انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت زہیر بن معاویہؒ نام ونسب نام زہیر اورکنیت ابوخثیمہ تھی(کتاب الکنی والاسماء للولابی:۱/۱۶۶)نسب نامہ یہ ہے، زہیر بن معاویہ بن حدیج بن الرحیل بن زہیر بن خثیمہ بن ابی حمران الحارث بن معاویہ بن الحارث بن مالک بن عوف بن سعد بن حریم بن جعفی بن سعد العشیرہ بن مذحج۔ (طبقات ابن سعد:۶/۲۶۲) ولادت اور وطن زہیر کی پیدائش کوفہ میں ۱۰۰ ھ میں ہوئی (خلاصۃ تذہیب تہذیب الکمال:۱۴۳)عمر کے بیشتر حصہ میں وہیں علم و عمل کی روشنی پھیلائی ،لیکن پھر ایک زمانہ کے بعد ۱۶۴ھ میں جزیرہ منتقل ہوکر وہیں سکونت اختیار کرلی اوروہیں وفات پائی۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۱۱) فضل وکمال علمی اعتبار سے وہ کوفہ اور جزیرہ کے ممتاز علماء میں شمار کیے جاتے تھے،تثبت واتقان اورحفظ وثقاہت میں نہایت بلند مرتبہ تھے،علامہ خزرجی اورحافظ ذہبی انہیں ‘کان احد الحفاظ الاعلام’ کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں (العبر:۱/۱۶۳،خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:۱۲۳) سفیان بن عیینہ کا ارشاد ہے۔ علیک بزھیر بن معاویۃ فما بالکوفۃ مثلہ زہیر بن معاویہ کی صحبت اختیار کرو کوفہ میں ان کی مثال نہیں۔ زھیر من معاون العلم (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۱۱) زہیر علم کی کانوں میں سے ایک ہیں۔ حدیث علم حدیث ہی زہیر بن معاویہ کا اصلی جولانگاہ تھا، وہ ان ممتاز حفاظ حدیث میں تھے جنہوں نے اپنی پوری حیات مستعار اسی دشت کی سیاحی میں گزاردی تھی، اسی بنا پر انہیں حدیث کی صحت وضعف اوررجال کی چانچ پڑتال پر کامل عبور حاصل تھا۔ انہیں جن مشاہیر محدثین اورنادرۂ روز گار علماء سے اکتساب علم کی سعادت نصیب ہوئی تھی،ان میں ابو اسحاق سبیعی، سلیمان التیمی، عاصم الاحول اسود بن قیس،سلیمان الاعمش سماک بن حرب، میمون بن مہران ،موسیٰ بن عقبہ، ہشام بن عروہ، یحییٰ بن سعید الانصاری زیاد بن علاقہ، عبدالکریم الجزری اورزید بن جبیر کے اسمائے گرامی لائق ذکر ہیں۔ اسی طرح ان سے مستفید ہونے والوں میں عبدالرحمن بن مہدی،یحییٰ بن سعید القطان،ابوداؤد الطیالسی،یحییٰ بن آدم،ابو نعیم، احمد بن یونس،یحییٰ بن یحییٰ التیمی،عمرو بن خالد اطرافی،عمرو بن عثمان الرئی،ہشیم بن جمیل الانطا کی،ہاشم بن القاسم جیسے علماء وائمہ شامل ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۳/۳۵۱) تثبت واتقان ان کے صحیفہ کمال کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کی اعلیٰ پایہ کی ثقاہت وعدالت اورتثبت واتقان ہے اوریہ ثمرہ تھا،حدیث میں ان کی طویل العمر ریاضت وجانکاہی کا، اس کمال میں ان کے ہم پلہ علماء کم ہی نظر آتے ہیں،معاذبن معاذ حلفیہ کہا کرتے تھے: واللہ ماکان سفیان باثبت من زھیر فاذا سمعت الحدیث من زھیر فلا ابالی ان لا اسمعہ من سفیان (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۱۱) بخدا سفیان زہیر بن معاویہ سے زیادہ تثبت رکھتے تھے جب زہیر سے کوئی حدیث سنتا تو پھر مجھے اس کی قطعی پرواہ نہیں ہوتی کہ میں اسے سفیان سے نہیں سُن سکا۔ ابن حبان نے کتاب الثقات میں ان کے علم و عمل وفضل کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے۔ کان حافظاً متقناً وکان اھل العراق یقولون فی ایام الثوری اذامات الثوری ففی زھیر خلف وکانوا یقدمونہ فی الاتقان علیٰ غیرہ (تہذیب التہذیب:۳/۳۵۱) وہ حافظ متقن تھے،اہل عراق سفیان ثوری کے زمانہ میں کہا کرتے تھے کہ اگر ثوری کا انتقال ہوگیا تو زہیر بن معاویہ کی شکل میں ہمیں ان کا جانشین مل گیا،اہل عراق انہیں دوسروں پر اتقان میں ترجیح دیتے تھے۔ ابن سعد رقمطراز ہیں: وکان ثقۃ ثبت کثیرا لحدیث (طبقات ابن سعد:۶/۲۶۴) وہ ثقہ اورکثیر الحدیث تھے۔ اسی طرح دوسرے بہت سے علماء اورماہرین جرح وتعدیل نے بلند الفاظ کے ساتھ ان کی توثیق کی ہے،ابو حاتم کہتے ہیں کہ زہیر بن معاویہ میرے نزدیک اسرائیل بن یونس سے بھی ہر چیز میں فائق وبرتر ہیں سوائے ابواسحاق سبیعی کی روایات کے اس میں اسرائیل کا مرتبہ یقیناً بلند ہے،کیونکہ زہیر نے ابو اسحاق سبیعی سے سماع اس وقت حاصل کیا تھا، جب کبر سنی کی بنا پر سبیعی کا حافظ مختلط ہوگیا تھا۔ لیکن علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ اولاً تو نفسِ بات ہی صحیح نہیں ہے کہ اسحاق سبیعی کا حافظہ آخر عمر میں کمزور ہوگیا تھا، ما اختلط ابو اسحاق ابدا،یہ ضرور ہے کہ اس زمانہ حیات کے سماع کا درجہ نسبتہ فروتر ہوتا ہے۔ وفات ۱۷۲ھ میں زہیر فالج کا شکار ہوئے اور اس کے ایک ہی سال بعد رجب۱۷۳ھ میں ان کا رشتہ حیات منقطع ہوگیا،اس وقت خلیفہ ہارون الرشید،دادفرمانروائی دے رہا تھا۔