انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنات کے بارہ نقیب حضرت عبداللہؓ بن مسعود سے روایت ہے کہ وادیٔ نخلہ سے آنے کے تین ماہ بعد ایک روز حضرت جبریل ؑ آئے اور عرض کیا کہ جنّات آپ ﷺ سے ملاقات کے لئے آنے والے ہیں، آپﷺ ان کے ساتھ مقام جحون میں پہنچے تو ایک مقام پر جبریلؑ نے اپنی انگلی سے ایک دائرہ کھینچا اور فرمایا کہ اس سے باہر ہر گز قدم نہ رکھنا ورنہ پھر مجھے نہ دیکھ سکو گے ، آپﷺ نے ایک ٹیلہ پر نماز ادا فرمائی اور سورۂ طٰہٰ کی تلاوت شروع کی ، کچھ ہی دیر میں چالیس جھنڈے دکھائی دیئے اور ہر جھنڈے تلے ہزاروں جِنّات موجود تھے، کسی نے یہ تعداد دو ہزار اور کسی نے ساٹھ ہزار بتلائی ہے، جِنّات نے آپﷺ سے دریافت کیا کہ آپﷺ کون ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا : اللہ کا نبی ، انھوں نے پوچھا کہ ثبوت کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا کہ درخت گواہی دے گا ، آپﷺ کے اشارے پر ایک درخت اپنی جگہ سے آکر شاخوں کو زمین پر بچھا دیا اور عرض کیا کہ بے شک آپﷺ اللہ کے رسول ہیں ، پھر آپﷺ نے اسے واپس جانے کے لئے کہا تو واپس ہوگیا، آپﷺ کے گرد جِنوں کا بڑا ہجوم تھا جن میں سے آپﷺ نے بارہ جِن بطور نقیب منتخب فرمائے اور انھیں دین کے احکام بتلائے ، پھر تمام جن بادلوں کی ٹکڑیوں کی صورت میں اُڑ کر چلے گئے۔ صبح میں حضور ﷺ وہاں سے واپس آئے اور حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود سے پوچھا : تم نے کیا کیا دیکھا ؟ انہوں نے عرض کیا : سیاہ آدمی سفید لباس میں دیکھے ، فرمایا :یہ نصیبین کے جِنّات تھے مجھ سے اپنی سواریوں کی خوراک مانگ رہے تھے ، ان کی خوراک ہڈیاں اور جانوروں کا چارہ اور گھوڑوں کی لید ہے، عرض کیا کہ یہ کیونکر ممکن ہے، آپﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ہر ہڈی پر اُس وقت گوشت پیدا کر دیتا ہے جتنا اس سے کھایا جائے ، اور لید کو دانوں میں تبدیل کر دیتاہے ، اسی موقع پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا : ہڈی اور لید سے استنجا نہ کرو ۔ ( مصباح الدین شکیل ، سیرت احمد مجتبیٰ) وادی ٔ نخلہ میں چند روز قیام کے بعد آپﷺ جبل ِ نور پر تشریف لا ئے اور غارِ حرا میں قیام فرمایا، اب مکہ میں بغیر کسی کی امان کے داخل ہونا مشکل تھا، آپ ﷺنے عبداللہ بن اریقط کے ذریعہ اخنس بن شریق اور سہیل بن عمرو کے پاس کہلا بھیجا کہ وہ اپنی پناہ میں لے لیں لیکن اخنس نے یہ کہہ کر انکار کر دیاکہ میں حلیف ہوں اور حلیف کو پناہ دینے کا اختیار نہیں ، اسی طرح سہیل نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ بنی عامر کی دی ہوئی پناہ بنی کعب پر لاگو نہیں ہوتی، پھر آپﷺ نے یہی پیام مطعم بن عدی کے پاس بھیجا فوراً آمادہ ہو گیااور اپنے بیٹوں اور قبیلہ والوں سے کہا کہ حرم کے دروازے پر کھڑے رہیں، اور خود بھی اونٹ پر سوار ہو کر حرم کے پاس پہنچا اور بہ بانگ دہل کہا کہ میں نے محمد( ﷺ ) کو پناہ دی ہے ، سب نے مطعم کی اس پناہ کو قبول کیا، چنانچہ آنحضرت ﷺ مطعم بن عدی کی امان میں مکہ تشریف لائے ‘ حجر اسود کو بوسہ دیا اور طواف کر کے دوگانہ ادا کیا اور پھراپنے دولت خانہ کو واپس تشریف لے گئے۔ مطعم بن عدی کی وفات حالتِ کفر میں غزوۂ بدر سے پہلے ہوئی، شاعرِ دربار ِ رسالت حضرت حسانؓ نے مرثیہ لکھا، مطعم بن عدی کا یہی احسان تھا کہ اسیرانِ بدر کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا تھا : اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور ان ظالم لوگوں کے بارے میں درخواست کرتا تو میں اس کی خاطر انھیں رہا کر دیتا،ابن اسحاق کی روایت ہے کہ جب آپﷺ طائف سے مکہ تشریف لائے تو آپﷺ کی قوم آپ ﷺ کی مخالفت اور اسلام دشمنی میں پہلے سے زیادہ سخت ہوگئی، قوم میں آپﷺ کی ہنسی اڑانے والوں میں بڑی بڑی پانچ ہستیاں تھیں اور یہ لوگ اپنی قوم میں بلند پایہ اور سن رسیدہ تھے : ۱) بنی اسد میں الاسود بن المطلب ،۲) بنی زہرہ میں الاسود بن یغوث ، ۳) بنی مخزوم میں ولید بن المغیرہ، ۴) بنی سہل میں عاص بن وائل ، ۵) بنی خزاعہ میں الحارث بن طلاطلہ۔ یہ لوگ اپنے کردار میں مغضوب کی حد تک پہنچ چکے تھے؛ چنانچہ ایسی حالت میں کہ یہ لوگ طواف کر رہے تھے حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور حضور ﷺ بھی ان کے پہلو میں کھڑے تھے ، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جب ان لوگوں کی طرف دیکھا تو ہر ایک کی طرف خصوصی اشارے کئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ الاسود بن المطلب اندھا ہو کر مرگیا اور الاسود بن یغوث پیٹ پھولنے کی وجہ سے مرگیا ، ولید بن مغیرہ جس کے پاؤں میں بہت دنوں سے تیر کی خراش کا نشان تھا وہ پھوڑا بن گیا اور یہی اس کی موت کا سبب بنا ، عاص بن وائل اپنے گدھے پر سوار ہوکر طائف جانے کے ارادہ سے نکلا وہ اس کو لے کر ایک خاردار درخت پر بیٹھ گیا اس کے تلوے میں کانٹا چبھ گیا اور یہی اس کی موت کا سبب بن گیا، حارث بن طلاطلہ کے سر سے بغیر کسی ظاہری سبب کے پیپ نکلنے لگی اور وہ جانبر نہ ہوسکا۔ (پیغمبر عالم - مولانا عبدالصمد رحمانی)