انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سلطان محمد خان ثانی کے عہد پر تبصرہ سلطان محمد خان ثانی فاتح قسطنطنہ کا عہد حکومت مسلسل جنگ و پیکار کے ہنگاموں سے پُر ہے اُس نے اپنے عہد سلطنت میں بارہ ریاستیں ااور دوسو سے زیادہ شہر و قلعے فتح کرکے سلطنتِ عثمانیہ میں شامل کئے، سلطان فاتح کے عہد سلطنت میں آٹھ لاکھ مسلمان سپاہی شہید ہوئے مگر اُس کی باقاعدہ فوج کی تعداد سوالاکھ سے زیادہ کبھی نہیں ہوئی،اُس نے ینگ چری یعنی فوج جاں نثار کی ترتیب و تنظیم کی طرف بھی خصوصی توجہ مبذول کی جو سلطان کی باڈی گارڈ کی فوج کہلاتی تھی اوراُس کی تعداد عموماً بارہ ہزار کے قریب ہوتی تھی،اُس نے ایسے قوانین جاری کئے جس سے ہر قسم کی بد نظمی فوجی اورانتظامی محکموں سے دور ہوگئی،سلطان فاتح نے جو قوانین جاری کئے اُن سے سلطنت عثمانیہ کو بہت نفع پہنچا، ایک ایسے سلطان سے جس کا تمام عہدِ حکومت لڑائیوں اور چڑھائیوں میں گذرا ہو ہرگز یہ توقع نہیں ہوسکتی تھی کہ ایک اعلیٰ درجہ کا مقنن بھی ہوگا،مگر اس حقیقت سے ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سلطان محمد خان فاتح ایک اعلیٰ درجہ کا مقنن تھا اُس نے اپنے دربار میں وزراء سپہ سالار پیش کار وغیرہ اراکین سلطنت کے ساتھ علماء دین کی ایک جماعت کو لازمی قرار دے کر اُن کا مرتبہ اراکین سلطنت میں سب سے بالا قرار دیا۔ تمام ممالکِ محروسہ میں شہروں، قصبوں اور گاؤں کے اندر مدرسے جاری کئے ان مدارس کے تمام مصارف سلطنت کے خزانے سے پورے کئے جاتے تھے،ان مدرسوں کا نصابِ تعلیم بھی خود سلطان فاتح ہی نے مقرر وتجویز کیا،ہر مدرسہ میں باقاعدہ امتھان ہوتے تھے اورکامیاب طلباء کو سندیں دی جاتی تھیں،ا ن سندوں کے ذریعہ سے ہر شخص کی قابلیت کا اندازہ کیا جاتا تھا اوراُس کی قابلیت کے موافق ہی اس کو نوکری یا جاگیر دی جاتی تھی،نصاب تعلیم میں تمام ضروری اوردین و دنیا کے لئے مفید ونفع رساں علوم شامل تھے،سلطان محمد خاں خود ایک زبردست اورجید عالم تھا، قرآن و حدیث اورتاریخ و سیرنیز ریاضی و طبیعات میں اُس کو دست گاہ کامل حاصل تھی، اسی لئے اُس نے بہترین نصاب تعلیم مداراس میں جاری کیا، عربی ،فارسی، ترکی، لاطینی، یونانی، بلگیرین وغیرہ بہت سی زبانوں میں سلطان فاتح بلا تکلف نہایت فصاحت کے ساتھ گفتگو کرسکتا تھا۔ اس نے اپنی قلم رو کے اندر جو قانون جاری کیا تھا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ سب سے پہلے قرآن مجید کے موافق عمل درآماد ہو،اُس کے بعد سنت ثابتہ اوراحادیث صحیحہ کی پیروی کی جائے،اس کے بعد فقہائے اربعہ سے امداد لی جائے، ان تینوں مرحلوں کے بعد چوتھا مرتبہ احکام سلطانی کا تھا، سلطان اگر کوئی حکم جاری کرتا اوروہ حکم قرآن وحدیث کے خلاف ہوتا تو علماء کو اجازت تھی کہ وہ بلا تامل اُس حکم کا خلاف شروع ہونا ثابت کردیں تاکہ سلطان فوراً اپنے حکم کو واپس لے لے۔ اس نے اپنے ممالک مقبوضہ کو صوبوں ،کمشنریوں اورضلعوں میں تقسیم کردیا تھا، ضلع کے کلکٹر کو بیلر بیگ اورکمشنر کو سنجق اورصوبہ دار کو پاشا کا لقب دیا گیا تھا، اسی سلطان نے قسطنطنیہ یعنی دربار سلطنت کو باب عالی کے نام سے موسوم کیا جو اس ہمارے زمانے تک باب عالی کے نام سے مشہور رہا، سخت حیرت ہوتی ہے کہ ایک ایسا جنگ جُو اورفاتح سلطان علمی مشاغل کے لئے کسی طرح وقت نکال لیتا تھا،سلطان فاتح کو اپنے وقار اور رعب کے قائم رکھنے کا یہاں تک خیال تھا کہ اپنے وزیر اعظم سے بھی کبھی خوش طبعی یا بے تکلیفی کی گفتگو نہ کرتا تھا،ضرورت کے بغیر کبھی دربار یا مجلس جما کر نہیں بیٹھتا تھا ؛بلکہ اُس کو اپنی فرصت کے اوقات کابالکل تنہائی میں گذارنا بہت محبوب تھا،اُس کی کوئی بات لغو اورحکمت سے خالی نہ ہوتی تھی، ایک طرف وہ علماء کا بے حد قدر دان اور اُن کی عزت ووقار کے بڑھانے کا خواہاں تھا لیکن دوسری طرف وہ عالم نما جاہلوں اور کٹھ ملاّؤں سے سخت متنفر تھا،نماز روزے کا سخت پابند اورباجماعت نمازیں ادا کرتا تھا،قرآن مجید سے اُس کو بے حد محبت تھی،عیسائیوں اور دوسرے غیر مذاہب والوں کے ساتھ اُس کا برتاؤ نہایت کریمانہ اور روادارانہ تھا،پابندی شرع میں بے جا سکتی اس کو پسند نہ تھی اَلدیْنُ یُسْر اُس کا خصوصی عقیدہ تھا۔ وہ اس راز سے واقف تھا کہ کٹھ ملاؤں نے دین کے معاملہ میں بے جا سختی اور تشدّد کو کام میں لاکر اورذرا ذرا سی بے حقیقت باتوں پر نامناسب زور دے کر دین اسلام کو لوگوں کے لئے موجب وحشت بنادیا ہے اس لئے وہ دین اسلام کی ہر ایک رخصت سے فائدہ اٹھالینے کو جائز جانتا تھا؛چنانچہ اُس کے دربار میں وینس سے ایک مشہور مصور ونقاش آیا اوراپنے کمال کا اظہار کرنے کے لئے سلطان کے دربار کی کئی تصویریں تیار کیں سلطان نے اُس کو اجازت دے دی اورپھر اُس کی تصویروں کو دیکھ کر اُن کے نقائص اُس کو بتائے اس قسم کی معمولی آزاد خیالیوں کو دیکھ کر اس زمانے کی فتوے باز پیدا وار یعنی پیشہ ور مولویوں نے سلطان محمد خان ثانی فاتح قسطنطنیہ پر کفر کا فتویٰ لگایا اورسلطان کو لامذہب اور دہریہ ٹھہرایا،ان تنگ خیال پست حوصلہ، تہی ظرف، دشمن اسلام فتوے بازوں کی نسل بہت پُرانی ہے،یہ لوگ کچھ اس زمانے یا سلطان فاتح ہی کے زمانے میں نہ تھے ؛بلکہ اس سے بہت پہلے بھی دنیا میں موجود تھے جن کا ذکر اسی تاریخ کی گذشتہ جلد میں غالباً آچکا ہے سلطان فاتح کی نظر اپنی سلطنت کے ہر ایک صیغے اور ہر محکمے پر رہتی تھی،مجرموں کو سزا دینے میں وہ بہت چست اورکار گذار اہل کاروں کی قدر دانی میں بہت مستعد تھا، اوپر بیان ہوچکا ہے کہ سلطان فاتح کو اپنا وقار قائم رکھنے اور تنہائی میں رہنے کا بہت شوق تھا لیکن لڑائی کے ہنگامے میں وہ اپنے معمولی سپاہیوں کی مدد کرنے اوردل سوزی کے ساتھ اُن کا ہاتھ بٹانے میں بالکل بے تکلف دوست اورمعمولی لشکری کی مانند نظر آتا تھا، اُس کے سپاہی اُس پر جان قربان کرتے اوراُس کو اپنا شفیق باپ جانتے تھے۔ سلطان فاتح کا قدردرمیانہ، رنگ گندمی اورچہرہ عموماً اُداس نظر آتا تھا ،مگر غصہ وغضب کے وقت نہایت وحشت ناک ہوتا تھا، دیانت وامانت اور عدل وانصاف کے خلاف کوئی حرکت کسی اہل کار سے سرزد ہوتی تو اس کو عبرت ناک سزادیتا،سلطان فاتح کی حدود سلطنت میں چوری اور ڈاکہ زنی کا نام ونشان تک باقی نہ تھا،اس قدر عظیم الشان سلطنت اوروسیع مملکت میں سرکشی و بغاوت کے تمام فاسد مادّوں اوربدامنی وبدچلنی کے تمام امکانات کا فنا ہوجانا سلطان فاتح کو ایک اعلیٰ درجہ کا مد برو ملک دار فرماں روا ثابت کرتا ہے حالانکہ وہ ایک اعلی درجہ کا فاتح اورجنگ جو سپہ سالار بھی تھا،پھر تعجب اوربھی بڑھ جاتا ہے جب معلوم ہوتا ہے کہ سلطان فاتح کو شعر وشاعری کا بھی شوق تھا اوروہ مختلف ومتعدد زبانوں میں بلند پایہ اشعار کہہ لیتا تھا۔