انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ایک جھوٹی کہانی اور اس پر تنقید چنانچہ انہوں نے ایک جھوٹی کہانی تصنیف کرکے اس کو خوب فروغ دیا ہے،وہ کہانی یہ ہے کہ طارق جب طلیطلہ سے شمالی جانب روانہ ہواہے تو اس طلیطلہ کے مفرورین کی ایک جماعت ملی جن کے پاس حضرت سلیمان علیہ السلام تک کی ایک میز یاچوکی تھی وہ زر وجواہر سے مرصع اور کروڑوں روپیے کی قیمتی تھی طارق ن اس کو چھین لیا،جب موسی اندلس پہنچا تو موسی نے طارق سے اس چوکی کو طلب کیا طارق نے اس چوکی ایک پایہ اکھیڑ کر چھپالیا اور تین ٹانگ کی چوکی موسی کی خدمت میں پیش کرکے کہا کہ یہ اسی حالت میں ملی تھی موسی نے چوتھا پایہ سنے کا بناکر نصب کرالیا مگر وہ ویسا نہ بن سکا جیسے باقی تین پائے تھے جب موسی نے خلیفہ ولید یا سلیمان کیخدمت میں اس چوکی کو پیش کیا تو عرض کیا کہ چوکی مال غنیمت میں حاصل کی تھی خلیفہ نے اس کے ایک پائے کو ناقص دیکھ کر پوچھا کہ یہ پایہ باقی پایوں کے مانند کیوں نہیں ہے ،موسی نے عرض کیا کہ یہ مجھ کو عیسائیوں سے اسی حالت میں ملی تھی ،طارق بھی اس وقت موجود تھا اس نے فوراً اپنی بغل سے وہ چوتھا پایہ نکال کر خلیفہ کے سامنے پیش کردیا کہ یہ چوتھا موجود ہے خلیفہ کاجب معلوم ہوا کہ موسی بن نصیر نے طارق کی کارگزاری کو اپنی طرف منسوب کیا ہے تو سحت برہم ہوا اور اس نے موسی کو قید بھی کیا اور جرمانہ بھی اتنا سخت کیا جو موسی سے ادا نہ ہوسکتا تھا اسی قسم کی اور بھی بہت سی کہانیاں عیسائی مورخوں نے تراشی ہیں،افسوس ہوتا ہے کہ ان مؤرخین نے جو ہمارے زمانے میں اندلس کی تاریخیں لکھنے کی طرف متوجہ ہوئے ایسی لغو اور بیہودہ کہانیوں کی لغویت کا پردہ فاش نہیں کیا طارق کا اپنے قریبی افسر اور آقا سے اس طرح چالاکی اور دھوکہ بازی کے ساتھ پیش آنا اور برسوں پہلے سے موسی کوزک دینے کے لیے یہ منصوبہ گانٹھنا کسی طرح سمجھ میں نہیں آسکتا،پھر تعجب یہ ہے کہ موسی کو چوکی یا میز کا چوتھا پایہ بنوانا پڑا اور موسی سے کسی ایک شخص نے بھی یہ نہ کہاکہ یہ میز جب ہم نے عیسائی مفروروں سے چھینی ہے تو اس کے چاروں پایے سالم تھے آپ اس چوتھے پائے کو تلاش کریں مگر یہ طارق کی ایسی سازش تھی کہ ہزارہا آدمی اس سے واقف تھے اور موسی تین سال تک بے خبر رہ کر یہی سمجھتا رہا ک چوکی اسی طرح عیسائیوں سے چھینی گئی تھی ،موسی جیسا اولالعزم شخص جو تمام یورپ کو فتح کرتا ہوا قسطنطنیہ پہنچنے کا عزم رکھتا تھا ،تعجب ہے کہ ایسی دنائت اور پستی پر کیسے آمادہ ہوسکتا تھا کہ دوسرے کی کاگزاری کو دربار خلافت میں جھوٹ بول کر اپنی ھرف منسوب کرے پھر لطف یہ کہ عیسائی مفرورین سے اس میز یا چوکی کا چھین لینا کوئی بہادری کی بات نہیں تھی خواہ کوئی شخص اس میز کو حاصل کرتا وہ بہر حال خلیفہ کی خدمت میں پیش ہونا چاہیے تھی،پھر خلیفہ دمشق کے دربار میں طارق کا اس طرح حاضر ہونا کے اس کی بغل میں میز کا پایہ دبا ہوا ہے اور بھی حیرت انگیز ہے ،طارق اور موسی کی اس مضحکہ خیز حرکات پر خلیفہ سلیمان کا اس قسم کی سمائیں تجویز کرنا بھی سمجھ میں نہیں آتا،اندلس اور ممالک مغربیہ کی تاریخ لکھنے والوں میں ہم کو سب سے زیادہ اعتماد ابن خلدون پر کرنا چاہیے مگر وہ اس کہانی کا کوئی تذکرہ نہیں کرتے،ابن خلدون کا بیان یہ ہے کہ جب موسی بن نصیر خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی خدمت میں حاضر ہوا تو خلیفہ نے موسی کے ارادے پر اظہار ناراضگی کیا کہ وہ یورپ کے ملکوں کو فتح کرتا ہوا قسطنطنیہ پہنچنا چاہتا تھا اس طرح وہ مسلمانوں کو وہ خطرہ اور ہلاکت میں ڈالنے کی جرأت کرتا نیز یہ کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک نے موسی کو اندلس سے یہی خبر سن کر طلب کیا تھا کہ وہ بلا اجازت یورپ کے ملکوں پر حملہ آور ہونے کا قصد کرچکا ہے اسی لیے خلیفہ سلیمان نے موسی بن نصیر کو زجر وتوبیخ کیا تو نے خود رائی اور خود سری کا راہ سے مسلمانوں کی فوج کو کیوں خطرہ میں مبتلا کینا چاہا تھا ابن خلدون کا یہبیان بالکل قرین قیاس ہے اس میں میز والی کہانی کا کچھ تذکرہ نہیں ہے۔ موسی بن نصیر اندلس کی حکومت اپنے بیٹے عبدالعزیز کو اور افریقہ ومراقش کی حکومت بھی اپنے بیٹوں عبداللہ ومروان کو سپرد کرآیا تھا یعنی ممالک مغربیہ سب موسی کی اولاد کے تصرف وقبضے میں تھے اس لیے موسی بن نصیر سے سختی کے ساتھ خلیفہ کا محاسبہ کرنا خطرہ سے خالی نہ تھا اور اسی لیے ممالک مغربیہ میں بھی کسی قسم کی برہمی پیدا نہیں ہوئی یہ بات بھی نظر انداز کرنے کےقابل نہیں ہے کہ خلیفہ سلیمان نے ایک طرف موسی کو ایسی سخت تنبیہ کی دوسری طرف موسی کے بیٹوں کی معزولی کو ضروری نہ سمجھا ہاں چند روز کے بعد خلیفہ سلیمان نے محمد بن یزید کو تمام ممالک مغربیہ کا وائسرائے مقرر کرکے قیروان بھیج دیا تھا کہ وہ ممالک مڑبیہ کی نگرانی کرے ،مگر اندلس کی حکومت بدستور عبدالعزیز بن موسی کے قبضہ میں رکھی۔