انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اٹھویں مثال حضرت نعمان بن بشیرؓ(۷۴ھ) کہتے ہیں کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: "ان مثل المدھن فی امراللہ کمثل رھط رکبواسفینۃ فاقترعوا علی المنازل فیھا فاصاب بعضھم اعلی السفینۃ واصاب بعضہم اسفلھا فاطلع مطلع من الذین اعلی السفینۃ فاذا بعض من فی اسفلھا یخرقھا، قال ماتصنع یافلان؟ قال اخرق مکانا فاستقی منہ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فان غیرواعلیہ نجی ونجوا وان ترکوہ یخرقھا غرق وغرقوا"۔ (رواہ البخاری والترمذی واحمد:۴/۲۶۸،۲۷۰) ترجمہ:اللہ کے دین میں مداہنت کرنے والے(بے دینی کو آرام سے برداشت کرنے والوں) کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو ایک کشتی میں سوار ہوئے اوراس کی مختلف منازل میں اترے، کچھ اوپر کے حصہ میں پہنچے اورکچھ نیچے کے حصہ میں،اوپر کے حصہ میں جو لوگ تھے ان میں سے کسی نے کسی نچلے والے کو کشتی میں سوراخ کرتے دیکھا،اس نے پوچھا کیا کررہے ہو؟ اس نے کہا مجھے پانی چاہئے اس لیے میں سوراخ کررہا ہوں، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر انہوں نے اس کو ایسا کرنے سے روک دیا تو وہ بھی بچ گیا اوریہ بھی بچ گئے اور اگر انہوں نے ایسا کرنے سے نہ روکا تو وہ بھی ڈوبا اوریہ بھی ڈوبے۔ اس مثال میں بتایا گیا ہے کہ یہ امت ایک جسد واحد کی طرح ہے،اس کے جملہ افراد ایک کشتی میں سوار ہیں،کنارے پر پہنچنا یا ڈوبنا سب کے لیے یکساں رہے گا، جونہی کسی نادان نے کوئی نادانی کی اس کی افتاد ساری امت پر آئے گی، سو باقی افراد امت کا فرض ہے کہ جونہی کوئی اس کشتی میں سوراخ کرنے لگے وہ اپنی قومی ذمہ داری سے کام لیں اوراسے ہر ممکن طریق سے روکیں، یہ نہ کہیں کہ ہر شخص اپنے عملوں کاذمہ دار ہے، قومی زندگی میں انسان کبھی دوسرے انسانوں کے اعمال کے اعمال کا بھی ذمہ دار بنتا ہے، معاشرہ ایک اجتماعی زندگی کا نام ہے اوراسے افراد ہی بناتے ہیں؛ سو یہاں ہر فرد کے ذمہ ہے کہ وہ دوسرے افراد کے اعمال پر بھی ساتھ ساتھ نگاہ رکھے۔