انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت حنظلہ ؓبن ربیع نام ونسب حنظلہ نام، ابو ربیع کنیت،نسب نامہ یہ ہے،حنظلہ بن ربیع بن صیفی بن رباج بن حارث ابن فحاش بن معاویہ بن شریف بن جردہ بن اسید بن عمرو بن تمیم تمیمی۔ اسلام ان کے اسلام کا زمانہ متعین طور پر نہیں بتایا جاسکتا، لیکن قیاس یہ ہے کہ آغازِ دعوت اسلام میں اس شرف سے مشرف ہوئے ہونگے، اس لیے کہ اسی زمانہ میں ان کے گھرانے میں اسلام کا اثر ہوا تھا، ان کے چچا اکثم بن صیفی عرب کے مشہور حکیم تھے، آنحضرتﷺ کی بعثت سے پہلے وہ آپ کے ظہور کی خبر دیتے تھے،بعثتِ نبوی کے وقت ان کی عمر۹۰ سال کی تھی جب انہیں بعثت کی اطلاع ہوئی ،تو انہوں نے آنحضرتﷺ کو ایک خط لکھا، آپ نے اس کا جوب مرحمت فرمایا ،اکثم اس جواب سے بہت مسرور ہوئے اوراپنے قبیلہ کو جمع کرکے آنحضرتﷺ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے اورآپ پر ایمان لانے کی ترغیب دی، لیکن مالک بن نویرہ نے درمیان میں پڑ کر سب کو منتشر کردیا، مگر اکثم نے اپنے لڑکے اورجن جن لوگوں نے ان کا کہنا مانا سب کو آنحضرتﷺ کی خدمت میں بھیجا، لیکن سوئے اتفاق سے آپ تک کوئی نہ پہنچ سکا (استیعاب:۱/۱۰۶) قیاس یہ ہے کہ اسی زمانہ میں حنظلہ بھی ایمان لائے ہوں گے اسلام کے بعد مراسلات نبویﷺ کی کتابت کا عہدہ سپرد ہوا۔ (اسد الغابہ:۲/۶۶) غزوات کسی خاص غزوہ میں ان کی شرکت کی تصریح نہیں ملتی، لیکن اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کے شرف سے محروم نہ رہے تھے؛چنانچہ بیان کرتے تھے کہ ہم لوگ بعض غزوات میں شریک ہوئے تھے اس میں ایک مقتولہ عورت کی طرف سے گذر ہوا لوگ جمع ہوکر اُسے دیکھنے لگے،اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے،لوگوں نے راستہ چھوڑ دیا،آپ نے لاش دیکھ کر فرمایا کہ یہ تو لڑتی نہ تھی، پھر ایک شخص کو خالد بن ولید کے پاس بھیجا کہ جاکر کہدو کہ رسول اللہ ﷺ بچوں اورعورتوں کے قتل سے منع کرتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل:۵/۱۷۸) غزوہ طائف سے قبل آنحضرتﷺ نے انہیں بنی ثقیف کے پاس سفیر بناکر بھیجا کہ وہ لوگ صلح پر آمادہ ہیں یا نہیں۔ (اسد الغابہ:۶۶) قادسیہ کی جنگ میں شرکت کوفہ کا توطن اور وفات حضرت عمرؓ کے زمانہ میں قادسیہ کی مشہور جنگ میں شریک ہوئے ،(اصابہ:۲/۴۳) کوفہ آباد ہونے کے بعد یہاں بودوباش اختیار کرلی،پھر جنگ جمل کے بعد قرقییا میں منتقل ہوگئے اوریہیں امیر معاویہ کے زمانہ میں وفات پائی۔ (ایضاً) فضل وکمال آنحضرتﷺ کے منشی تھے،آپ کے مراسلات وغیرہ لکھا کرتے تھے،اس لیے کاتب ان کے نام کا جزو ہوگیا تھا، ان کی ۸ روایتیں حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں،ان رواۃ میں یزید بن تغیر اور ابو عثمان نہدی قابلِ ذکر ہیں۔ (تہذیب الکمال:۹۶) صفا قلب اورقوتِ ایمانی حنظلہ کی قوتِ ایمانی اورصفائے قلب کا اس واقعہ سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے خطبہ دیا اوراس طرح جنت و دوزخ کا ذکر فرمایا کہ اس کے مناظر آنکھوں کے سامنے پھر گئے، حنظلہ بھی اس خطبہ میں تھے، یہاں سے اٹھ کر گئے تو فطرت انسانی کے مطابق تھوڑی دیر میں سب مناظر بھول گئے اور بال بچوں میں پڑکر ہنسنے بولنے لگے، لیکن پھر فورا ًتنبہ ہوا عبرت پذیر دل نے ٹوکا کہ اتنی جلد یہ سبق فراموش ہوگیا، اسی وقت روتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے،حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا خیر ہے، کہا ابو بکر! حنظلہ منافق ہوگیا، ابھی ابھی رسو اللہ ﷺ کے خطبہ میں جنت دوزخ کا منظر دیکھ کر گھرآیا اورآتے ہی سب کو بھلا کر بیوی بچوں اورمال دولت کی دلچسپیوں میں مشغول ہوگیا، حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا ،میرا بھی یہی حال ہے ،چلو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں چلیں؛چنانچہ دونوں خدمتِ نبوی میں پہنچے آپ نے دیکھ کر پوچھا حنظلہ کیا ہے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ حنظلہ منافق ہوگیا، آپ نے جس وقت جنت و دوزخ کا ذکر فرمایا اس وقت معلوم ہوتا تھا کہ دونوں نگاہوں کے سامنے ہیں خطبہ سن کر گھر گیا تو سب بھلا کر بیوی اور مال وجائداد میں مصروف ہوگیا، یہ سن کر آنحضرتﷺ نے فرمایا حنظلہ اگر تم لوگ اسی حالت پر ہمیشہ قائم رہتے جس حالت میں میرے پاس سے اٹھ کر گئے تھے، تو ملائکہ آسمانی تمہارے جلسہ گاہوں ،تمہارے راستوں اور تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کرتے، لیکن حنظلہ کوئی گھڑی کیسی ہوئی ہے اور کوئی کیسی۔