انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت فاطمہ بنتِ قیس رضی اللہ عنہا نام ونسب فاطمہ نام، سلسلہ نسب یہ ہے، فاطمہ بنتِ قیس بن خالد اکبر بن وہب بن ثعلبہ ابن وائلہ بن عمروبن شیبان بن محارب بن فہر، والدہ کا نام امیمہ بنت ربیعہ تھا اور بنی کنانہ سے تھیں۔ نکاح ابوعمروبن حفص بن مغیرہ سے نکاح ہوا۔ اسلام اسلام کے ابتدائی دور میں ایمان لائیں۔ ہجرت اور ہجرت کی۔ عام حالات سنہ ۱۰ھ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک لشکر لے کریمن گئے تھے ابوعمروبھی ان کے ساتھ تھے چلتے وقت عیاش بن ابی ربیعہ کی معرفت اپنی بیوی کوآخری طلاق (دوطلاق پہلے دے چکے تھے) اور پانچ، پانچ صاع جو اور خرمے بھیجے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کھانے اور مکان کا مطالبہ کیا توعیاش نے کہا کہ جوکچھ دیا گیا ہے محض احسان ہے؛ ورنہ ہمارے ذمہ یہ بھی ضروری نہیں، اس جواب پرفاطمہ رضی اللہ عنہاکوغصہ آیا اور اپنے کپڑے لے کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئیں، خالد بن ولید وغیرہ بھی پہنچے، آپ نے دریافت کیا کہ انہوں نے تم کوکتنے مرتبہ طلاق دی، بولیں ۳/مرتبہ فرمایا اب تم کونفقہ نہیں مل سکتا (عدت کے اندر عورت کا کھانا کپڑا اسی مرد کے ذمہ ہے جس نے طلاق دی ہے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت قیس کی اس روایت کے متعلق بڑی بحث ہے جس کے ذکر کا یہاں موقع نہیں ہے) تم ام شریک کے ہاں عدت کے دن پورے کرو؛ لیکن چونکہ ام شریک رضی اللہ عنہا کے اعزہ واقارب ان کے مکان میں آتے جاتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن ام مکتوم نابینا اور تمہارے ابن عم ہیں اس لیے بہتر ہے کہ تم ان کے ہاں رہو، عدت کا زمانہ پورا ہوا توہرطرف سے پیغام آئے، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ، ابوجہم اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بھی پیغام دیا؛ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دوشخصوں کا پیغام اس لیے مسترد کردیا کہ اوّل الذکر مفلس اور دوسرے تند مزاج تھے؛ پھرفاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ تم اُسامہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کرلو؛ چونکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کوخیال تھا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کواپنی زوجیت کا شرف عطا فرمائیں گے، اس لیے انکار کیا، ارشاد ہوا خدا اور رسول کی اطاعت کرو، اس میں تمہارے لیے بھلائی ہے، یہ سن کرفاطمہ رضی اللہ عنہا مجبور ہوئیں اور حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کرلیا کہتی ہیں کہ پھرمیں قابل رشک بن گئی۔ (مسلم:۱/۵۸۳) سنہ۲۳ھ میں جب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے انتقال کیا تومجلسِ شوریٰ کا اجلاس فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی کے مکان میں ہوتا تھا۔ (اسدالغابہ:۵/۵۲۶) سنہ۵۴ھ میں حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ نے انتقال فرمایا، فاطمہ رضی اللہ عنہا کوسخت صدمہ ہوا، دوسری شادی نہیں کی اور اپنے بھائی ضحاک کے ساتھ رہیں جب یزید نے اپنے عہد حکومت میں ان کوعراق کا گورنر مقرر کیا توفاطمہ رضی اللہ عنہا بھی ان کے ساتھ کوفہ چلی آئیں اور یہیں سکونت اختیار کی۔ وفات وفات کا سال معلوم نہیں، حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت تک زندہ تھیں۔ (صحیح مسلم:۱/۵۸۶) حلیہ خوبصورت تھیں۔ (اصابہ:۸/۱۶۴) فضل وکمال اسدالغابہ میں ہے: لَھَا عَقْلٌ وَکَمَالٌ۔ ترجمہ: یعنی وہ نہایت عقیل اور صاحب کمال تھیں۔ (اسدالغابہ:۵/۲۶) حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی، عبداللہ بن عمرو (بن عثمان) کومنسوب تھیں انہوں نے ان کوتین طلاقیں دیں، فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کی خالہ ہوتی تھیں کہلا بھیجا کہ میرے گھر چلی آؤ، مروان نے قبیصہ کوبھیجا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے سبب دریافت کرو، قبیصہ نے آکرکہا کہ آپ ایک عورت کوایام عدت گذرنے سے قبل کیوں گھر سے نکالتی ہیں، بولیں اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کویہی حکم دیا تھا، اس کے بعد اپنا واقعہ بیان کیا اور اس کی قرآن مجید سے تائید کی، قرآن مجید میں ہے: إِذَاطَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَاتُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَايَخْرُجْنَ إِلَّاأَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ۔ (الطلاق:۱) ترجمہ:جب تم عورتوں کوطلاق دوتوان کوعدت کے وقت تک طلاق دو اور عدت کوشمار کرو اور خدا سے ڈرو اور ان کوان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ نکلیں مگریہ کہ کھلی ہوئی بے حیائی کی مرتکب ہوں۔ یہ مراجعہ کی صورت تھی، اس کے بعد ہے: فَإِذَابَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْفَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ۔ (الطلاق:۲) ترجمہ:پس جب میعاد کوپہنچ جائیں توان کواچھی طرح روکے رکھو یااچھی طرح جدا کردو۔ اس بناپر تین مرتبہ کے بعد پھرکسی صورت کا احتمال نہیں ہے، اس کے بعد فرمایا کہ چونکہ تمہارے نزدیک عورت جب تک حاملہ نہ ہو اس کا نفقہ نہ دینا چاہئے، اس لیے اس کوروک رکھنا بالکل بے کار ہے، جب مروان کوحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اس گفتگو کی اطلاع ہوئی توکہا یہ ایک عورت کی بات ہے اور ان متعلقہ خاتون کوحکم دیا کہ اپنے گھرواپس آئیں؛ چنانچہ وہ واپس آئیں اور وہیں عدت گذاری۔ (صحیح مسلم:۱/۵۸۴۔ مسند:۶/۴۱۵،۴۱۶) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چند حدیثیں روایت کی ہیں، جومتعدد اشخاص کے ذریعہ سے مروی ہیں، ان میں سے چند نام یہ ہیں: قاسم بن محمد، ابوبکر بن ابوالجہم، ابوسلمہ، سعید بن مسیب، عروہ، عبداللہ بن عبداللہ، اسود، سلیمان بن یسار، عبداللہ البہی، محمدبن عبدالرحمان بن ثوبان، شعبی، عبدالرحمان ابن عاصم، تمیم۔ اخلاق عادات واخلاق نہایت شریفانہ تھے، شعبی جوان کے شاگرد تھے، ملنے کوآئے توانہوں نے چھوہارے کھلائے اور ستوپلایا۔ (صحیح مسلم:۱/۵۸۵)