہ خود فوج لے کر البانیہ جانا پڑا، اس مرتبہ سکندر بیگ سلطانی حملہ کی ٹکر نہ سنبھال سکا اوراُس کو البانیہ سے حدود ریاست وینس کی طرف پناہ گزیں ہونا پڑا جہاں اُس کو بڑی آؤ بھگت کے ساتھ لیا گیا، وہیں سکندر بیگ کا انتقال ہوا اورالبانیہ مستقل طور پر سلطانی قبضہ میں آگیا، بلگریڈ کے حملہ کی ناکامی اور سکندر بیگ کے عرصۂ دراز تک برسر مقابلہ رہنے کے سبب عیسائیوں کے دلوں سے سلطان فاتح کی وہ ہیبت جو فتح قسطنطنیہ کے بعد پیدا ہوگئی تھی کم ہونے لگی اوراُن کی ہمتیں پھر سلطانی مقابلہ کے لئے بڑھ گئیں،وینس کی ریاست جس نے چند روز پہلے دب کر صلح کی تھی پھر طاقت کے اظہار پر آمادہ ہونے لگی، سلطان نے اس کی سرکوبی کو بھی ضروری سمجھی اورسمندر کے کنارے دور تک وینس کے علاقے کو فتح کرکے بہت سے شہروں کو اپنی حکومت میں شامل کرلیا،یہاں تک کہ ریاست وینس نے شہر سقوطری خود سلطان کی نذر کرکے نہایت ذلیل شرطوں پر سلطان سے صلح کی اور بحیرۂ ایڈریا ٹک میں سلطانی سیادت قائم ہوگئی۔ ۸۷۸ھ میں سلطان فاتح نے اپنے سپہ سالار احمد قیدوق کو اپنا وزیر اعظم بنایا اوربحیرہ یونان کے جزیروں پر قبضہ کرنے میں مصروف رہا، اس فرصت میں ایران کا بادشاہ حسن اوزون یا حسن طویل ترکمان بھی اپنی طاقت کو بڑھا رہا تھا اور ۸۷۳ ھ میں سلطان ابو سعید مرزا تیموری کو گرفتار کرکے قتل کرچکا تھا،اب اس کا ارادہ تھا کہ ایشیائے کوچک میں سلطان فاتح کے خلاف مشکلات پیدا کرے اورفتح طرا بزون کا بدلہ سلطنتِ عثمانیہ سے لے چنانچہ اُس کی پشت گری سے ایشیائے کوچک میں کئی مرتبہ بغاوتیں برپا ہوئٰں اورہر متبہ سلطان فاتح کے سپہ سالاروں نے اُن کو فرو کردیا،سلطان فاتح ایران کی مسلمان سلطنت سے لڑنا نہیں چاہتا تھا، اُس کی تمام تر توجہ اس طرف منعطف تھی کہ سلطان بایزید یلدرم کی اُس خواہش کو پورا کرے جو اُس نے اٹلی کے شہر روما کو فتح کرنے کی نسبت ظاہر کی تھی اسی لئے اس نے نہایت پائدار اور مستحکم طریقہ سے اپنی حدود سلطنت کو اٹلی کی طرف بڑھایا اوردوسری سمتوں سے بھی غافل نہیں رہا،اُس نے حادثہ بلگریڈ کے بعد ریائے ڈینوب کے شمالی صوبوں پر بلگریڈ تک اپنا قبضہ و تسلط مضبوطی سے جمالیا اوربلگریڈ کی فتح کو کسی دوسرے وقت پر ملتوی کرکے جزئر یونان اوروینس وغیرہ سے جمالیا اوربلگریڈ کی فتح کو کسی دوسرے وقت پر ملتوی کرکے جزائر یونان اوروینس وغیرہ کے علاقوں کو فتح کیا، ایشیائے کوچک اورایران کی طرف سلطان فاتح کی توجہ منعطف ہونے والی نہ تھی،مگر قدرتی طور پر ایک سامان پیدا ہوا اور ۸۷۹ھ میں سلطان نے اپنے وزیر اعظم احمد قید وق کو فتح کریمیا کے لئے بحرِ اسود کی جانب روانہ کیا،جزیرہ نما کریمیا عرصہ دراز سے چنگیزی نسل کے خوانین کی حکومت میں تھا،کچھ دنوں سے جینوا والوں نے کریمیا کے جنوبی ساحل پر بندرگاہ یافہ کو اپنے قبضہ میں لے لیا اوراپنے جنگی جہازوں کی مدد سے یافہ پر اپنا مستقل قبضہ جما کر خان کریمیا کے لئے باعثِ تکلیف ہوگئے،خان کریمیا نے مجبور ہوکر سلطان فاتح کو امداد کے لئے لکھا کہ جنیوا والوں کو یافہ سے بے دخل کردیجئے اور مجھ کو اپنی سرپرستی میں لے لیجئے، سلطان نے خان کریمیا کی اس درخواست پر ہمدردانہ توجہ مبذول کی اوراحمد قیدوق کو زبردست جنگی بیڑہ کے