انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تعریف لفظ" تفسیر "دراصل "فَسْرٌ" سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں کھولنا اور اس علم میں چونکہ قرآن کریم کے مفہوم کو کھول کر بیان کیا جاتا ہے اس لیے اسے علم تفسیر کہتے ہیں،اس کی اصطلاحی تعریف یہ ہے : عِلْمٌ یُبْحَثُ فِیْہِ عَنْ کَیْفِیَّۃِ النُّطْقِ بِاَلْفَاظِ الْقُرْآنِ وَمَدْلُوْلَاتِھَاوَاَحْکَامِھَا الْأَفْرَادِیِّہِ وَالتَّرْکِیْبِیَّۃِ وَمَعَانِیْھَا اَلَّتِیْ تُحْمَلُ عَلَیْھَا حَالَۃُ التَّرْکِیْبِ وَتَتَمَاسَّتْ لِذٰلِکَ۔ (روح المعانی للآلوسی:۱/۴) علم تفسیر وہ علم ہے جس میں الفاظ ِقرآن کی ادائیگی کے طریقے، ان کے مفہوم، ان کے افرادی اور ترکیبی احکام اور ان کے معانی سے بحث کی جاتی ہے ،جو ان الفاظ سے ترکیبی حالت میں مراد لیے جاتے ہیں نیز ان معانی کا تکملہ ،ناسخ منسوخ ،شان نزول اور مبہم قصوں کی توضیح کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے ۔ اس تعریف کی روشنی میں علمِ تفسیر مندرجہ ذیل اجزاء پر مشتمل ہے : (۱)"الفا ظِ قرآن کی ادائیگی کے طریقے" یعنی الفاظ قرآن کو کس کس طرح پڑھا جاسکتا ہے ؟اس کی توضیح کے لیے قدیم عربی مفسرین اپنی تفسیروں میں ہر آیت کے ساتھ اس کی قرأ تیں بھی تفصیل سے واضح کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے ایک مستقل علم" علم قرأت" کے نام سے بھی موجود ہے۔ (۲) "الفاظ قرآنی کے مفہوم" یعنی ان کی لغوی معنی،اس کام کے لیے علم لغت سے پوری طرح باخبر ہونا ضروری ہے اور اسی بناء پر تفسیر کی کتابوں میں علماء لغت کے حوالے عربی ادب کے شواہد بکثرت ملتے ہیں۔ (۳)"الفاظ کے انفرادی احکام"یعنی ہر لفظ کے بارے میں یہ معلوم ہونا کہ اس کا مادہ کیا ہے، یہ موجودہ صورت میں کس طرح آیا ہے، اس کا وزن کیا ہے ،اور اس وزن کے معانی وخواص کیا ہیں ؟ان باتوں کے لیے علم صرف کی ضرورت پڑتی ہے۔ (۴)"الفاظ کے ترکیبی احکام" یعنی ہر لفظ کے بارے میں یہ معلوم ہونا کہ وہ دوسرے الفاظ کے ساتھ مل کر کیا معنی دے رہا ہے ؟ اس کی نحوی ترکیب(Grammatical Analysis)کیا ہیں ؟ اس پر موجودہ حرکات کیوں آئی ہیں اور کن معانی پر دلالت کررہی ہیں ؟اس کام کے لیے علم نحو اور علم معانی سے مدد لی جاتی ہے ۔ (۵)"ترکیبی حالت میں الفاظ کے مجموعی معنی"یعنی پوری آیت اپنے سیاق وسباق میں کیا معنی دے رہی ہے ؟ اس مقصد کے لیے آیت کے مضامین کے لحاظ سے مختلف علوم سے مدد لی جاتی ہے ،مذکورہ علوم کے علاوہ بعض اوقات علم ادب اور علم بلاغت سے کام لیا جاتا ہے ،بعض اوقات علم حدیث اور بعض اوقات علم اصول ِ فقہ سے۔ (۶)"معانی کے تکملے"یعنی آیات قرآنی کا پس منظر اور جوبات قرآن کریم میں مجمل ہے اس کی تفصیل ،اس غرض کے لیے زیادہ تر علمِ حدیث سے کام لیا جاتا ہے ،لیکن اس کے علاوہ بھی یہ میدان اتنا وسیع ہے کہ اس دنیا کے ہر علم وفن کی معلومات کھپ سکتی ہیں کیونکہ بسا اوقات قرآن کریم ایک مختصر سا جملہ فرماتا ہے مگر اس کی میں حقائق واسرار کی ایک غیر متناہی کائنات پوشیدہ ہوتی ہے مثلاً قرآن کریم کا ارشاد ہے : وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (الذاریات:۲۱) اور تم اپنی جانوں میں غور کرو کیا تم نہیں دیکھتے۔ غور فرمائیے اس مختصر سے جملے کی تشریح وتفصیل میں پورا علم الابدان(Physiology)اور پورا علمِ نفسیات(Psychology) سماجاتا ہے اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالی نے اس آیت میں اپنی تخلیقی حکمت بالغہ کے جن اسرار کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ سب پورے ہوگئے ہیں ؛چنانچہ تفسیر کے اس ذیلی جز میں عقل وتدبر، تجربات ومشاہدات کے ذریعے انتہائی متنوع مضامین شامل ہیں ۔ (علوم القرآن:۳۲۳۔۳۲۵)