انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حدیث کی زبانی روایت علم حدیث زندہ انسانوں سے زندہ انسانوں تک منتقل ہوا، آنحضرتﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر تاریخی خطبہ دیا اور بہت سے احکام ارشاد فرمائے، امت کو ایک دستورزندگی دیا : " فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ "۔ (مسلم، بَاب تَغْلِيظِ تَحْرِيمِ الدِّمَاءِ وَالْأَعْرَاضِ وَالْأَمْوَالِ،حدیث نمبر:۳۱۸۰،شاملہ، موقع الاسلام) ترجمہ:جو حاضر ہے وہ اسے غائب تک پہنچادے۔ اس میں آنحضرتﷺ نے متنبہ فرمایا کہ آپ کی یہ حدیث آج صرف اسی اجتماع کے لیے نہیں یہ کل انسانوں کے لیے راہ ہدایت ہے جو آج موجود ہیں اور سن رہے ہیں وہ ان باتوں کو دوسروں تک پہنچادیں، سو ان احکام کی تبلیغ صرف میدان عرفات کے حاضرین اور غائبین تک محدود نہ رہی؛ بلکہ ہر مجلس علم کا شاہد اسے اس مجلس کے غائب تک پہنچانے کا ذمہ دار ٹھہرا،حجۃ الوداع کا یہ خطبہ آخری الہٰی رہنما کا آخری دینی چارٹر تھا اور اس کا آخری پیغام روایت حدیث ہی کی تاکید تھی، سلسلہ روایت کو آگے جاری رکھنا یہ اسلامی زندگی کا منشور ٹھہرا ؛چنانچہ یہ سلسلہ پوری محنت وخلوص اور شوق ومحبت سے جاری رہا اور حدیث اپنی تاریخ میں ہمیشہ زندہ انسانوں میں روایت ہوتی رہی اور زندہ انسانوں سے زندہ انسانوں تک منتقل ہوتی رہی، یہ صحیح ہے کہ محدثین اپنی یادداشت کے لیے تحریرات سے بھی مدد لیتے تھے؛ لیکن حدیث پھر بھی صیغۂ تحدیث سے ہی روایت ہوتی تھی، تحریرات بھی ہوں تو ان کے آگے تصدیقات ثبت ہوتیں، علمِ حدیث کے یہ انسان آج تک مسلسل چلے آرہے ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے اپنی سند زندہ اساتذوں کے واسطے سے مؤلفین کتب حدیث تک اور پھر ان محدثین کے واسطے سے حضورﷺ اور آپ کے اصحاب کرام تک پہنچائی ہے اور اب تک روایت حدیث کی یہ اجازت برابر چلی آتی ہے۔