ساتھ اُس طرف روانہ کیا،احمد قیدوق اپنے ساتھ چالیس ہزار فوج لے گیا اورچار دن کے محاصرہ کے بعد یافہ کو فتح کرکے چالیس ہزار جنیوا والوں کو جو وہاں موجود تھے گرفتار کرلیا،یافہ سے بے شمار مالِ غنیمت اورجنیواوالوں کے جنگی جہاز احمد قیدوق کے ہاتھ آئے ،خان کریمیا نے سلطان عثمانی کی اطاعت قبول کیاور اسی تاریخ سے تین سو سال تک خوانین کریمیا سلطان قسطنطنیہ کے باوفا اورفرماں بردار رہے ،یافہ کا بندرگاہ دوسراقسطنطنیہ سمجھا جاتا تھا اُس کا قبضہ میں آجان سلطنت عثمانیہ کے مشرقی صوبوں اوربحراسود میں اپنی سیادت قائم رکھنے کے لئے نہایت مفید اورضروری تھا، اس موقعہ پر شاید یہ بیان کردینا دلچسپی سے کالی نہ ہوگا کہ اسی سال یعنی ۸۷۹ھ میں روس کے اندر زار کا وہ خاندان برسر حکومت ہوا جس نے ہمارے زمانہ کی مشہور جنگ عظیم تک روس میں زور شور کے ساتھ حکومت کی اورآکری زار دورانِ جنگ میں معزول ہوکر مقتول ہوا اوراُس کے بعد روس میں سوویٹ حکومت یعنی جمہوری سلطنت قائم ہوئی کریمیا اور یافہ کا حکومتِ عثمانیہ میں شامل ہوجانا ایران کے بادشاہ حسن طویل کو بہت ہی ناگوار گذرا اوراب اس نے علانیہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف کاروائیاں شروع کردیں۔ ۸۸۰ھ میں سلطان فاتح نے اپنے بیٹے بایزید کو ایشیائے کوچک کی فوجوں کا سپہ سالاربناکر بھیج دیا کہ اُس طرف کے معاملات کا نگراں رہے اور خودیورپی علاقے کی طرف مصروف رہا،البانیہ اورہرزیگونیا پر سلطان کا قبضہ پہلے ہی ہوچکا تھا،اب سلطان نے جنیوا اوروینس کے قبضے سے بحر روم کے جزیروں کو یکے بعد دیگرے فتح کرنا شروع کیا، اس کے بعد ۸۸۲ھ میں سلطان فاتح کا سپہ سالار عمر پاشا اپنی فتح مند فوج لئے ہوئے وینس کے دار السلطنت تک پہنچ گیا اوروہاں کی پارلیمنٹ نے ترکی فوجوں کو اپنے شہر کی دیواروں کے نیچے دیکھ کر نہایت الحاح وعاجزی کے ساتھ صلح کی درخواست پیش کی اور وعدہ کیا کہ سلطان کو جب ضرورت ہوگی تو ہم سو جہازوں کے بیڑے سے سلطانی فوج کی مدد کریں گے؛چنانچہ عمر پاشا اپنے حسب منشا شرائط پر صلح کرکے سالماً غانما وینس سے واپس آیا۔ ۷۱۱ھ سے جزیرہ روڈس میں صلیبی مجاہدین کے ایک گروہ نے قبضہ کرکے ایک خود مختار حکومت قائم کرلی تھی،قریباً ڈیڑھ سو سال سے یہ لوگ اس جزیرہ پر قابض و متصرف اورارد گرد کے جزیروں اورشام وایشیائے کوچک کے بندرگاہوں پر بحری ڈاکے ڈالتے رہا کرتے تھے،وینس وجنیوا والوں نے بھی ان کو کبھی نہیں چھیڑا تھا؛بلکہ ان کو صلیبی مجاہدین کی یادگار سمجھ کر ان سے اتحاد رکھتے ان کی ڈاکہ زنیوں کو جو عماماً مسلمانوں کے لئے باعثِ تکلیف ہوتی تھیں،بہ نظر استحسان دیکھتے تھے،اب جبکہ ساحل شام سے لے کر بحیرۂ ایڈریا تک سلطان کی حکومت وسیادت قائم ہوچکی تھی اورقریباً تمام جزیرے سلطان کے قبضے میں آچکے تھے تو روڈس کی عیسائی حکومت کا وجود سخت تکلیف دہ ثابت ہوا ؛چنانچہ ۸۸۵ ھ میں سلطان نے اس جزیرہ کے فتح کرنے کے لئے ایک بحری جنگی مہم رانہ کی مگریہ مہم ناکام واپس آئی، اس کے بعد سلطان فاتح نے دوسری مہم رانہ کی جس کا سپہ سالار ایک تجربہ کار شخص تھا، جزیرہ کے تمام مقامات پر قبضہ کرنے کے بعد اُس کے دارالسلطنت کا محاصرہ کیا گیا، شہر فتح ہوچکا تھا مگر عین اُس وقت