انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** بصرہ میں ابنِ زیاد کی بیعت معاویہ بن یزید کی خلافت کوصرف اہلِ شام اور اہلِ مصر نے تسلیم کیا تھا، اہلِ حجاز نے حضرت عبداللہ بن زبیر کے ہاتھ پربیعت کی تھی، یزید کے مرنے کی خبر جب عراق میں پہنچی تواس وقت عبیداللہ بن زیاد بصرہ میں تھا، اس نے اہلِ بصرہ کوجمع کرکے کہا کہ امیرالمؤمنین یزید کا انتقال ہوگیا ہے، اب کوئی ایسا شخص نطر نہیں آتا جوخلافت کے کاموں کوچلانے کی قابلیت رکھتا ہو، میں اسی ملک میں پیدا ہوا اور یہیں میں نے پرورش پائی، میرا باپ بھی اس ملک کا حاکم تھا اور میں بھی اسی ملک کا حاکم ہوں؛ آمدنی پہلے سے زیادہ مضبوط ہے، لوگوں کی تنخواہیں اور وظیفے بھی اب پہلے سے زیادہ ہیں، مفسد اور شریر لوگوں سے ملک پاک وصاف ہے، تم لوگ اگرچاہو تواپنی خلافت الگ قائم کرسکتے ہو؛ کیونکہ تم اہلِ شام کے محتاج نہیں ہو، یہ تقریر سن کرسب نے کہا کہ بہت مناسب ہے، ہم آپ کے ہاتھ پربیعت کرنے کوتیار ہیں؛ چنانچہ اہلِ بصرہ نے عبیداللہ بن زیاد کے ہاتھ پربیعت کرلی؛ مگروہ دل سے عبیداللہ کوناپسند کرتے تھے، اہلِ بصرہ سے بیعت لے کرعبیداللہ کوفہ کی طرف گیا کہ وہاں کے لوگوں سے بھی بیعت لے؛ لیکن کوفہ والوں نے صاف انکار کردیا، اہلِ بصرہ کوجب معلوم ہوا کہ اہلِ کوفہ ابنِ زیاد سے منحرف ہوگئے توانہوں نے بھی اپنی بیعت فسخ کردی، ابنِ زیاد مجبور اور مایوس ہوکر عراق سے بھاگا اور دمشق پہنچا، یہ دمشق میں اس وقت پہنچا تھا جب کہ معاویہ بن یزید فوت ہوچکا تھا اور انتخاب خلیفہ کے متعلق ملکِ شام میں جھگڑا اور نزاع برپا تھا۔