انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تعارف فقہاء ومحدثین فقیہ کی تعریف فقیہ وہ ہے جو احکام شرعیہ کو ان کے تفصیلی دلائل یعنی قرآن وحدیث وغیرہ سے استدلال کے ذریعہ نکالتا ہو۔ محدث کی تعریف محدث وہ ہے جوحضورﷺ کے اقوال وافعال وغیرہ کوحاصل کرکے من وعن اور مکمل حفاظت کے ساتھ دوسروں تک پہنچائے۔ دین کا مدار دوچیزوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد دین کا مدار دو چیزوں پر رہا،ايك قرآن اور دوسرے حدیث پهر یہ دونوں آپ كی امت میں دو طریقہ سے منتقل ہوتے رہے، ایک نقلِ صحیح اور دوسرے فہمِ صحیح ، نقلِ صحیح کا مطلب یہ ہے کہ قرآن وحدیث کو من وعن اور ہوبہو بعد کی نسلوں تک منتقل کیا جائے، اُن کے صحت وسقم کو جانچا وپرکھا جائے اور الفاظِ حدیث کی مکمل حفاظت کی جائے اور فہمِ صحیح سے مراد یہ ہے کہ شریعت کے اصول وفروع، کلیات وجزئیات اور اغراض ومقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے اﷲ اور اس کے رسول کی صحیح صحیح مراد تک پہونچا جائے، پہلی جماعت کومحدثین اور دوسری جماعت کو فقہاء کہا جاتا ہے۔ شریعت میں فقہاء ومحدثین کی حیثیت امت کے ان دونوں طبقوں نے اسلام کی جو خدمت کی ہے اس کی اپنی اپنی جگہ ایک مستقل حیثیت ہے،ان دونوں میں سے کسی کی بھی محنت اورکاوش کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اگر محدثین احادیث فراہم نہ کرتے یا صحیح اور موضوع احادیث میں فرق نہ کرتے توپھرامت علم حدیث سے واقف نہ ہوتی اوراگر فقہاء کرام اوراصحاب فتاویٰ قرآن اور احادیث کے معانی اوراس کے صحیح مفہوم ومراد کوواضح نہ کرتے تو امت گمراہی میں پڑجاتی،جیسا کہ میڈیکل لائن میں دوا فراہم کرنے والے اورڈاکٹرس ان دونوں طبقوں کی اپنی اپنی ایک مستقل حیثیت ہوتی ہے اگر مریض کے سامنے صرف دوا فراہم کرنے والے ہوں اور دوا موجود ہو تو وہ کیسے سمجھے گا کہ کس وقت کونسی دوا لیجائے اور کس مرض کا علاج کس دوا میں ہے اور اگر صرف ڈاکٹرس ہوں اور وہ مرض کی صحیح تشخیص کرکے مریض کو دوا کانسخہ بتادے؛ لیکن مارکٹ میں دوا فراہم نہ ہو تب بھی اس کے مرض کا دور ہونا مشکل ہوجائے گا؛ توجس طرح میڈیکل لائن میں ان دونوں میں سے کسی کی بھی محنت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا؛ اسی طرح شریعت اسلامی میں فقہاء اورمحدثین میں سے کسی کے بھی خدمات کا انکار یااُن میں سے ایک کودوسرے سے کم قرار نہیں دیاجاسکتا۔ اسی وجہ سے احادیث میں اللہ کے رسول ﷺنے دونوں کی فضیلت بتلائی ایک طرف محدثین کے سلسلہ میں فرمایا: "عَنْ زَیْدُ بْنَ ثَابِتٍ نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ غَيْرَهُ"۔ (سنن الترمذی،كِتَاب الْعِلْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى تَبْلِيغِ السَّمَاعِ،حدیث نمبر:۲۵۸۰، شاملہ، موقع الإسلام) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا:اللہ تعالی اس شخص کوتازگی بخشیں جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی اسے یاد کیا؛ پھراسے کسی دوسرے تک پہنچادیا۔ اور دوسری طرف فقہاء کرام کے سلسلہ میں فرمایا: " عَنْ مُعَاوِیَۃَ يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّﷺ يَقُولُ مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ"۔ (بخاری،كِتَاب الْعِلْمِ، بَاب مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ،حدیث نمبر:۶۹، شاملہ، موقع الإسلام) حضرت معاویہ ؓ کہتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو دین کی سمجھ عطا کرتا ہے (ان دونوں کے سلسلہ میں اوربھی احادیث ہیں)۔ بہرحال شریعتِ اسلامی کی مکمل عمارت تیار کرنے میں الگ الگ اشیائے ضروریہ(مٹیریل)کی جو ضرورت پڑتی ہے اس کواحادیث کی شکل میں صحیح اور مکمل حفاظت کے ساتھ محدثین نے فراہم کیا اور فقہاء کرام نے اس مٹیریل کو لیکر ہر ایک کے لیےموزوں اورصحیح جگہ کاانتخاب کرکے اسے رکھا تو اس طرح مکمل اورخوبصورت عمارت بن کر ہمارے سامنے آئی اس ليےان دونوں طبقوں نے اسلام کی جس قدر خدمت کی ہے ان کے احسانات سے قیامت تک آنے والی مسلم نسل سبکدوش نہیں ہوسکتی، علامہ ابن قیمؒ لکھتے ہیں کہ: "علماءِ امت دو قسموں میں منقسم ہوگئے ، ایک قسم حفاظِ حدیث کی تھی؛ جنھوں نے الفاظِ حدیث کو پرکھا، صحیح اور موضوع احادیث کو الگ الگ کرکے بتلایا، یہ حضرات امت کے امام اور مقتدا ہیں اور اسلام کے سواری ہیں، ان حضرات نے دین کی یادگاروں اور اسلام کے قلعوں کی حفاظت کی اورشریعت کے صاف نہروں کو خراب وبرباد ہونے سے محفوظ رکھا..... اور دوسری قسم فقہاءِ اسلام اوراصحابِ فتاویٰ کی ہے، جن کے فتاوی پر امت کا دارومدار ہے؛ اسی جماعت کو اﷲ تعالیٰ نے اجتہاد واستنباط اور حلال وحرام کے قواعد ترتیب دینے کے لیے انتخاب فرمایا، حضراتِ فقہاء زمین میں ایسے ہیں جیسے آسمان میں روشن ستارے؛ انہی کے ذریعہ تاریک رات میں بھٹکے ہوؤں کو راستہ ملتا ہے اور انہی کے ذریعہ الجھے ہوئے مسائل سلجھتے ہیں؛ اسی وجہ سے لوگوں کو اپنی ضروریاتِ زندگی کھانے پینے سے بھی زیادہ ان حضراتِ فقہاء کی ضرورت ہے اور لوگوں پر والدین کی اطاعت سے کہیں زیادہ ضروری ان فقہاءِ کرام کی اطاعت ہے"۔ محدثین کرام کا کام جب صرف احادیث فراہم کرنا تھا تو یہ حضرات صرف حدیث حاصل کرنے ہی کی فکر میں رہتے تھے، ان حضرات کی نظر اُس طرف بالکل نہیں جاتی کہ یہ بات اللہ کے رسول نے کس موقع پر کس شخص کے حالات کے لحاظ سے بیان فرمائی اوراس کے بعد اللہ کے رسول نے اس عمل کے ساتھ ساتھ اسی عمل کے لیے کوئی دوسرا طریقہ بھی بتلایا تھا اور اسی طرح الفاظِ حدیث کے مرادی معنی کیا ہیں؟ جیسے آپ ﷺ سے کبھی دریافت کیا گیا کہ کونسا عمل سب سے افضل ہے؟ فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پرایمان لانا پھر کبھی یہی سوال کیا گیاتو آپﷺ نے جواب دیا: نماز کواس کے وقت پر ادا کرنا پھرکسی وقت یہی بات پوچھی گئی تو تو آپﷺ نے بتایا کہ ہر وہ نیک عمل جس میں دوام ہو۔ (بخاری،كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب مَنْ قَالَ إِنَّ الْإِيمَانَ هُوَالْعَمَلُ،حدیث نمبر:۲۵۔ كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ،بَاب فَضْلِ الصَّلَاةِ لِوَقْتِهَا،حدیث نمبر:۴۹۶۔ كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ، بَاب مَنْ نَامَ عِنْدَ السَّحَرِ،حدیث نمبر:۱۰۶۴، شاملہ، موقع الإسلام) اسی طرح ایک موقع پر اللہ کے رسولﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا: جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہ ہوگی اور ایک دوسرے موقع پر اللہ کے حبیب ﷺ نماز سے فارغ ہوکرصحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تم لوگ امام کے پیچھے اپنی نمازمیں قرأت کرتے ہو؟ تم سب خاموش رہا کرو؛ اِس جملہ کوتین مرتبہ دُہراتے رہے اس پر کسی نے کہا کہ ہم اس طرح (قرأت) توکرتے رہتے ہیں، آپ نے فرمایا: ایسا مت کیا کرو ؛ البتہ اگر چاہو تو اپنے دل ہی میں سورۂ فاتحہ پڑھ لو۔ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر:۱۸۵۲، صفحہ نمبر:۵/۱۶۲) مذکورہ مختلف احادیث سے معلوم ہوا کہ جب اللہ کے رسولﷺسےمختلف اوقات میں افضل عمل کے متعلق دریافت کیا گیا تودریافت کرنے والے کی حالت کے لحاظ سے مختلف جوابات ملے اور نماز سے متعلق احادیث میں پہلی حدیث کے اندر سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز کے کامل ہونے کی نفی فرمائی اور دوسرے موقع پرمقتدی کے خاموش رہنے کو ضروری قرار دیا اس لیے کہ امام کی قرأت کومقتدیوں کی قرأت قرار دیا گیا؛ تاکہ امام کو اس کی وجہ سے اشتباہ نہ ہو۔ بہر حال ائمہ محدثین کو تو صرف احادیث حاصل کرنا تھا تو انہوں نے اسے حاصل کرکے پہنچادیا اور فقہاء کرام نے صحابہ کرامؓ وغیرہ کے ذریعہ امت کو ہر حدیث کی نزاکت اور اس کے موقع محل کو سمجھاتے ہوئے اس پر عمل کرنے کا وقت اور جگہ کی تعیین کی اور امت کوقرآن واحادیث کا عطرونچوڑ فقہ اسلامی کی شکل میں پیش فرمایا۔ فقہاء کرام میں بعض اعمال کے مختلف طریقے ہونے کی وجہ ایسے حالات میں فقہاء کرام کے درمیان بعض اعمال میں الگ الگ رائے قائم ہونے کی وجہ مختلف رہیں، مثلاً: امام احمدبن حنبلؒ نے ہر حدیث کو لائقِ عمل قرار دیا اور انہوں نے ہرصحیح وضعیف حدیث کولے لیا؛ اورامام شافعیؒ نے باب کی سب سے صحیح حدیث کواختیار کیا اور صرف صحیح حدیث کے مطابق عمل کوروا رکھا اورامام مالکؒ نے اہلِ مدینہ کے قول و فعل کو معیار بنایا اور امام اعظم ابوحنیفہؒ نے ایک مسئلہ سے متعلق متعدد و مختلف روایات کی روح کو سمجھا؛ پھر خواہ تمام احادیث پر عمل ہوجائے یا اگر اس طرح ممکن نہ ہو تو اصول وقواعد کی روشنی میں حدیث کو لیا یاپھر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے قول و عمل کے مطابق اس مسئلہ کا حکم بتلایا،خلاصہ یہ کہ بظاہر نصوص کے مختلف ہونے یا صحابہؓ کے قول و عمل کے مختلف ہونے کی وجہ سے ان حضرات کے سونچنے سمجھنے اور معیارات کے مختلف ہونے کی وجہ سے بعض مسائل میں الگ الگ رائے قائم ہوئی؛ نیز زمانہ کے بڑہتے ہوئے حالات کی بناء پر معاشرت و معاملات کے سلسلہ میں نصوص شرعیہ کےمجموعہ سے ہر ایک امام نے جو اصول و قواعد بنائے ہیں ان ہی قواعد کی روشنی میں ہر مسئلہ کا حکم بتلایا، یہاں ہر ایک امام نے اپنے فہم کے لحاظ سے اصول بنائے؛ چونکہ اللہ تعالی ہر انسان کے اندر ذہنی صلاحیت کو مختلف رکھا اس لیے ان اصول وقواعد کوقرآن وحدیث اور اقوالِ صحابہؓ سے مستنبط کرنے میں مختلف اصول بنے ہیں؛ لیکن اس بات میں تمام ہی ائمہ متفق ہیں کہ سب سے پہلے قرآن کریم؛ پھرحدیثِ رسولﷺ؛ پھرآثارِ صحابہؓ وغیرہ کا اجماع پھر اُس کے بعد قرآن واحادیث کی روشنی میں ماہرینِ قرآن وسنت کی سمجھ بوجھ سے کسی مسئلہ کی تحقیق کرکے اُس کا حکم بتلایا جائیگا۔ (المیزان الکبری:۱/۲۔ المسوی:۲۶۔ الام:۱/۱۷۹۔ اعلام الموقعین:۱/۳۳،۲۹) اسی وجہ سے ہرمکتب فکر کے برحق ہونے پر تمام اہل حق کا اجماع ہے (عقدالجید فی احکام الاجتہاد والتقلید:۱۳، مصنف:أحمد بن عبد الرحيم الدهلوي) اور ہرشخص کو یہ اختیار ہے کہ جس مکتب فکر کو چاہے اپنے لئے قابل عمل بنائے؛ اسی وجہ سے ایک مکتبِ فکر کی تقلید کرنے والا دو سرے مکتبِ فکر والے کے عمل کو غلط قرار نہیں دیتا بلکہ ضرورت پڑھنے پر اس کی اقتداء بھی کرتا ہے اوراس کے عمل کو قابل تقلید بھی سمجھتا ہے جیساکہ خود فقہاء کرام اور ارباب افتاء بھی اپنے مکتبِ فکر کے مسئلہ وموقف کو چھوڑ کر دوسرے مکتب فکر کے مسئلہ وموقف پر عمل کرتے ہیں اور فتویٰ بھی دیتے ہیں جیسے "مفقود الخبر" (جس عورت کا شوہر غائب ہوگیا ہو اور وہ زندہ ہے یامردہ معلوم نہیں ہوپارہا ہے) تواِس مسئلہ میں شوافع اوراحناف، مالکیہ کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں؛ اسی طرح حج وغیرہ کے موقع پر حنفی اپنی نماز وغیرہ کے اوقات میں اپنے مسلک کو ترک کرکے دیگر ائمہ کی تقلید کرتے ہیں اور شوافع زکوٰۃ کی ادائیگی کے سلسلے میں فقہ حنفی پر عمل کرتے ہیں وغیرہ۔ فقہائے کرام کے مسائل میں اختلافِ رائے ہونے کے فوائد اگر فقہاء میں بعض اعمال میں الگ الگ رائے نہ ہوتی تو بعض مسائل میں امت کو بہت دشواریاں ہوتیں، مثلاً شافعی اور حنفی مکتب فکر کے مطابق اگر مفقود الخبر میں تمام ائمہ متفق ہوتے تو عورت ساری زندگی اپنے شوہر کے انتظار میں گزاردینے پر مجبور ہوجاتی اس کے عقد ثانی کی صورت دشوار ہوجاتی اوراسی وجہ سے اللہ کے رسولﷺ کے مختلف احادیث پر اختلافِ رائے امت کو عمل کرنے کا موقع فراہم ہوگیا اوراس طرح آپﷺکی تمام سنتیں کسی نہ کسی مکتبِ فکر میں باقی ہے اور پوری امت حضورِ پاکﷺ کے ہرقول وفعل پر عمل کررہی ہے اس سے معلوم ہوا کہ منشائے خدا وندی بھی یہی ہے کہ اپنے حبیبﷺ کی ہراداء کورہتی دنیا تک باقی رکھا جائے۔ مذکورہ تفصیل سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجانی چاہئے کہ جب بھی کسی فقیہ یامفتی یاعالم سے کوئی مسئلہ دریافت کیا جاتا ہے تووہ جوبھی حکم بتاتا ہے وہ اس کی اپنی ذاتی رائے نہیں ہوتی؛ بلکہ وہ قرآن وحدیث یاپھر ان سے نکالے گئے اصول کے مطابق حکم بتلاتا ہے اورخاص کر نئے مسائل (جیسے کار یاٹرین یاہوائی جہاز میں نماز پڑھنے کی کیفیت کیا ہوگی؛ اسی طرح روزہ میں کسی اور کوخون کا ہدیہ دینا یاخود روزہ دار کا انجکشن، گلوکوس وغیرہ کا لینا اِس طرح کے بے شمار مسائل ہیں؛ اگرکوئی عام آدمی خود ہی قرآن وحدیث میں تلاش کرنا چاہے تواسے کہیں نہیں ملے گا؛ اِس کے برخلاف فقہائے کرام ومفتیانِ عظام قرآن واحادیث سے استدلال کرتے ہوئے منشائے خداوندی کے مطابق اُس مسئلہ کا حکم متلاشیانِ حق کوبتلاتے ہیں، اس لیے فقہائے کرام کا اِس امت پر بہت بڑا احسان ہے جواپنی زندگی کی تمام ترصلاحیتوں کوامت کے مسائل کے حل کرنے میں صرف کردیئے۔