جب کہ سلطانی فوج شہر میں داخل ہوکر لوٹ مار میں مصروف ہونا چاہتی تھی،سپہ سالار نے حکم جاری کیا کہ کوئی شخص رتی برابر چیز پر تصرف کرنے کا حق دار نہیں ہے،اس سے فوج میں بددلی پیدا ہوئی اورلوگوں نے خدمات کو انجام دینے میں پہلو تہی اختیار کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فوج اوراس کے سپہ سالار کی ناچاقی نے وہ صورت اختیار کی کہ جزیرہ کو چھوڑ کر واپس آنا پڑا، اورروڈس سلطانی مقبوضات میں شامل ہوتے ہوتے بچ گیا۔ جب روڈس کی جانب مہم رانہ کی گئی تھی تو اس کے ساتھ ہی سلطان نے اپنے وزیراعظم احمد قیدوق فاتح کریمیا کو ایک فوج دے کر جہازوں کے ذریعہ اٹلی کے جنوب کی جانب روانہ کیا کہ وہ ملک اٹلی میں داخل ہوکر وہاں فتوحات شروع کرے؛چنانچہ احمد قیدوق نے ساح اٹلی پر اُتر کر متعدد مقامات کو فتح کرکے اٹلی کے شہر آرٹینیٹو کا محاصرہ کرلیا جو اٹلی کا باب الفتح کہلاتا تھا، یعنی اس شہر کے فتح ہونے کےبعد ملک اٹلی اور شہر روما کا فتح کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا، آخر ۸۸۵ھ مطابق ۱۴۸۰ء بتاریخ ۱۱،اگسٹ احمد قیدوق نے اس شہر کو بزور شمشیر فتح کرلیا اوربیس ہزار کے قریب محصورین کو گرفتار وقتل کیا،اس مستحکم مقام کے قبضے میں آجنے کے بعد شہر روما کا فتح کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا، تمام ملک اٹلی میں گھبراہٹ اورسراسمیگی طاری ہوگئی،یہاں تک کہ روما کا پوپ اپنا بوریا بستر باندھ کر ملک اٹلی سے بھاگ جانے پر آمادہ ہوگیا، شہر آرٹینٹو یا ٹرانٹو کی فتح اورروڈس کی مہم کے ناکام ہونے کا حال سلطان فاتح کو معلوم ہوا تو اُس نے فوراً فوجوں کے فراہم کرنے اورسامانِ جنگ کی تیاری کا اہتمام کیا،بظاہر سلطان بایزید یلدرم کی اس خواہش کے پورا ہونے میں کوئی امر اب مانع نہ رہا تھا کہ عثمانی سلطان فاتحانہ شہر روما میں داخل ہوکر اپنے گھوڑے کو روما کے بڑے گرجا میں دانہ کھلائے،اس مرتبہ سلطان فاتح نے بڑی سرگرمی کے ساتھ فوجی تیاری کی اورآبنائے باسفورس پر سمندر کے کنارے فوجی عَلم نصب کرادیئے جو اس بات کی علامت تھی کہ سلطان اپنی جرّ ار فوج کے ساتھ بہت جلد روانہ ہونے والا ہے۔ اس وقت سلطان کے سامنے تین مہمیں موجود تھیں،ایک ایران کے بادشاہ حسن طویل کو سزا دینا کیونکہ اُس نے شہزادہ بایزید کے مقابلہ میں چھیڑ چھاڑ اور لڑائی شروع کردی تھی،دوسرے جزیرہ روڈس کو فتح کرنا،تیسرے ملک اٹلی کو تمام وکمال فتح کرکے شہر روم میں فاتحانہ داخل ہونا، سلطان نے کسی دوسرے شخص کو یہ نہیں بتایا کہ وہ اوّل کس طرف متوجہ ہوگا،سلطان فاتح کی یہ عادت تھی کہ وہ جب کسی مہم پر خود روانہ ہوتا تھا تو فوج کے کسی افسر حتی کہ اس کے وزیر اعظم تک کو بھی یہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ اس کا ارادہ کس طرف کا ہے ایک مرتبہ کسی سپہ سالار نے سلطان سے پوچھا تھا کہ آپ کا ارادہ کس طرف کا ہے اورآپ کا مقصد کیا ہے،توسلطان نے اس کو جواب دیا تھا کہ اگر مجھ کو یہ معلوم ہوجائے کہ میری داڑھی کے ایک بال کومیرے ارادے کی اطلاع ہوگئی ہے تو میں اپنی داڑھی کے اس بال کو نوچ کر فوراً آگ میں ڈال دوں،اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ سلطان کو جنگی معاملات