انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ایک شبہ کا ازالہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ بھی ایک دوسرے پرجھوٹ کی چوٹ کرجاتے تھے، یہ صحیح نہیں، عربی میں لفظ کذب صرف جھوٹ کے معنی میں نہیں، بعض دفعہ خلافِ واقع بات کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے؛ مگراُردو میں یہ لفظ صرف جھوٹ کے معنوں میں آتا ہے، صحابہ کرامؓ ایک دوسرے کی بات کواگر کبھی خلافِ واقع کہتے تھے بھی تواس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ فلاں صحابی کی بات صحیح نہیں (انہیں غلطی واقع ہورہی ہے) یہ نہیں کہ وہ صحابی (معاذ اللہ) جھوٹ بول رہے ہیں، صحابہ کرامؓ سے اس قسم کی بات عادۃ ہرگز ممکن نہ تھی، مشہور محدث علامہ خطابی (۳۸۸ھ) ایک جگہ لکھتے ہیں: "قولہ کذب ابومحمد یرید اخطأ ولم یرد بہ تعمد الکذب الذی ھو عند الصدق"۔ (معالم السنن للخطابی:۱/۱۳۴) ترجمہ: اسکا کہنا کہ ابومحمدنے کذب (غلط) کہا، اس سے مراد یہ ہے کہ اس نے غلطی کی کہنے والے کی مراد یہ نہیں کہ اس نے جھوٹ بولا جوسچ کی ضد ہوتی ہے۔ پھرایک صحابی کے بارے میں بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "ھورجل من الانصار لہ صحبۃ والکذب علیہ فی الاخبار غیرجائز والعرب تضع الکذب موضع الخطأ فی کلامہا فنقول کذب سمعی وکذب بصری ای زل ولم یدرک مارأی وماسمع"۔ (معالم السنن للخطابی:۱/۱۳۵) ترجمہ:وہ انصاری صحابی ہیں ان پر خبر میں جھوٹ بولنے کا الزام جائز نہیں، عرب بات میں غلطی کرنے پر بھی کذب کا لفظ بولتے ہیں، مثلاً کہتے ہیں میرے کان نے (کذب) غلطی کی، میری آنکھ نے (کذب) غلطی کی یعنی وہ پھسل گئی اور جودیکھا اور سنا اسے نہ سمجھ سکا۔ اس محاورے کی تائید ایک واقعہ سے بھی ہوتی ہے، حضرت عبداللہ بن سلامؓ اورحضرت کعب احبارؓ کے مابین اختلاف ہوا کہ وہ گھڑی جس میں دُعا لازماً قبول ہوتی ہے سال میں ایک دفعہ آتی ہے یاہفتہ وار؟ حضرت عبداللہ بن سلامؓ حضورﷺ سے نقل کررہے تھے کہ وہ گھڑی ہرجمعہ آتی ہے، حضرت کعبؓ کہہ رہے تھے کہ نہیں سال میں ایک دفعہ آتی ہے، امام نسائی (۳۰۳ھ) روایت کرتے ہیں کہ: "قَالَ كَعْبٌ ذَلِكَ يَوْمٌ فِي كُلِّ سَنَةٍ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ كَذَبَ كَعْبٌ قُلْتُ ثُمَّ قَرَأَ كَعْبٌ فَقَالَ صَدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"۔ (سنن النسائی،كِتَاب الْجُمْعَةِ، بَابُ ذِكْرُ السَّاعَةِ الَّتِي يُسْتَجَابُ فِيهَا الدُّعَاءُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ،حدیث نمبر:۱۴۱۳، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:کعب نے کہا وہ گھڑی سال میں ایک دفعہ آتی ہے، عبداللہ بن سلام کہنے لگے کعب کی زبان سے جھوٹ نکل گیا؛ پھرکعب نے تورات پڑھی اور کہا کہ حضورِپاکﷺ نے سچ فرمایا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام کا کذب کعبؓ کہنا ان پر جھوٹ کی چوٹ کرنا نہیں تھا؛ نہ یہ مطلب تھا کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں، ان کی مراد صرف یہ تھی کہ کعبؓ غلط کہہ رہے ہیں؛ چنانچہ کعبؓ نے جب تورات مطالعہ کی تواپنی غلطی تسلیم کرلی اور کہا "صَدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" حضورﷺ نے سچ کہا۔