انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** محرم ۶۱ھ کے خونی سال کا آغاز بطن عقبہ کے بعد قافلہ شراف میں اترا یہاں سواریوں کو پانی وغیرہ پلاکر ذی حشمہ کی طرف مڑکر پہاڑ کے دامن میں خیمہ زن ہوا، اب محرم ۶۰ ھ کا خون آشام سال شروع ہوچکا تھا،ذی حشمہ میں حربن یزید تمیمی جو حکومت شام کی جانب سے حضرت حسینؓ اوران کے ساتھیوں کو گھیر کر کوفہ لانے کے لئے بھیجا گیا تھا ،ایک ہزار سواروں کے ساتھ پہنچا اورحضرت حسینؓ کے قافلہ کے سامنے قیام کیا، ظہر کے وقت حضرت حسینؓ نے اذان کا حکم دیا اور اقامت کے وقت نکل کر حر کے دستہ کے سامنے حمد وثنا کے بعد حسب ذیل تقریر کی، لوگو! میں خدا اور تم لوگوں سے عذر خواہ ہوں، میں تمہارے پاس خود سے نہیں آیا، ؛بلکہ میرے پاس اس مضمون کے تمہارے خطوط اورتمہارے قاصد آئے کہ ہمارا کوئی امام نہیں آپ آئیے شاید خدا آپ کے ذریعہ ہمیں سیدھے راستہ پر لگادے، اب میں آگیا ہوں، اگر تم لوگ عہد ومیثاق کرکے مجھے پورا اطمینان دلادو تو میں تمہارے شہر چلوں اوراگر ایسا نہیں کرتے اورہمارا آنا تمہیں ناگوار ہے تو میں جہاں سے آیا ہوں وہیں لوٹ جاؤں ۔ یہ تقریر سن کر سب خاموش رہے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، آپ نے اقامت کا حکم دیا اور حر سے پوچھا میرے ساتھ نماز پڑھو گے یا علیحدہ؟ حر نے کہا نہیں آپ کے ساتھ ہی پڑھوں گا حر کی یہ اقتداء فی الصلوٰۃ ان کے لئے پہلی فال نیک تھی؛چنانچہ اس نے امام کے پیچھے نماز پڑھی، نماز کے بعد حضرت حسینؓ اپنے خیمہ میں چلے آئے اورحر اپنے فرودگاہ پر لوٹ گیا۔ اس کے بعد عصر کے وقت حضرت حسینؓ نے قافلہ کو کوچ کا حکم دیا اور کوچ سے پہلے نماز باجماعت ادا کی ،نماز کے بعد حسب ذیل تقریر کی: لوگو! اگر تم لوگ خدا سے ڈرواورحقدار کا حق پہچانو،تو یہ خدا کی رضا مندی کا موجب ہوگا، ہم اہل بیت خلافت کے ان عہدیداروں کے مقابلہ میں جنہیں اس کا کوئی استحقاق نہیں اور جو تم پر ظلم و زیادتی کے ساتھ حکومت کرتے ہیں خلافت کے حقیقی مستحق ہیں، اگر اب تم کو ہماراآنا ناگوار ہے اور تم ہمارا حق نہیں پہچانتے اور تمہاری رائے اس سے مختلف تھی جو تمہارے خطوط اور تمہارے قاصدوں سے معلوم ہوئی تھی تو میں لوٹ جاؤں۔ (طبری:۷/۲۹۷،۲۹۸)