انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اعتراض حضرت عثمان غنیؓ نے یہیں تک فرمایا تھا کہ ایک شخص نے اٹھ کر اعتراض کیا کہ آپ اپنے رشتہ داروں کو ناجائز طور پر مال دیتے ہیں،مثلا عبداللہ بن سعدؓ کو آپ نے تمام مالِ غنیمت بخش دیا،حضرت عثمان غنیؓ نے جواب دیا کہ میں نے اس کو مال غنیمت کے خمس میں سے صرف پانچواں حصہ دیا ہے مجھ سے پہلے خلافت صدیقی اور خلافت فاروقی میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں اس کے بعد ایک اور شخص اٹھا اوراس نے کہا کہ تم نے اپنے عزیز واقارب کو امارتیں اورحکومتیں دے رکھی ہیں،مثلاً معاویہ بن ابی سفیان کو تمام ملک شام پر امیر بنارکھا ہے ،بصرہ کی امارت سے ابو موسیٰ اشعری کو معزول کرکے ان کی جگہ عبداللہ بن عامر کو امیر بنایا ،کوفہ کی امارت سے مغیرہ بن شعبہ کو جدا کرکے ولید بن عقبہ کو اوراس کے بعد سعید بن العاص کو امیر بنایا ،یہ سُن کر حضرت عثمانؓ نے جواب دیا کہ جن لوگو ں کو میں نے امارتیں دے رکھی ہیں وہ میرے اقارب نہیں ہیں اور وہ اپنے عہدوں کے کام کو بحسن وخوبی انجام دینے کی قابلیت رکھتے ہیں اگر وہ آپ لوگوں کی رائے میں امارت کے قابل نہیں ہیں اور مجھ پر ان کے بے جارعایت کا الزام عائد ہوتا ہے تو میں ان لوگوں کی جگہ دوسروں کو مقرر کرنے کے لئے تیار ہوں ؛چنانچہ میں نے سعید بن العاصؓ کو ان کی امارت سے جدا کرکے ابو موسیٰ اشعری کو کوفہ کا گورنر بنا دیا ہے اُس کے بعد ایک شخص نے کہا کہ تم نے بلا استحقاق اورناقابل رشتہ داروں کو امارتیں دی ہیں جو ان امارتوں کے اہل نہ تھے،مثلاً عبداللہ بن عامر ایک نوجوان شخص ہیں ان کو والی نہیں بنانا چاہئے تھا حضرت عثمانؓ نے جواب دیا کہ عبداللہ بن عامر عقل و فراست دین داری وقابلیت میں خاص طور پر ممتاز ہے محض نوجوان ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُسامہ بن زیدؓ کو صرف ۱۷ سال کی عمر میں کیوں امیر بنایا تھا، اس کے بعد ایک اور شخص اُٹھا اوراُس نے کہا کہ آپ کو اپنے کنبے والوں سے بڑی محبت ہے، آپ ان کو بڑے بڑے عطیات دیتے ہیں،حضرت عثمانؓ نے جواب دیا کہ اہل خاندان سے محبت کا ہونا کوئی گناہ نہیں ہے میں ان کو اگر عطیات دیتا ہوں تو بیت المال سے نہیں ؛بلکہ اپنے ذاتی مال سے دیتا ہوں،بیت المال سے تو میں نے اپنے خرچ کے لئے بھی ایک کوڑی نہیں لی،اپنے رشتہ داروں کے لئے بلا استحقاق کیسے لے سکتا ہوں، اپنے ذاتی مال کا مجھ کو اختیار ہے جس کو چاہوں دوں۔ اس کے بعد ایک شخص اُٹھا اوراُس نے کہا کہ تم نے چراگاہ کو اپنے لئے مخصوص کرلیا ہے ،حضرت عثمانؓ نے جواب دیا کہ میں جب خلیفہ ہوا تھا تو مدینے میں مجھ سے زیادہ نہ اونٹ کسی کے تھے نہ بکریاں؛ لیکن آج کل میرے پاس صرف دو اونٹ ہیں جو صرف حج کی سواری کے لئے رکھ لئے ہیں میں اُن کو چرائی پر بھی نہیں بھیجتا،البتہ بیت المال کے اونٹوں کی چراگاہ ضرور مخصوص ہے، اوروہ میرے زمانے میں نہیں ؛بلکہ پہلے سے مخصوص چلی آتی ہے اس کا مجھ پر کوئی الزام نہیں لگایا جاسکتا، پھر ایک شخص نے کہا کہ تم یہ بتاؤ کہ تم نے منیٰ میں پوری نماز کیوں پڑھی حالانکہ قصر کرنی چاہئے تھے،حضرت عثمان غنیؓ نے جواب دیا کہ میرے اہل وعیال مکہ میں مقیم تھے لہذا میرے لئے نماز قصر نہ کرنا جائز تھا، غرض اسی قسم کے اعتراضات سر مجلس لوگوں نے کئے اور حضرت عثمان غنیؓ نے ہر ایک کا جواب کافی وشافی دیا اس کے بعد جلسہ برخاست ہوا اور لوگ خاموشی کے ساتھ اٹھ کر منتشر ہوگئے،حضرت عمرو بن العاصؓ نے حضرت عثمان غنیؓ سے کہا کہ آپ کی طرف سے لوگوں کے ساتھ نرمی کا ضرورت سے زیادہ اظہار ہورہا ہے،فاروق اعظمؓ کا یہ طریقہ نہیں تھا،اُن سے سیکڑوں کوس پر بیٹھے ہوئے عامل اُن کے پیش خدمت غلام سے اوربھی زیادہ ڈرتے تھے اور خائف رہتے تھے لوگوں کے ساتھ نرمی صرف اسی حد تک برتنی چاہئے جہاں تک کہ فساد کے پیدا ہونے کا اندیشہ تک نہ ہو آپ جن لوگوں کو جانتے ہیں کہ وہ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں ان کو قتل نہیں کروایتے،حضرت عثمان غنیؓ نے حضرت عمروؓ کے اس مشورے کو سُنا اورخاموش ہوگئے۔