انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت سعد بن معاذؓ نام ونسب سعد نام،ابو عمر وکنیت،سید الاوس لقب، قبیلہ عبدالاشہل سے ہیں سلسلہ نسب یہ ہے ،سعد بن معاذ بن نعمان بن امرؤ القیس بن زید بن عبدالاشہل بن حشم بن حارث بن خزرج بن بنت (عمرو) بن مالک بن اوس، والدہ کا نام کبشہ بنت رافع تھا، جو حضرت ابو سعیدؓ خدری کی چچا زاد بہن تھیں، قبیلۂ اشہل ،قبائل اوس میں شریف ترین قبیلہ تھا، اور سیادت عامہ اس میں وراثۃ چلی آتی تھی،چنانچہ حضرت سعدؓ کے تمام مورث اپنے اپنے زمانہ میں تاج سیادت زیب سرکئے تھے۔ والد نے ایام جاہلیت ہی میں وفات پائی،والدہ موجود تھیں ہجرت سے پیشتر ایمان لائیں اورحضرت سعدؓ کے انتقال کے بعد بہت دنوں تک زندہ رہیں۔ اسلام اگرچہ عقبہ اولیٰ میں یثرب کی سر زمین پر خورشید اسلام کا پرتو پڑچکا تھا،لیکن حقیقی ضیا گستری حضرت مصعبؓ بن عمیر کی ذات سے وابستہ تھی،چنانچہ جب وہ داعی اسلام بن کر مدینہ پہنچے تو جو کان اس صدا سے نا آشنا تھے ان کو بھی چار وناچار اس کے سننے کے لئے تیار ہونا پڑا۔ سعد بن معاذ ابھی حالت کفر میں تھے، ان کو مصعب کی کامیابی پر سخت حیرت اور اپنی قوم کی بے وقوفی پر انتہا درجہ کا حزن وملال تھا۔ (خلاصۃ الوفاء باخبار دارالمصطفیٰ :۹۲) لیکن ایک دن ان پر بھی حضرت مصعب بن عمیرؓ کا اثر پڑگیا،اسعد بنؓ زرارہ نے جن کے مکان میں حضرت مصعبؓ فروکش تھے،ان سے کہا تھا کہ سعد بن معاذ مسلمان ہوجائیں گے تو دو آدمی بھی کافر نہ رہ سکیں گے، اس لئے آپ کو ان کے مسلمان کرنے کی فکر کرنی چاہیے، سعد بن معاذؓ حضرت مصعبؓ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں،آپ بیٹھ کر سن لیجئے،ماننے نہ ماننے کا آپ کو اختیار ہے سعد نے منظور کیا توحضرت مصعبؓ نے اسلام کی حقیقت بیان کی اور قرآن مجید کی چند آیتیں پڑھیں جن کو سن کر سعد بن معاذؓ کلمۂ شہادت پکار اٹھے اورمسلمان ہوگئے۔ قبیلہ عبدالاشہل میں یہ خبر فوار پھیل گئی،سعدؓ گھر گئے تو خاندان والوں نے کہا کہ اب وہ چہر ہ نہیں! حضرت سعدؓ نے کھڑے ہوکر پوچھا میں تم میں کس درجہ کا آدمی ہوں؟ سب نے کہا سردار اور اہل فضیلت فرمایا تم جب تک مسلمان نہ ہوگے میں تم سے بات چیت نہ کروں گا، حضرت سعدؓ کو اپنی قوم میں جو عزت حاصل تھی اس کا یہ اثر ہوا کہ شام ہونے سے قبل تمام قبیلہ مسلمان ہوگیا اور مدینہ کے در ودیوار تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھے۔ اشاعتِ اسلام میں یہ حضرت سعدؓ کا نہایت عظیم الشان کارنامہ ہے،صحابہ میں کوئی شخص اس فخر میں انکا حریف نہیں،آنحضرتﷺ نے اسی بناء پر فرمایا ہے " خیرد ود الانصار بنو النجار ثم بنو عبدالاشھل" یعنی انصار کے بہترین گھرانے بنو نجار کے ہیں اوران کے بعد عبدالاشہل کا درجہ ہے ،سعدؓ اوران کے قبیلہ کا اسلام عقبہ اولی اورعقبہ ثانیہ کے درمیان کا واقعہ ہے۔ مسلمان ہوکر حضرت سعدؓ نے حضرت مصعبؓ کو اسعد بنؓ زرارہ کے مکان سے اپنے ہاں منتقل کرلیا۔ غزوات اور دیگر حالات کچھ دنوں بعد عمرہ کی غرض سے مکہ روانہ ہوئے اور امیہ بن خلف کے مکان پر (جو مکہ کا مشہور رئیس اوران کا دوست تھا)قیام کیا (امیہ مدینہ آتا تھا تو انکے ہاں ٹھہرا کرتا تھا) اورکہا کہ جس وقت حرم خالی ہو مجھے خبر کرنا، چنانچہ دوپہر کے قریب اس کے ساتھ طواف کے لئے نکلے راستہ میں ابو جہل سے ملاقات ہوئی ،پوچھا یہ کون ہیں؟ امیہ نے کہا"سعد" ابو جہل نے کہا تعجب ہے کہ تم صابیوں (بے دین ،آنحضرتﷺ اورصحابہؓ مراد ہیں) کو پناہ دے کر اوران کے انصار بن کر مکہ میں نہایت اطمینان سے پھر رہے ہو ،اگر تم ان کے ساتھ نہ ہوتے توتمہارا گھر پہنچنا دشوار ہوجاتا، حضرت سعدؓ نے غضب آلود لہجہ میں جواب دیا، تم مجھے روکو پھر دیکھنا کیا ہوتا ہے؟ میں تمہارا مدینہ کا راستہ روک دونگا امیہ نے کہا "سعد ابو الحکم (ابو جہل) مکہ کا سردار ہے،اس کے سامنے آواز پست کرو" حضرت سعدؓ نے فرمایا،چلو ہٹو، میں نے آنحضرتﷺ سے سنا ہے کہ مسلمان تم کو قتل کریں گے،بولا کیا مکہ میں آکر ماریں گے؟ جواب دیا اس کی خبر نہیں۔ (بخاری:۲/۵۶۳) اس پیشن گوئی کے پورا ہونے کا وقت غزوۂ بدر تھا کفار قریش نے مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے نہایت ساز وسامان سے تیاریاں کی تھیں، آنحضرتﷺ کو خبر ہوئی تو صحابہؓ سے مشورہ کیا، حضرت سعدؓ نے اُٹھ کر کہا یا رسول اللہ ﷺ ہم آپ پر ایمان لائے، رسالت کی تصدیق کی،اس بات کا قرار کیا کہ جو کچھ آپ لائے ہیں حق اور درست ہے سمع اورطاعت پر آپ سے بیعت کی پس جو ارادہ ہو کیجئے، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا اگر آپ سمندر میں کود نے کو کہیں تو ہم حاضر ہیں ہمارا ایک آدمی بھی گھر میں نہ بیٹھے گا، ہم کو لڑائی سے بالکل خوف نہیں اور انشاء اللہ میدان میں ہم صادق القول ثابت ہونگے، خدا ہماری طرف سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کرے، (زرقافی:۱/۴۷۹) آنحضرتﷺ اس تقریر سے خوش ہوئے فوجوں کی ترتیب کا وقت آیا تو قبیلۂ اوس کا جھنڈا آنحضرتﷺ نے ان کے حوالہ کیا، غزوہ احد میں انہو ں نے آنحضرتﷺ کے آستانہ پر پہرہ دیا تھا۔ کفار سے مقابلہ کے لئے رسول اللہ ﷺ کی رائے تھی کہ مدینہ میں رہ کر کیا جائے، عبداللہ بن ابی بن سلول کا بھی یہی خیال تھا لیکن بعض نوجوان جن کو شوق شہادت دامن گیر تھا باہر نکل کر لڑنے پر مصر تھے ؛چونکہ کثرت رائے انہی کو حاصل تھی اس بنا پر آنحضرتﷺ نے انہی کی تائید کی اور زرہ پہننے کے لئے اندر تشریف لے گئے ،سعد بن معاذؓ اور اسید بن حضیر ؓ نے کہا کہ تم لوگوں نے آنحضرتﷺ کو باہر چلنے کے لئے مجبور کیا ہے؛ حالانکہ آپ پر آسمان سے وحی آتی ہے اس لئے مناسب یہ ہے کہ اپنی رائے واپس لے لو اور معاملہ کو بالکل آنحضرتﷺ پر چھوڑ دو، آنحضرتﷺ تلوار ڈھال اور زرہ لگا کر نکلے تو تمام لوگوں کو ندامت ہوئی،عرض کیا کہ ہم کو حضور کی مخالفت منظور نہیں جو حکم ہو ہم بجالانے پر آمادہ ہیں، ارشاد ہوا کہ اب کیا ہوتا ہے؟ نبی جب ہتھیار باندھ لیتا ہےتو جنگ کا فیصلہ کرکے اتار تاہے۔ (طبقات ابن سعد،جلد۲،قسم۱،صفحہ:۲۶) غرض کوہ احد کے دامن میں لڑائی شروع ہوئی،اسلامی لشکر پہلے فتحیاب تھا ؛لیکن پھر تابِ مقاومت نہ لاکر پیچھے ہٹا، اس وقت آنحضرتﷺ سب سے زیادہ ثابت قدم تھے اورآپ کے ساتھ دو اصحاب دادِ شجاعت دے رہے تھے انہی میں حضرت سعد بن معاذؓ بھی تھے۔ (زرقانی:۲/۴۰) اس غزوہ میں ان کے بھائی عمروشہید ہوگئے۔ (طبقات،جلد۲،قسم۱،صفحہ:۳۰) غزوۂ خندق میں جو ۵ھ میں ہوا،آنحضرتﷺ نےانصار سے مدینہ کے تہائی پھل عینیہ بن حصن بن سید کو دینے کا مشورہ کیا تھا، اس مشورہ میں سعد بن عبادہؓ کے ساتھ حضرت سعدؓ بن معاذ بھی شریک تھے۔ (طبقات،جلد۳،قسم۱،صفحہ:۳۰) لڑائی کا وقت آیا تو زرہ پہنے اورہاتھ میں حربہ لئے میدان کو روانہ ہوئے ،بنو حارثہ کے قلعہ میں ان کی ماں موجود تھیں اور حضرت عائشہؓ کے پاس بیٹھی تھیں، شعر پڑہتے ہوئے گذرے تو ماں نے کہا بیٹا تم پیچھے رہ گئے،جلدی جاؤ۔ جس ہاتھ میں حربہ تھا وہ باہر نکلا ہوا تھا، حضرت عائشہؓ نے کہا :سعد کی ماں دیکھو زرہ بہت چھوٹی ہے، میدان میں پہنچے تو حبان بن عبد مناف نے جو عرقہ کا بیٹا تھا، ہاتھ پر ایک تیر مارا جس سے ہفت اندام کٹ گئی، (بخاری:۲/۵۹۱،،دیگر کتب ورجال)اور نہایت جوش میں کہا لو میں عرقہ کا بیٹا ہوں، آنحضرتﷺ نے سنا تو فرمایا خدا اس کا چہرہ دوزخ میں عرق آلود کرے۔ اس کے بعد مسجد نبوی میں ایک خیمہ لگایا اور رفیدہ اسلمیہ کو ان کی خدمت پر مامور کیا ،حضرت سعدؓ اسی خیمہ میں رہتے تھے اور حضرت ﷺ روزانہ ان کی عیادت کو تشریف لاتے تھے ؛چونکہ زندگی سے مایوس ہوچکے تھے ،خدا سے دعا کی کہ قریش کی لڑائیاں باقی ہوں تو مجھے زندہ رکھ ان سے مجھ لڑنے کی بڑی تمنا ہے؛ کیونکہ انہوں نے تیرے رسول کو اذیت دی ،تکذیب کی اور مکہ سے نکال دیا اور اگر لڑائی بند ہونے کا وقت آگیا ہے تو اس زخم سے مجھے شہادت دے اور بنی قریظہ کے معاملہ میں میری آنکھیں ٹھنڈی کر، اس دعا کا دوسرا ٹکڑا مقبول ہوا، (بخاری:۲/۹۱) چنانچہ جب بنو قریظہ کو آنحضرتﷺ نے جلا وطن کرنا چاہا تو چونکہ وہ قبیلۂ اوس کے حلیف تھے کہلا بھیجا کہ ہم سعد کا حکم مانیں گے، آنحضرتﷺ نے حضرت سعدؓ کو اطلاع کی وہ گدھے پر سوار ہوکر آئے، مسجد کے قریب پہنچے تو آنحضرتﷺ نے انصار سے کہا کہ اپنے سردار کی تعظیم کے لئے اٹھو۔ پھر سعدؓ سے فرمایا کہ یہ لوگ تمہارے حکم کے منتظر ہیں،عرض کیاتو میں حکم دیتا ہوں کہ جو لوگ لڑنے والےہیں قتل کئے جائیں،اولاد غلام بنائی جائے اور مال تقسیم کردیا جائے، آنحضرتﷺ نے یہ فیصلہ سن کر کہا کہ تم نے آسمانی حکم کی پیروی کی ؛چنانچہ اس کے بموجب اپنے سامنے ۴۰۰ آدمی قتل کرائے۔ وفات اس واقعہ کے بعد کچھ دنوں تک زندہ رہے،آنحضرتﷺ نے خود زخم کو داغا جس سے خون رک گیا، لیکن اس کے عوض ہاتھ پھول گیا تھا، ایک دن زخم پھٹا اوراس زور سے خون جاری ہوا کہ مسجد سے گذر کر بنی غفار کے خیمہ تک پہنچا، لوگوں کو بڑی تشویش ہوئی، پوچھا کیا معاملہ ہے جواب ملا کہ سعدؓ کا زخم پھٹ گیا۔ آنحضرتﷺ کو اطلاع ہوئی تو گھبرا اٹھے اور کپڑا گھسیٹتے ہوئے مسجد میں آئے دیکھا تو حضرت سعدؓ کا انتقال ہوچکا تھا، نعش کو اپنی آغوش میں لے کر بیٹھے، خون برابر بہہ رہا تھا، لوگ آ آ کر جمع ہونا شروع ہوئے، حضرت ابوبکرؓ آئے اور نعش کو دیکھ کر ایک چیخ ماری کہ ہائے ان کی کمرٹوٹ گئی ،آنحضرتﷺ نے فرمایا: "ایسا نہ کہو" حضرت عمرؓ نے رو کر کہا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ خیمہ میں کہرام پڑا تھا دکھیا ماں یہ کہہ کر رورہی تھی۔ ویل ام سعد اسعدا براعۃ بخدا ویل ام سعد اسعدا صرامۃ وجدا آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اور رونے والیاں جھوٹ بولتی ہیں؛ لیکن یہ سچ کہتے ہیں ،جنازہ روانہ ہوا تو خود آنحضرتﷺ ساتھ ساتھ تھے، فرمایا کہ ان کے جنازہ میں ستر ہزار فرشتے شریک ہیں،لاش بالکل ہلکی ہوگئی تھی، منافقین نے مضحکہ کیا تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ان کا جنازہ فرشتے اٹھائے ہوئے تھے۔ (جامع ترمذی:۶۳۳) دفن کرکے واپس ہوئے تو سرورکائنات ﷺ نہایت مغموم تھے،ریش مبارک ہاتھ میں تھی اوراس پر مسلسل آنسو گر رہے تھے۔ حضرت سعدؓ کی وفات تاریخ اسلام کا غیر معمولی واقعہ ہے، انہوں نے اسلام کی جو خدمات انجام دی تھیں، جو مذہبی جوش ان میں موجود تھا اس کی بدولت وہ انصار میں صدیقی اکبر سمجھے جاتے تھے،حضرت عائشہؓ کے معاملہ میں جب آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اس دشمن خدا (ابن ابی) نے مجھے سخت تکلیف دی ہے تم میں کوئی اس کا تدارک کرسکتا ہے؟ تو سب سے پہلے انہوں نے اٹھ کر کہا تھا کہ قبیلۂ اوس کا آدمی ہو تو مجھ کو بتائے میں ابھی گردن مارنے کا حکم دیتا ہوں؟ اس وقت اسی محبت صادق اور عاشقِ جاں نثار نے وفات پائی تھی،اس واقعہ کی اہمیت اس سے اور بڑھ جاتی ہے کہ فرشتے جنازہ میں موجود تھے،آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان کی موت سے عرش مجید جنبش میں آگیا ہے۔ (بخاری:۱/۵۳۶) ایک انصاری فخریہ کہتا ہے وما احتزعرش اللہ من موت ھالک سمعنا بہ الا سعد ابی عمرو کسی مرنے والے کی موت پر خدا کا عرش نہیں ہلا مگر سعد ابی عمر وکی موت پر حلیہ حلیہ یہ تھا کہ قد دراز، بدن دوہرا۔ (ترمذی:۲۹۵) فضل وکمال جیسا کہ اوپر معلوم ہوا حضرت سعدؓ کا انتقال اوائلِ اسلام میں ہوا تھا، آنحضرتﷺ کے فیض صحبت سے انہوں نے ۵ برس فائدہ اٹھایا،اس عرصہ میں بہت سی حدیثیں سنی ہونگی،لیکن چونکہ روایات کا سلسلہ آنحضرتﷺ کے بعد قائم ہوا اس لئے ان کی روایتیں اشاعت نہ پاسکیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی ایک روایت مذکور ہے جس میں ان کے عمرہ کا ذکر آیا ہے حضرت انسؓ کی ایک حدیث ہے جس میں سعد بن ربیع کے احد میں قتل ہونے کا تذکرہ ہے۔ مناقب واخلاق اخلاقی حیثیت سے حضرت سعدؓ بڑے درجہ کے انسان تھے ،حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں، رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے بڑھ کر عبدالاشہل کے تین آدمی تھے،سعدؓبن معاذ، اسید بن حضیر اور عبادہ ؓ بن بشر۔ وہ خود کہتے ہیں کہ یوں تو میں ایک معمولی آدمی ہوں؛ لیکن تین چیزوں میں جس رتبہ تک پہنچنا چاہیے پہنچ چکا ہوں ،پہلی بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جو حدیث سنتا ہوں اس کے منجانب اللہ ہونے کا یقین رکھتا ہوں،دوسرے نماز میں کسی طرف خیال نہیں کرتا، تیسرے جنازہ کے ساتھ رہتا ہوں تو منکر نکیر کے سوال کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ سعید بن مسیبؓ کہتے ہیں کہ یہ خصلتیں پیغمبروں میں ہوتی ہیں۔ آنحضرتﷺکو ان کے اعمال پر جو اعتماد تھا وہ اس حدیث سے معلوم ہوسکتا ہے جس میں مردہ کو قبر کے دبانے کا ذکر آیا ہے،اس کا ایک فقرہ یہ بھی ہے کہ اگر قبر کی تنگی سے کوئی نجات پاسکتا تو سعد بن معاذ نجات پاتے۔ (اخرجہ احمد والبیہقی عن عائشہؓ) ایک مرتبہ کسی نے آنحضرتﷺ کے پاس حریر کا جبہ بھیجا تھا،صحابہؓ اس کو چھوتے اور اس کی نرمی پر تعجب کرتے تھے،آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تم کو اس کی نرمی پر تعجب ہے ،حالانکہ جنت میں سعد بن معاذؓ کے رومال اس سے بھی زیادہ نرم ہیں۔ (بخاری:۱/۵۳۶)