انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** شعب ابی طالب یہ عہد نامہ کعبہ میں اس اعلان کے ساتھ لٹکایا گیا کہ جب تک بنی ہاشم ‘ محمد بن عبداللہ کو قریش کے حوالے نہیں کریں گے یہ لٹکا رہے گا، ابو طالب مجبور ہو کر بنو ہاشم اور بنی مطلّب کی حفاظت کی خاطرپہلی محرم ۷ نبوی کی شب کو تمام خاندان بنی ہاشم کے ساتھ بجز ابولہب کے کوہ ابو قبیس میں واقع گھاٹی شعب ابی طالب میں پناہ گزیں ہو گئے ، گھاٹی کو عربی میں شعب کہتے ہیں، کوہ ابو قبیس میں کئی گھاٹیاں تھیں جیسے شعب المطلب ، شعب بنی ہاشم، شعب بنی اسد ، شعب بنی عامر ، شعب بنی کنانہ وغیرہ ، یہ شعب بنی ہاشم کی موروثی ملکیت تھی، اس وقت بنی ہاشم کے سردارابو طالب تھے اس لئے یہ گھاٹی ان ہی کے نام سے شعب ابی طالب کہلانے لگی، آج کل شعب ابی طالب مکہ کے بازار "سوق اللیل " کے مقابل ایک بستی ہے جو اطراف کی تین گھاٹیوں کے درمیان ہے، اسے محلۂ ہاشمی بھے کہتے ہیں، مولد النبی ، مولد علی اور دارِ خدیجہؓ اس شعب میں واقع ہیں، اسے شعب علی ؓیا شعب بنی ہاشم کہا جاتا ہے۔ (تاریخ مکہ معظمہ - مصباح الدین شکیل - سیرت احمد مجتبیٰ) اس محصوری کے زمانے میں تمام محصورین مصائب و آلام کاشکار تھے کھانے پینے کی چیزوں کا ذخیرہ چند مہینوں میں ختم ہو گیا اس لئے فقر و فاقہ کی نوبت آگئی اور جب بچے بھوک سے روتے تھے تو باہر قریش سن سن کر خوش ہوتے تھے، حدیثوں میں جو صحابہ ؓ کی زبان سے مذکور ہے کہ ہم طلح کی پتیاں کھا کھا کر بسر کرتے تھے یہ اسی زمانہ کا واقعہ ہے، چنانچہ سہیلی نے روض الانف میں تصریح بھی کی ہے، حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رات کو اونٹ کا سوکھا ہوا چمڑا ہاتھ آگیا میں نے اس کو پانی سے دھویا ‘ پھر آگ پر بھونا اور پانی میں ملا کر کھایا۔ (شبلی نعمانی - سیرۃ النبی جلد اول) حُبّ رسول اور اسلام کی خاطر تمام محصورین یہ تکالیف برداشت کر رہے تھے، اُم المومنین حضرت خدیجہؓ نے جو ناز و نعم میں پلی بڑھی تھیں ؛لیکن ہرطرح کی مصیبت اور فقر و فاقہ برداشت کیا اور حضور ﷺ کی غم گساری کی اور مسلم خواتین کے لئے ایک بہترین مثال چھوڑ گیئں،محصوری کے دوران ابو طالب اس قدر احتیاط کرتے تھے کہ جب لوگ اپنے بستروں پر سونے کے لئے دراز ہوجاتے تو رسول اﷲ ﷺ کو ایک بستر پر لیٹنے کے لئے کہتے تاکہ آپﷺ کے قتل و غارت کا ارادہ رکھنے والا دیکھ لے(کہ آپﷺ یہاں سو رہے ہیں) جب لوگ نیند میں مدہوش ہوجاتے تو اپنے کسی عزیز کو بیدار کرکے رسول اﷲﷺ کے بستر پر دراز ہونے کو کہتے اور رسول اﷲﷺ کو اس کے بستر پر لیٹ جانے کا اشارہ کرتے،محصورین صرف ایام حج میں ہی شعب سے باہر نکل سکتے تھے اور اس وقت بھی قریش یہ کرتے کہ کھانے پینے کی چیزوں کو زائد قیمت پر خرید لیتے تا کہ محصورین کو کچھ نہ مل سکے جس کا منشاء صرف ان کاعرصۂ حیات تنگ کرنا تھا، بعض رحم دل انسانوں کو محصورین کی اس حالت پر ترس بھی آتا تو وہ چوری چھپے کچھ غلہ پہنچانے کی کوشش کرتے ؛لیکن کڑی نگرانی کے باعث انھیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ، ایک روزحکیم بن حزام نے جو حضرت خدیجہ ؓ کے بھتیجے تھے راتوں میں چھپ چھپاتے ہوئے اپنے غلام کے ذریعہ کچھ گیہوں بھیجے تو راستہ میں ابو جہل نے دیکھا اور چھین لینا چاہا، اتفاق سے ابو البختری بن ہشام وہاں آگیا اور اس نے بیچ بچاؤ کیا، وہ اگرچہ کافر تھا؛ لیکن اس کو بھی رحم آیا اور کہا کہ ایک شخص اپنی پھوپھی کو کھانے کے لئے کچھ غلہ بھیجتا ہے تو کیوں روکتا ہے، لیکن ابوجہل نے سر کشی دکھائی تو ابو البختری نے قریب میں پڑی اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اس پر دے ماری اور خوب زد و کوب کیا،یہ منظر شعب سے حضرت حمزہؓ دیکھ رہے تھے۔ (مصباح الدین شکیل - سیرت احمد مجتبیٰ) عبد مناف کا ایک رشتہ دار ہشام بن عمرو بن حارث تھا جو بہت شریف اور نیک طینت انسان تھا، محصور ین کی حالت پر رحم کھا کر رات میں اونٹ پر اجناس لاد کر شعب میں ہانک دیتا ، بنی ہاشم سامان اتار کر اونٹ کو باہر بھیج دیتے، آنحضرت ﷺکے بڑے داماد ابو العاصؓ بن ربیع( حضرت زینبؓ کے شوہر) جن کا تعلق بنی اُمیہ سے تھا وہ بھی اکثر راتوں میں کھجور اور گیہوں شعب میں بھجوادیتے۔