انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** دولت عبیدیہ کا آغاز عبیداللہ مہدی سب سے پہلا بادشاہ اپنے آپ کومحمد بن جعفر بن محمد بن اسماعیل بن جعفر صادق کا بیٹا بتاتا تھا؛ لیکن اس کے نسب میں لوگوں نے سخت اختلاف کیا ہے؛ مگرحقیقت یہ ہے کہ وہ مجوسی تھا، بعض نے اس کونصرانی کہا ہے، شیخ المناظرین قاضی ابوبکر باقلانی نے بھی عبیداللہ مہدی کے عالی نسب ہونے سے انکار کیا ہے، مشاہیر علماء نے خلیفہ قادر باللہ کے عہد میں جب کہ اس کے نسب کا مسئلہ زیرغور تھا، صاف طور پرعبیداللہ مہدی کواپنے دعوئے علویت میں کاذب قرار دیا تھا، ان علماء میں ابوالعباس ابیوذرہ، ابوحامد اسفرائنی، ابوجعفر نسفی، قدوری وغیرہ شامل ہیں، علویہ میں سے مرتضیٰ بن بطحاوی، ابن ارزق نے بھی عبیداللہ مہدی کودعویٰ نسبت میں دروغ گو اور مفتری قرار دیا ہے، عبیداللہ مہدی غالی شیعہ تھا، علمائے شیعہ نے بھی اس کے علوی ہونے سے انکار کیا ہے، مثلاً ابوعبداللہ بن نعمان نے بھی عبیداللہ مہدی کوعلویت کے دعوے میں کاذب قرار دیا ہے، امام المورخین علامہ شیخ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑے زور کے ساتھ عبیداللہ مہدی کواپنے نسب کے دعوے میں جھوٹا اور مجوسی النسل ثابت کیا ہے؛ مگرعلم تاریخ کے ایک اور بہت بڑے امام یعنی ابنِ خلدون نے عبیداللہ کوعلوی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے؛ انھوں نے مقدمہ ابن خلدون میں بھی اور اپنی تاریخ میں بھی عبیداللہ کونسب کے دعویٰ میں سچا تسلیم کیا ہے؛ لیکن ابنِ خلدون نے اس معاملے میں جودلائل پیش کیے ہیں، وہ نہایت ہی کمزور ہیں اور امام ابنِ خلدون کے مرتبے کا تصور کرتے ہوئے توبہت ہی مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں، مثلاً: وہ لکھتے ہیں کہ عبیداللہ کے خاندان میں ایک زبردست سلطنت قائم ہوگئی؛ اگروہ علوی نہ ہوتا تولوگ اس کی بادشاہت کوتسلیم نہ کرتے اور اس کے جھنڈے کے نیچے اپنے سرنہ کٹاتے، کسی کے نسب کی نسبت ثبوت پیش کرتے ہوئے اس قسم کی دلیل کا پیش کرنا یقیناً ایک تمسخرانگیز چیز ہے اور حقیقت یہ ہے کہ امام ابنِ خلدون کے پاس اس معاملہ میں دلیل ایک بھی نہیں ہے؛ وہ چونکہ خود مغربی ہیں؛ اس لیے ایک مغربی حکمران خاندان کے نسب کا مجہول ہونا ان کوبالطبع ناپسند ہے؛ اسی طرح وہ مراکش کی سلطنتِ ادریسیہ کوبھی علوم ہی ثابت کرنے میں پورا زور لگاتے ہیں اور ادریس ثانی کوادریس اوّل کا بیٹا ثابت کرنے اور ایک بربری عورت کی عصمت وعفت کوبلاضرورت زیربحث لانے میں پورازور صرف کرتے ہیں؛ کیونکہ وہ ہی ایک مغربی سلطنت تھی، ممکن ہے کہ یہ بدگمانی امام موصوف کی نسبت ایک معصیت ہو، أَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَأَتُوْبُ إِلَيْه۔ بہرحال ان سلطنتوں کی تاریخ مسلسل طور پرجس مقام سے شروع ہوگی، وہاں پورے طور پریہ نسبت کی بحث درج کی جائے گی۔ ابن حوشب نجار ایک کوفی ثم یمنی نے جوقرمطی اور شیعہ تھا، حلوانی وسفیانی نام کے دومناد ملک افریقہ میں بھیجے کہ وہاں جاکر لوگوں کومحبت اہلِ بیت کی دعوت دیں اور بہ تدریج اپنی تحریک کوپھیلائیں، ان دونوں نے افریقہ کے ایک مقام کتامہ نامی میں قیام کرکے لوگوں کواس طرف بلایا اور ایک معقول تعداد کواپنا ہم خیل بنالیا اور اس بات کا یقین دلایا کہ شیخین رضوان اللہ علیہم غاصب خلافت تھے، اس لیے ان سے تبرا کرنا واجب ہے اور خلافت وامامت صرف اولاد علی رضی اللہ عنہ کا حق ہے، مقام کتامہ اس تحریک کامرکز بن گیا، وہاں سے جب یہ خبر آئی کہ حلوانی وسفیانی دونوں مرگئے توعبیداللہ مذکور نے ایک شخص ابوعبداللہ حسین بن احمد بن محمد بن زکریا شیعی کوجوصنعاء کا رہنے والا تھا، یہ یقین دلاکرکہ میں امام جعفر صادق کی اولاد سے ہوں، اپنا داعی بناکر افریقہ کی طرف روانہ کیا اور سمجھا دیا کہ اسماعیل بن جعفر صادق کے بیٹے محمد معروف بہ محمد مکتوم میرے پردادا تھے، اس لیے تم کتامہ میں جاکر قیام کرنا کیونکہ کتامہ اور مکتوم دونوں کتمان سے مشتق ہیں۔ ابوعبداللہ اوّل یمن میں ابن حوشب کے پاس گیا، وہاں سے حجاج کے ایک قافلہ کے ساتھ مکہ مکرمہ میں آیا؛ یہاں اس نے کتامہ کے حاجیوں کا قافلہ تلاش کرکے ان کے ساتھ واقفیت پیدا کی؛ انہوں نے اس کے زہدوورع کودیکھ کرخوب خدمت وتعظیم کی، حج سے فارغ ہوکر جب وہ لوگ افریقہ کی جانب روانہ ہوئے توابوعبداللہ بھی ان ہی کے ساتھ ہولیا؛ انہوں نے بہت ہی غنیمت سمجھا، کتامہ میں جاکر انہوں نے اس کے قیام کے لیے کوہ انکجان پرایک مکان بنادیا، جس کا نام فج الاخیار رکھا، وہاں ابوعبداللہ مصروف عبادت رہنے لگا اور لوگ اس کے پاس بڑی گرویدگی کے ساتھ آنے جانے لگے، ابوعبداللہ نے وہاں ظاہر کیا کہ مہدی عنقریب ظاہر ہونے والے ہیں اور انہوں نے ہم کواسی مقام پرقیام کرنے کی ہدایت کی تھی اور یہ بھی فرمایا تھا کہ ہمارے انصار کا نام مشتق ہے، کتمان سے وہ اہلِ کتامہ ہی ہوں گے، رفتہ رفتہ ابوعبداللہ کی حکومت وسیادت کتامہ میں قائم ہوگئی۔ یہ خبرابراہیم بن احمد بن اغلب والی افریقہ کے پاس دارالسلطنت قیروان میں پہنچی تواس نے ولایت میلہ کے عامل کولکھا کہ ابوعبداللہ جوکتامہ میں مقیم ہے، اس کے حالات کے بارے میں اطلاع دو، عامل نے لکھ کربھیج دیا کہ وہ ایک تارک الدنیا شخص ہے، لوگوں کونماز روزہ کی نصیحت کرتا رہتا ہے، ابراہیم یہ سن کرخاموش ہوگیا، چند ہی روز کے بعد ابوعبداللہ نے اپنی جمعیت کومضبوط کرکے شہر میلہ پرحملہ کردیا اور بعد محاصرہ وہاں کے عامل کوبے دخل کرکے میلہ پرقابض ومتصرف ہوگیا، یہ سن کرابراہیم بن احمد اغلبی نے اپنے بیٹے احول کوایک لشکر کے ساتھ اس طرف روانہ کیا، ابوعبداللہ شہرمیلہ سے شکست کھاکر کتامہ کی جانب فرار ہوا اور کوہِ انکجان میں جاکر دم لیا، احول وہاں سے قیروان کولوٹ گیا؛ اسی عرصہ میں ابراہیم بن احمد بادشاہ افریقہ نے وفات پائی، اس کا بیٹا ابوالعباس تخت نشین ہوا۔ ابوعبداللہ نے انکجان میں ایک شہر آباد کیا، جس کا نام دارالہجرۃ رکھا، احول اس کی سرکوبی کے لیے انکجان کی طرف آیا، ادھر ابوالعباس کا انتقال ہوگیا، اس کے بعد اس کا بیٹا زیادۃ اللہ تخت نشین ہوا، زیادۃ اللہ نے احول کوبلاکرکسی وجہ سے قتل کردیا، ابوعبداللہ کودم بہ دم طاقت حاصل ہوتی چلی گئی، اس نے اہلِ کتامہ کا ایک وفد عبیداللہ مہدی کے سپا علاقہ حمص کی طرف، جہاں عبیداللہ مقیم تھا، روانہ کیا اور اپنی کامیابی اور فتوحات کے متعلق اطلاع دے کرلکھا کہ اب آپ اس طرف تشریف لائیں، اس وفد کے آنے اور اس کے بارے میں خبر لانے کا حال جاسوسوں کے ذریعہ سے خلیفہ مکتفی باللہ کومعلوم ہوا، اس نے فوراً عبیداللہ کی گرفتاری کا حکم جاری کردیا اور مصر کے گورنرعیسیٰ نوشریٰ کوبھی (اس زمانہ میں عیسیٰ نوشری بنی طولون کی بربادی کے بعد مصر کا گورنر تھا) لکھا کہ عبیداللہ کوجومصر میں ہوکر گزرے گا، گرفتار کرلو، خلیفہ مکتفی کے اس حکم کوبھی ابن خلدون نے عبیداللہ کے علوی ہونے کی دلیل ٹھہرایا ہے، یعنی اگرعبیداللہ خاندان اہلِ بیت سے نہ ہوتا تومکتفی اس کی گرفتاری کا حکم جاری نہ کرتا؛ حالانکہ یہ بہت ہی کمزور دلیل ہے، اس لیے کہ ہرایک ہنگامہ پسند اور خواہانِ سلطنت شخص کوجوخفیہ طور پرکوششوں میں مصروف ہو، گرفتار کرنا ہرایک سلطنت کا فرض ہوتا ہے، چاہے اس کی سازش اور ریشہ دوانی کا مقام اس سلطنت کے حدود سے باہر ہی کیوں نہ ہو اور ظاہر ہے کہ شاہانِ افریقہ یعنی خاندانِ اغلب کے فرماں روا عباسیہ خلافت کی سیادت کوتسلیم کرتے اور خطبوں میں عباسی خلیفہ کا نام لیتے تھے؛ نیز یہ کہ افریقہ کی سرحد مصر سے ملی ہوئی تھی؛ لہٰذا مکتفی یہ کیسے گوارا کرسکتا تھا کہ افریقہ میں کوئی فتنہ برپا ہو۔ عبیداللہ حمص سے اپنے لڑکے اور متعلقین کولے کرچلا، اس نے سوداگروں کی وضع اختیار کررکھی تھی اور بھیس بدلے ہوئے سوداگروں کے قافلہ کے ساتھ تھا، وہ مصر میں گرفتار ہوا مگرپھراس کونوشریٰ نے دھوکا کھاکر چھوڑ دیا، مصرف سے گزرکر وہ افریقہ کی حدود میں داخل ہوا؛ یہاں بھی زیادۃ اللہ کے جاسوس اس کی فکر میں تھے؛ مگروہ سب سے بچتا بچاتا ریاست سلحماسہ میں پہنچا، وہاں کے حاکم نے اس کوپکڑ کرمع اس کے لڑکے کے قید کردیا، زیادۃ اللہ عیس وعشرت میں مصروف تھا، سلطنت کے کاموں کی طرف اس کومطلق توجہ نہ تھی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابوعبداللہ شیعی کی طاقت دم بہ دم ترقی کرتی گئی اور اس کی کوئی روک تھام نہ کی گئی، جب زیادۃ اللہ نے دیکھا کہ ابوعبداللہ شیعی نے افریقہ کے بہت سے علاقہ پرقبضہ کرلیا ہے اور دم بہ دم ملک کودباتا چلا آتا ہے تواس نے ایک زبردست لشکر فراہم کرکے ابوعبداللہ کی سرکوبی کے لیے مامور کیا، ابوعبداللہ تاب مقاومت نہ لاکر ایک بلند پہاڑ کی چوٹی پرچڑھ گیا، چھ مہینے اس پہاڑ پرمحصور رہا، ساتویں مہینے ایک کامیاب شب خون مارکر لشکر افریقہ کوبھگادیا اور پھریکے بعد دیگرے شہروں پرقبضہ کرنا شروع کردیا، زیادۃاللہ نے ایک دوسرے سردار کوپھرمقابلہ پربھیجا، اس کوشکست ہوئی، تب سنہ۲۹۵ھ میں زیادۃ اللہ نے خاص اہتمام کے ساتھ فوجوں اور سپہ سالاروں کوابوعبداللہ کی سرکوبی پرمامور کیا؛ مگراب ابوعبداللہ کا رعب قائم ہوچلا تھا، سال بھر تک برابر لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا، کبھی ابوعبداللہ کوشکست ہوئی، کبھی لشکر افریقہ کو، اس عرصہ میں ابوعبداللہ کی جمعیت بڑھتی چلی گئی اور لوگ آکراس کی فوج میں شامل ہوتے گئے، زیادۃ اللہ کی فوج کم ہورہی تھی، ایک کے بعد دوسرا شہر ابوعبداللہ کے قبضہ میں آتا گیا؛ یہاں تک کہ زیادۃ اللہ کے سرداران فوج بھی یکے بعد دیگرے ابوعبداللہ کے پاس آآکر حاضر ہونے لگے۔ عرربہ بن یوسف اور حسن بن ابی خزیر نے حاض رہوکر ملازمت حاصل کی، ماہِ رجب سنہ۲۹۶ھ میں ابوعبداللہ نے دارالسلطنت قیروان پرقبضہ کرکے زیادۃ اللہ کوبھگادیا اور شاہی محلات میں اہلِ کتامہ کوقیام کا موقع دیا؛ پھرسلجماسہ پرچڑھائی کرکے وہاں کے حام السیع بن مدرار کوشکست دے کرگرفتار وقتل کیا اور عبیداللہ مہدی مذکور کوجیل خانہ سے نکال کرگھوڑے پرسوار کیا اور اس کے پیچھے یہ کہتا ہوا ھَذَا مَوْلَاکُمْ، ھَذَا مَوْلَاکُمْ لشکر گاہ میں آیا، وہاں سے کوچ کرکے شہر رفادہ میں آیا، عبیداللہ کے ہاتھ پرابوعبداللہ اور تمام لوگوں نے بیعت کی اور المہدی امیرالمؤمنین کے لقب سے ملقب کیا، یہ بیعت آخرعشرہ ماہ ربیع الثانی سنہ۲۹۶ھ میں ہوئی اور اسی روز سے دولت عبیدیہ کی ابتدا ہوئی، مہدی عبیداللہ نے تخت نشین ہوتے ہی اپنے داعیوں اور واعظوص کوتمام ملک میں پھیلا دیا، لوگوں نے اس کے مذہب کوقبول کرنے سے انکار کیا توان کے قتل کرنے کا حکم دیا اور اہلِ کتابمہ کو بڑی بڑی جاگیریں اور مناصب عطاکیے، جزیرۂ صقلیہ کی حکومت پرحسن بن احمد بن ابی خزیر کومامور کرکے بھیجا جو۱۰/ذی الحجہ سنہ۲۹۷ھ کواس جزیرہ میں پہنچا اور ظلم وتعدی سے جزیرہ کی تمام رعایا کا ناک میں دم کردیا؛ اسی طرح تمام ملک افریقہ میں عامل ووالی مقرر کرکے باقاعدہ حکومت شروع کردی۔ سنہ۲۹۹ھ میں اہلِ صقلیہ نے حسن بن احمد بن ابی خزیر کی شکایت عبیداللہ مہدی کولکھ کربھیجی اس نے اس کی جگہ علی بن عمر کوصقلیہ کا گورنربناکر بھیجا، اہلِ صقلیہ اس سے بھی ناخوش ہوئے اور اس کومعزول کرکے انہوں نے خود ہی احمد بن موہب کواپنا امیرمنتخب کرلیا، احمد بن موہب نے لوگوں کومقتدرباللہ عباسی خلیفہ کی اطاعت پرآمادہ کیا اور مہدی کا نام خطبہ سے نکال کرمقتدرباللہ کا نام خطبہ میں داخل کردیا اور جنگی جہازوں کا بڑیہ مرتب کرکے ساحل افریقہ کی طرف روانہ کیا۔ عبیداللہ مہدی نے مقابلہ کے لیے ایک جنگی بیڑہ حسین بن علی بن خزیر کی ماتحتی میں مقابلہ پرروانہ کیا، دونوں بیڑوں میں بحری جنگ ہوئی، ابن خزیر مارا گیا اور عبیداللہ مہدی کے بیڑے کواہلِ صقلیہ نے جلاکر ڈبودیا، ان حالات کی خبر جب بغداد میں پہنچی توخلیفہ مقتدر نے احمد بن موہب کے پاس سیاہ خلعت اور جھنڈے روانہ کیے اور اس طرح تقریباً ایک سال کے لیے جزیرہ صقلیہ میں عباسی خلیفہ کا خطبہ پڑھا گیا، عبیداللہ مہدی نے ایک زبردست جنگی بیڑہ تیار کرکے صقلیہ کی طرف روانہ کیا، جس سے احمد بن موہب کی طاقت ٹوٹ گئی اور اہلض صقلیہ نے اس کواپنے سپاہیوں کے ہمراہیوں کے عبیداللہ مہدی کے پاس بھیج کرخود عفوتقصیرات کی درخواست کی، عبیداللہ مہدی نے حکم دیا کہ احمد بن موہب اور اس کے ہمراہیوں کوابن خزیر کی قبر پرلے جاکر قتل کردو، یہ سواقعہ سنہ۳۰۰ھ میں وقوع پذیر ہوا۔