انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عبداللہ بن عبداللہؓ نام ونسب عبداللہ نام ہے اور قبیلہ حبلی سے ہیں،جو خزرج کا نہایت معزز خاندان تھا، سلسلۂ نسب یہ ہے،عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن حارث بن عبید بن مالک بن سالم بن غنم بن عوف بن خزرج حبلی سالم کا لقب ہے،جو اس خاندان کا مورث اعلیٰ تھا، وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس کا پیٹ بہت بڑا تھا۔ مالک نے کہ حضرت عبداللہ ؓ کا پردادا تھا ،قبیلہ خزاعہ کی ایک عورت سلول نامی سے شادی کی تھی اس سے ابی پیدا ہواجو عبداللہ ابو حباب کا باپ ہے۔ عبداللہ ابو حباب (جو ابن ابی بن سلول کے نام سے مشہور ہے،قبیلہ خزرج کے ممتاز ترین افراد میں تھا، اس کے اثر اور زور وقوت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اسلام سے قبل مدینہ کا تخت و تاج اسی کے سپرد کرنے کی تجویز تھی،اوس وخزرج دیرینہ عداوتوں کے سبب سے باہم سخت مخالف تھے،تاہم اس کے تخت نشین کرنے پر سب کا اتفاق تھا، حضرت عبداللہ ؓ اسی عبداللہ کے فرزند ارجمند ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ ابن ابی عقلمند دور اندیش اورصاحبِ تدبیر ہونے کے باوجود شرف ایمان سے محروم رہا، آنحضرتﷺ مدینہ تشریف لائے اورخلافت الہیٰ کی بنیاد قائم کی تو رشک ومنافست کا عجیب منظر درپیش تھا، ابن ابی اوراس کے چند ہم خیال اسلام کی اس ترقی کو حسد کی نگاہ سے دیکھتے تھے جوں جوں رسول اللہ ﷺ کا اقتدار بڑھتا تھا یہ گروہ اس کو صدمہ پہنچانے کی کوشش کرتا تھا۔ آخر مسلمانوں کے غلبہ اور زور کی وجہ سے ابن ابی کو سراطاعت خم کرنا پڑا اوراپنی جماعت کے ساتھ منافقانہ مسلمانوں کے زمرے میں داخل ہوگیا اورمنافقین کا سرغنہ بنا۔ اسلام لیکن ابن ابی کا اثر ان کے بیٹے پر بالکل نہیں پڑا وہ ہجرت سے قبل مسلمان ہوچکے تھے ۔ غزوات غزوہ بدر میں شریک ہوئے احد میں آگے کے دو دانت جنہیں ثنیہ کہاجاتا ہے ٹوٹ گئے تھے، آنحضرتﷺ نے فرمایا تم سونے کا دانت بنوالو، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ناک اڑ گئی تھی تو سونے کی ناک بنوائی تھی، لیکن یہ صحیح نہیں مصنف اسد الغابہ نے اس کی تصریح کردی ہے۔ غزوۂ تبوک(۹ھ میں ہوا)کے موقع پر ایک انصاری اور مہاجر کے جھگڑے میں ابن ابی نے کہا تھا" لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ" یعنی مدینہ پہنچ کر بلند پایہ لوگ ذلیل لوگوں کو نکال دیں گے، آنحضرتﷺ کو خبر ہوئی تو حضرت عمرؓ نے اٹھ کر کہا "اگر اجازت ہو تو اس منافق کا سراڑادوں (بخاری:۲/۷۲۸) آنحضرتﷺ نے ممانعت فرمائی۔ حضرت عبداللہؓ آئے اورکہا کہ میرے باپ نے آپ کو ذلیل کہا خدا کی قسم وہ خود ذلیل ہے اس کے بعد کہا کہ اگرچہ تمام خزرج میں مجھ سے زیادہ اپنے باپ کا کوئی مطیع نہیں، تاہم اگر آپ انہیں قتل کرانا چاہتے ہیں تو مجھے حکم دیجئے میں قتل کئے دیتا ہوں، لیکن اگر کسی دوسرے مسلمان نے ان کو قتل کیا تو اپنے باپ کے قاتل کو میں دیکھ نہیں سکتا، لامحالہ اس کو قتل کردونگا اورایک مسلمان کے مارنے سے جہنم کا مستوجب ہونگا، آنحضرتﷺ نے فرمایا میرا قتل کرانے کا بالکل ارادہ نہیں، لوگ کہیں گے کہ محمد ﷺ اپنے اصحاب کو قتل کراتے ہیں۔ (اسد الغابہ:۳/۱۹۷) حضرت عبداللہؓ آنحضرتﷺ سے گفتگو کرکے سڑک پر آکر کھڑے ہوگئے، ابن ابی نکلا تو اونٹ سے اتر پڑے اور کہا، تم اقرار کرو کہ میں ذلیل اور محمد عزیز ہیں، ورنہ میں آگے نہ بڑھنے دونگا، پیچھے آنحضرتﷺ تشریف لارہے تھے ،باپ بیٹے کی گفتگو سن کر فرمایا ان کو چھوڑ دو خدا کی قسم یہ جب تک ہم میں موجود ہیں ہم ان سے اچھا برتاؤ کریں گے۔ (طبقات ابن سعد:۳۴) غزوہ تبوک کے بعد ابن ابی نے وفات پائی، حضرت عبداللہ آئے اور عرض کیا کہ اپنی قمیص اتاردیجئے میں اس میں ان کو کفن دونگا، اوران کے لئے استغفار کیجئے،آنحضرتﷺ دو کرتے زیب تن کئے ہوئے تھے، حضرت عبداللہ ؓ نے نیچے کا کرتہ پسند کیاکہ آنحضرتﷺ کا پسینہ اسی میں جذب ہوتا تھا ارشاد ہوا کہ جنازہ تیار ہو تو مجھے خبر کرنا میں نماز پڑھاؤنگا۔ قبر میں اتارے جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ تشریف لائے قبر سے نکلوایا اوراپنے گھٹنوں پر رکھ کر قمیص پہنایا اورلعاب دہن ملا، اس کے بعد نماز کے لئے کھڑے ہوئے،حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہ ! آپ اس پر نماز پڑھیں گے،حالانکہ فلاں روز اس نے یہ الفاظ کہے تھےآنحضرتﷺ نے مسکرا کر فرمایا،جاؤ اپنی جگہ پر کھڑے رہو ،جب زیادہ اصرار کیا تو ارشاد ہوا کہ خدانے مجھے اختیار دیا ہے اگر ۷۰ مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے میں اس کی مغفرت ہوجائے تو میں اس کے لیے تیار ہوں۔ نماز سے فارغ ہوئے تو تھوڑی دیر میں چند آیتیں نازل ہوئیں جن میں ایک یہ تھی: وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ۔ (التوبہ:۸۴) اور(اے پیغمبر!)ان(منافقین)میں سے کوئی مرجائے تو تم اُس پر نماز(جنازہ)مت پڑھنااور نہ اُس کی قبر پر کھڑے ہونا،یقین جانو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کا رویہ اپنایا اور اس حالت میں مرے ہیں کہ نافرمان تھے۔ (بخاری:۱/۱۶۹،۸۰،۸۶) وحی الہی نے حضرت عمرؓ کی تائید کی تو ان کو اپنی جسارت پر نہایت تعجب ہوا۔ فضل وکمال فضلائے صحابہؓ میں تھے،حضرت عائشہؓ ان سے حدیث روایت کرتی ہیں، لکھنا جانتے تھے اور کبھی کبھی وحی بھی لکھتے تھے۔ (اصابہ:۴/۹۶)