انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حدیث قرطاس وفات سے تین دن پہلے اور ایک دوسری روایت کے مطابق چار دن پہلے قرطاس کا واقعہ پیش آیا، صحیح بخاری میں حضرت عبداللہؓ بن عباس سے روایت ہے کہ جب حضور اکرمﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا تو اس وقت گھر میں بہت لوگ جمع تھے جن میں حضرت عمرؓ بن خطاب بھی تھے، حضور ﷺ نے فرمایا : لکھنے کا سامان لاؤ ، میں تمہارے لئے ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم ہر گز گمراہ نہ ہوگے، حضرت عمرؓ نے کہا کہ حضور ﷺ پر تکلیف کی شدت ہے اور ہم لوگوں کے پاس قرآن ہے اور ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے ، گھر والوں میں اختلاف ہوا اور لوگ جھگڑنے لگے، جب شور و غل زیادہ ہونے لگا تو آپﷺ نے فرمایا : میرے پاس سے اٹھ جاؤ، حضرت عبداللہؓ بن عباس کہاکرتے تھے کہ اس مصیبت کی وجہ سے آنحضرتﷺ اور آپﷺکے لکھنے کے درمیان بڑا خلل پڑا یعنی لوگوں کا جھگڑا کرنا اور شور و غل مچانا، یہ واقعہ جمعرات کے دن کاہے، اور حضور اکرمﷺ نے پیر کو انتقال فرمایا ، یعنی کہ اس واقعہ کے بعد آپﷺ چارروز تک حیات رہے، اگر آپﷺ چاہتے تو دوبارہ اس بات کا حکم دے سکتے تھے، یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حاضرین نے وصیت کا لکھوانا یاد دلایا ، آپﷺ نے فرمایا : مجھے چھوڑ دو ، میں اس وقت جس حالت میں ہوںوہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو، پھر آپﷺ نے تین وصیتیں فرمائیں: (۱) یہود کو عرب سے باہر نکال دو، (۲) وفود کی رہنمائی کرو اور انہیں زادِ راہ دو ، (۳) تیسری بات راوی بھول گیا لیکن صحیح بخاری کی کتاب الوصایا میں حضرت عبداللہ ؓ بن ابی اوفی نے کہا کہ قرآن مجید کے متعلق وصیت فرمائی، آپﷺ نے یہ بھی وصیت فرمائی کہ’‘ میرے وارث نہ دینا ر تقسیم کریں اور نہ درہم ، ہم (انبیاء)اپنی بیویوں کے اخراجات اور اپنے عامل کی اجرت کے علاوہ جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے" کچھ سرخ دینار کہیں سے آئے تھے ، صدقہ کے بعد سات یا آٹھ دینار حضرت عائشہؓ کے پاس تھے، بے ہوشی کے بعد جب آپﷺ کو ہوش آیا تو پوچھا … ان دینار کا کیا ہوا ؟ عرض کیا : رکھے ہیں، فرمایا : صدقہ کر دو، کیا تمہارا گمان یہ ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے پاس اس حالت میں جائیں کہ یہ سب کچھ ہو، اس روز تک کی تمام نمازیں آنحضرت ﷺ نے خود پڑھائیں ، نماز مغرب میں سورۂ والمرسلات کی تلاوت فرمائی، یہ آخری نماز تھی جو صحابہؓ نے آپﷺ کی امامت میں ادا کی،