میں کس قدر احتیاط ملحوظ تھی،بہرحال قسطنطنیہ میں ہر طرف سے فوجیں آ آ کر جمع ہو رہی تھیں اورسلطان فاتح سامان جنگ اورضروریاتِ لشکر کی فراہمی میں مصروف تھا، یہ تیاری بہت ہی عظیم الشان اورغیر معمولی تھی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ بہت جلد برا عظم یورپ اوربراعظم ایشیا میں عظیم الشان فتوحات سلطنتِ عثمانیہ کو حاصل ہونے والی ہیں، ان تیاریوں میں ۸۸۶ھ شروع ہوگیا اورلشکر کے کوچ کرنے کا وقت قریب آگیا،سلطان فاتح نے قسطنطنیہ سے کوچ کیا اُس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اوّل شاہِ ایران کو سزادے کر بہت جلد وہاں سے واپس ہوکر روڈس کو فتح کرے گا، اورروڈس سے فارغ ہوکر ملک اٹلی میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ داخل ہوگا جہاں شہر ٹرانٹو پر اُس کا بہادر سپہ سالار احمد قیدوق قابض و متصرف اوراپنے سلطان کی تشریف آوری کا منتظر تھا، اور پوپ سکٹس چہارم روما میں منتظر تھا کہ سلطان کے حدود اٹلی میں داخل ہونے کی خبر سنتے ہی وہ روما سے فرار ہوجائے،مگر قضا وقدر کے سامنے کسی کا بس نہیں چل سکتا، خدائے تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا کہ یورپی ممالک سے عیسائیوں کا نام ونشان گم ہو،لہذا قسطنطنیہ سے روانہ ہوتے ہی سلطان پر درد نقرس کا حملہ ہوا اوراسی مرض میں بروز پنج شنبہ بتاریخ ۳ ربیع الاوّل ۸۸۶ ھ مطابق ۳مئی ۱۴۸۱ء سلطان فاتح نے وفات پائی اوریہ عظیم الشان فوج کشی ملتوی رہ گئی،سلطان کی لاش کو قسطنطنیہ میں لاکر دفن کیا گیا،یوم الخمیس مادّہ تاریخ وفات ہے ۵۲یا ۵۳ سال کی عمر پائی اورقریباً ۳۱ سال حکمرانی کی،سلطان فاتح کی وفات سلطنت عثمانیہ کے لئے بے حد مضر ثابت ہوئی،سلطان فاتح جس سال ایڈریا نوپل میں اپنے باپ کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا ہے،اسی سال ہندوستان میں سلطان بہلول لودی تخت نشین ہوا تھا،بہلول لودی اور سلطان فاتح دونوں ہم عصر تھے،بہلول لودی نے سلطان فاتح کی وفات کے بعد بھی چند سال تک ہندوستان میں حکومت کی کشمیر کا مشہور علم دوست اورروشن خیال بادشاہ زین العابدین بھی سلطان فاتح کا ہم عصر تھا مگر وہ کئی سال پہلے فوت ہوچکا تھا، اسی سال یعنی ۵ صفر ۸۸۶ھ کو ملک دکن میں ملک التجار خواجہ جہاں محمود گاوان وزیر سلطان محمد شاہ بہمنی مقتول ہوا، سلطان فاتح کی وفات سے پورے گیارہ سال بعد یعنی یکم ربیع الاوّل ۸۹۷ھ کو اندلس میں اسلامی حکومت کا چراغ گل ہوا اور غرناطہ پر عیسائیوں نے قبضہ پایا، یا یوں سمجھنا چاہئے کہ جب سلطان فاتح کا انتقال ہوا ہے تو اندلس میں اسلامی حکومت دم توڑ رہی تھی،کاش سلطان فاتح اورچند سال زندہ رہتا اوراٹلی کا ملک فتح ہوکر سلطنت عثمانیہ میں شامل ہوجاتا تو پھر یقیناً عیسائیوں کو یہ موقعہ نہیں مل سکتا تھا کہ وہ غرنامہ کی اسلامی سلطنت کا نام ونشان مٹا سکتے ؛بلکہ غرناطہ کی اسلامی سلطنت جو دم بدم کمزور ہوتی چلی جاتی تھی ،عثمانیہ سلطنت سے امداد پاکر یکایک تمام جزیرہ نمائے اسپین پر چھاجاتی اورپھر تمام براعظم یورپ اسلامی جھنڈے کے سایہ میں ہوتا،غرض کہ سلطان فاتح کی وفات عالمِ اسلام کے لئے مصیبت عظمیٰ تھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون