انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تابعینِ کرام رحمہم اللہ میں اساتذۂ روایت حضرت طاوس بن کیسانؒ (۱۰۵ھ)، امام زہریؒ (۱۲۴ھ)، ابوالزنادؒ (۱۳۱ھ)، سلیمان تیمیؒ (۱۴۳ھ)، اعمشؒ (۱۴۷ھ)، عمروبن دینارؒ وغیرہم اساتذۂ کبار روایت حدیث کے نہایت درخشندہ ستارے تھے، ان حضرات کے پاس صحابہؓ کی جمع کردہ تحریریں بھی تھیں۔ یہ صحیح ہے کہ حدیث کے باب میں درایۃً ہویاروایۃً فقہ کے عنوان سے ہو یانقل روایت کے عنوان سے عمومی اقتداء ان متقدمین سے نہیں؛ بلکہ بعد کے بزرگوں سے جاری ہوئی، یہ اس لیئے کہ ہرفن اپنی بہت سی منازل طے کرنے کے بعد ہی اس درجے میں قائم ہوتا ہے کہ اس پر آئندہ باقاعدہ اُصول وفروع کی بنیاد رکھی جاسکے؛ سوہم ائمہ حدیث کے عنوان سے انہی اکابر حضرات کا تذکرہ کریں گے، جن کی اقتداء امت میں جاری ہوئی..... وہ فقہاء حدیث ہوں یاائمہ نقّاد، ائمہ تالیف ہوں یاعلماء تراجم رجال، جوجوحضرات اپنے اپنے فن کے امام ٹھہرے ہم انہیں ہی ائمہ حدیث کے مختلف طبقوں کے تحت ذکر کریں گے، ہرایک نے اپنے اپنے دائرہ میں حدیث کی خدمت اور قوم کی امامت کی اور حق یہ ہے کہ یہ حضرات خدمتِ حدیث میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ اب تاریخ اس باب میں انہی کے سرپر سیادت کا تاج رکھتی ہے، ہاں صحابہ کرامؓ جواپنے کسی فنی کمال کی بناپر نہیں اپنے شرفِ صحابیت کی وجہ سے امت کے مقتداء اور پیشوا ہیں، ان کی پیروی واجب ہے، امام ابوحنیفہؒ اور امام احمدؒ جیسے ائمہ اصول ان حضرات کے آگے سراُٹھانے کی جرأت نہ کرتے تھے اور اُن کے ارشادات کواپنے لیئے سند سمجھتے تھے۔ اب ہم ان مختلف الانواع ائمہ حدیث کاتذکرہ کرتے ہیں، مجموعی اعتبار سے یہ سب ائمہ حدیث ہیں، فقہاء حدیث ہوں یاائمہ جرح وتعدیل، جامعین حدیث ہوں یاائمہ تخریج، علماء تراجم رجال ہوں یاعہدِ اوّل کے شراحِ حدیث، یہ سب حضرات اس فن کے محسنین میں سے ہیں اور حق ہے کہ ہم ان سب کوائمہ حدیث میں جگہ دیں، فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