انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عبدالعزیز بن عبداللہ ماجشونؒ نام ونسب عبدالعزیز نام اورابو عبداللہ یا ابوالاصبح کنیت تھی،دادا تک سلسلہ نسب یہ ہے،عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابی سلمۃ المیمون (العبر فی خبر من غبر:۱/۲۴۴) ان کے دادا قبیلہ آل ہدیر کے غلام تھے جن کی کنیت ابو سلمہ تھی،غالباً یہ نسلاً ایرانی تھے،میمون کے زمانہ ہی سے یہ خانوادہ مدینہ منورہ میں آبادہوگیا تھا، اورعبدالعزیز بن عبداللہ کی پیدائش جوارِ نبوی ہی میں ہوئی،اسی بنا پر عام اہلِ تذکرہ انہیں من اھل المدینہ لکھتے ہیں،ان کے دادا ابو سلمہ قابلِ ذکر لوگوں میں معلوم ہوتے ہیں۔ چنانچہ احمد بن زہیر کا بیان ہے کہ میں نے یحییٰ بن معین سے پوچھا کہ شیخ عبدالعزیز کے دادا کا نام میمون تھا؟فرمایا ہاں میمون تھا،ان ہی کی اولاد میں تو متعدد علماء اورمحدث پیدا ہوئے ہیں۔ ماجشون کی وجہ تسمیہ شیخ عبدالعزیز کے نام کا ایک جزماجشون بھی ہے،مشہور مؤرخ خطیب بغدادی اس کی وجہ تسمیہ پر روشی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں: انما سمی الماجشون لان وجنتیہ کانتا حمراوین (تاریخ بغداد:۱۰/۴۳۶) ماجشون کہلائے جانے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے رخسار شراب کی طرح سُرخ تھے۔ یعنی وہ بہت ہی حسین و جمیل تھے؛چنانچہ اہلِ فارس انہیں مےگوں کہنے لگے اورپھر اسی کو معرب کرکے اہلِ مدینہ نے ماجشون کردیا، یہ خطیب کی تحقیق ہے،لیکن حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ یہ لفظ ماہ گوں (چاند سا) کا معرب ہے،ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ گل گوں کا معرب ہے۔ (تہذیب التہذیب:۶/۳۴۴) بہر حال تمام روایات کا قدر مشترک یہی ہے کہ عبدالعزیز حسن وجمال کی دولت سے انتہائی مالا مال تھے،حتیٰ کہ ان کا ظاہری حسن ان کے نام کا لازمی جزوبن گیا۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ بعض تذکرہ نویسوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ ماجشون،زیر تذکرہ شیخ عبدالعزیز کا لقب ہے؛چنانچہ خطیب نے یہی لکھا ہے ،مگر حقیقت یہ ہے کہ شیخ کا نہیں ؛بلکہ ان کے چچا یعقوب بن ابی سلمہ کا لقب تھا،اس کی وجہ خواہ وہ مے گوں کا معرب ہو یا ماہ گوں کا، مگر ان کے چچا کے وقت ہی سے ان کا خاندانی لقب ہوگیا تھا۔ مؤرخ ابن خلکان نے تویہ بھی لکھا ہے کہ یہ لقب ان کے چچا کو حضرت حسینؓ کی صاحبزادی حضرت سکینہ نے عطا کیا تھا؛چنانچہ ابن خلکان کی عبارت ملاحظہ ہو۔ وبقتہ سکینۃ بنت الحسین بن علی بن ابی طالب ؓ وجویٰ ھذا اللقب علیٰ اھل بیتہ من بنیہ وبنی اخیہ (ابن خلکان:۱/۵۱۴) ماجشون بن ابی سلمہ کا نام یعقوب تھا،اسی نسب سے ان کے اوران کے چچازاد بھائیوں کے لڑکے منسوب کرکے ماجشون پکارے جاتے ہیں۔ حافظ ابن حجر کے بیان سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ایں خانہ تمام آفتاب است شیخ عبدالعزیز کا پورا خانوادہ علم وفضل اورصلاح وتقویٰ میں ممتاز تھا،ان کے چچاکا ذکر اوپر مذکور ہوا،خود ان کے دو صاحبزادے اہلِ علم ہوئے ہیں، شیخ عبدالعزیز کے صاحبزادے عبدالملک تو اپنے وقت کے مسلم ادیب اور ممتاز صاحبِ علم وفضل سمجھے جاتے تھے،حافظ ابن حجر شیخ یعقوب کا ذکر کرتے ہوئے،ماجشون کی نسبت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: ھوالماجشون سمی بذالک ھودولدہ وکان فیھم رجال لھم فقہ وروایۃ للحدیث والعلم (تہذیب التہذیب:۱۱/۳۸۸) یعقوب ہی کو ماجشون کہا جاتا ہے یہ اوران کی اولاد سبھی اس نسبت سے پکارے جاتے ہیں اوران کے خانوادہ میں بہت سے محدث فقیہ اورعالم گذرے ہیں۔ ولادت اورتعلیم شیخ عبدالعزیز کے سنہ ولادت کے بارے میں تذکرہ نگار خاموش ہیں،مگر دیگر حالات کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی ولادت مدینہ منورہ میں ہوئی، ان کا نسبی تعلق اصبہان (ایران) سے تھا،غالباً ان کے دادا ہی کے وقت ہی میں یہ لوگ مدینہ میں آباد ہوگئے تھے،حتیٰ کہ مدینہ میں ایک گلی کا نام سکۃ الماجشون پڑگیا تھا۔ ابتدائی تعلیم کے بارے میں کوئی خاص معلومات تذکروں میں نہیں ملتیں ،ان کے شیوخ کی فہرست اورمدینہ منورہ سے ان کے باہر جانے کے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی زمانہ یہیں گذرا، اسی بنا پر ان کی ابتدائی تعلیم یہیں ہوئی ہوگی،ان کے والد اور چچا دونوں صاحب علم و فضل تھے، ان سے اورمحمد بن المنکدر سے استفادہ کا ذکر تمام اہلِ تذکرہ نے کیا ہے (ایضاً:۶/۳۴۳)تعلیم کے بعد یہیں ان کا حلقہ درس وافتاء قائم ہوا۔ شیوخ ان کے ممتاز شیوخ کے نام درجِ ذیل ہیں ان میں کبار تابعین اوراتباع تابعین کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ امام زہری،محمد بن المنکدر،عبداللہ بن دینار،ابوحازم، سلمہ بن دینار،سعد بن ابراہیم،حمید الطویل،عمروبن ابی عمر،صالح بن کیسان،ہشام بن عروہ،عبداللہ ابن الفضل عبداللہ ابن عمر،یحییٰ بن سعید الانصاری،سہیل بن ابی صالح،ایوب السختیانی،قدامہ بن موسیٰ۔ ان کے علاوہ بے شمار محدثین وفقہا سے انہوں نے استفادہ کیا تھا،امام زہری سے کسب فیض اس وقت ایک امتیاز سمجھا جاتا تھا، اس سلسلہ میں بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ "معناہ انہ عرض"یعنی شیخ ماجشون نے ان سے سماعا نہیں ؛بلکہ عرضا استفادہ کیا،ابتدا میں کچھ علم کلام اور قدر کی طرف بھی میلان تھا۔ (تاریخ بغداد:۶/۴۲۶) حلقۂ درس تحصیل علم کے بعد مدینہ منورہ میں انہوں نے اپنا ایک الگ حلقہ درس قائم کیا (تہذیب التہذیب:۶/۳۴۳) اور غالباً ۱۴۸ھ تک وہ یہیں رہے اورپھر اس کے بعد بغداد منتقل ہوگئے،عبداللہ بن وہب کا بیان ہے کہ میں نے ۱۴۸ ھ میں حج کیا تو ایک منادی یہ اعلان کررہا تھا کہ: لایفتی الناس الامالک عبدالعزیز بن ابی سلمۃ (العبر فی خبر من غبر:۱/۲۴۴) امام مالکؒ اورعبدالعزیز بن ابی سلمہ کے علاوہ کوئی دوسرا فتویٰ نہ دے اس سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ وہ عمر کے آخری حصہ میں بغداد گئے۔ مدینہ منورہ میں ان کا درس غالباً فقہ تک محدود تھا، تحدیث روایت کرنے میں وہ احتیاط کرتے تھے، مگر بغداد پہنچ کر پھر اس کو مسند حدیث سنبھالنی پڑی،مدینہ منورہ میں اس وقت امام مالک کے علاوہ بھی متعدد شیوخ حدیث وفقہ موجود تھے، اس لیے انہوں نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی ؛بلکہ انہیں فقہ کے درس کی زیادہ ضرورت محسوس ہوئی،مگر عراق میں فقہ کا عام چرچا تھا، اس لیے غالباً ان کو مسند حدیث سنبھالنی پڑی۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ولم یکن من شانہ الحدیث فلما قدم بغداد کتبواعنہ فکان بعد یقول جعلنی اھل بغداد محدثاً (تہذیب التہذیب:۶/۳۴۴،وتاریخ بغداد:۱۰/۴۳۸) حدیث ان کا فن نہیں تھا،مگر جب بغداد آئے تو لوگوں نے ان سے (اہل مدینہ کی )روایتیں لکھنا شروع کردیں اس طرح ان کو حدیث کی روایت کرنی پڑی چنانچہ بعد میں خود کہتے تھے کہ مجھے اہل بغداد نے محدث بنادیا۔ ان کے تلامذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے کچھ ممتاز آئمہ فقہ حدیث کے نام یہ ہیں۔ عبدالرحمن بن مہدی،ابو نعیم،علی بن الجعد،یحییٰ بن بکیر، احمد بن یونس (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۰۱)زہیر بن معاویہ،لیث بن سعد،عبداللہ بن وہب،وکیعبن الجراح، ابوداؤد الطیالسی،عبداللہ بن صالح العجلی (تہذیب التہذیب:۶/۳۴۴)بشر بن المفضل،یزید بن ہارون،منصور بن سلمہ وغیرہ۔ (تاریخ بغداد:۱۰/۴۳۶) ان میں سے بالخصوص اما م ابو داؤد طیالسی نے متعدد جگہ اپنی کتاب میں ان سے روایتیں کی ہیں،ذیل میں کچھ روایتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ (۱)حضرت حمزہ کی شہادت کے واقعہ کو خود وحشی کی زبانی شیخ ماجشون ہی نے بیان کیا ہے،مسند ابن حنبل اورصحیح بخاری میں بھی یہ روایت تھوڑے اختلاف کے ساتھ موجود ہے۔ (مسند طیالسی:۴/۱۲۹) (۲)دوسری روایت مرغ کو گالی دینے کی ممانعت میں ہے اس کو شیخ امام عبدالعزیزنے دو واسطوں سے بیان کیا ہے دونوں واسطوں کے بیان کرنے کے بعد امام ابوداؤد دوسرے واسطے کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ "ھذا ثبت عندی،یعنی یہ واسطہ میرے نزدیک زیادہ قابل اعتماد ہے۔ (تذکرۃالحفاظ:۱/۲۰۱،والعبر فی خبر من غبر:۱/۲۴۴) علم وفضل کے بارے میں معاصرین کی رائے شیخ عبدالعزیز علم وفضل کے لحاظ سے طبقہ اتباع تابعین کے ممتاز لوگوں میں شمار ہوتے تھے،حافظ ذہبی نے انہیں علم کا امام اور مفتی وفقیہ لکھا ہے (تہذیب التہذیب:۶/۳۴۳)حافظ ابن حجر، الفقیہ اور احدالاعلام لکھتے ہیں (ایضاً) ابن ناصرین کہتے ہیں کہ ماجشون علمائے ربانیین اورفقہائے مصنفین میں سے ہیں۔ حدیث ان کی عمر کا پیشتر حصہ مدینہ منورہ میں گذرا جہاں قال اللہ وقال الرسول کی صدا سے ہر ہر گلی معمور تھی،بالخصوص امام مالک کا چشمۂ فیض یہیں سے جاری تھا، ان کے علاوہ ابن ابی ذئب اوردوسرے بہت سے محدثین اپنا اپنا حلقۂ درس حدیث قائم کیے ہوئے تھے،اس لیے جیسا کہ مذکور ہوا شیخ عبدالعزیز نے بھی اس فن سے حصہ وافر پایا، بعض محدثین نے ان پر قدرے جرح کی ہے،مگر امام ابوداؤد،نسائی ،ابوزرعہ اورابو حاتم ان کو صدوق اورثقہ لکھتے ہیں۔ ابن سعد کان ثقۃ کثیرالحدیث،یعنی ثقہ اورکثیرالحدیث تھے،لکھ کر،پھر کہتے ہیں کہ اہلِ عراق نے دوسرے اہلِ مدینہ کے مقابلہ میں ان سے زیادہ روایتیں کی ہیں،ابن معین انہیں لیث بن سعد اورابراہیم بن سعد کے برابر سمجھتے تھے۔ (تاریخ بغداد:۱۰/۴۳۸) فقہ میں ان کا مسلک شیخ عبدالعزیز کی اصل خصوصیت روایت فی الحدیث نہیں ؛بلکہ تفقہ فی الحدیث تھی؛چنانچہ ان کے تفقہ کا ذکر تمام اہل تذکرہ نے کیا ہے،حتیٰ کہ بعض نے تو انہیں تفقہ میں امام مالکؒ سے بھی بڑھا دیا ہے۔ (تہذیب التہذیب:۶/۳۴۳) اس کمال تفقہ کی وجہ سے مدینہ منورہ میں صرف دو ہی آدمیوں کو فتویٰ دینے کا حق تھا ،اوپر ذکر آچکا ہے کہ (غالباً حکومت کی طرف سے) یہ اعلان کرادیا گیا تھاکہ"ابن الماجشون اورامام مالک کے علاوہ کوئی فتویٰ نہ دے"۔ اپنے مسلک میں یہ اہل حرمین کے پابند تھے،حافظ ابن حجر عسقلانی رقمطراز ہیں: وکان فقیھا ورعاً متابعاً لمذھب اھل الحرمین وہ فقیہ اورمتقی تھے اوراہل حرمین کے مذہب کے تابع مہدی سے تعلقات جب وہ مدینہ منورہ سے بغداد گئے،تو وہاں مہدی سے راہ ورسم ہوگئی جو اس وقت شہزادہ تھا،مہدی کے اوپر شیخ عبدالعزیز کی فراست عقل کا بڑا اثر ہوا اور وہ ان پر بڑا اعتماد کرنے لگا؛چنانچہ ایک بار عباسی خلیفہ منصور حج کو جانے لگا تو مہدی دور تک اس کی مشایعت کو گیا،جب وہ رخصت ہونے لگا تو اس نے کہا بیٹے!میرے لیے حج میں اوردوسرے معاملات میں رہنمائی کرنے والا کوئی آدمی دے دو، مہدی نے کہا میں آپ کے ساتھ ایک نہایت عاقل وفرزانہ آدمی کو بھیجوں گا اوراس کے لیے اس نے عبدالعزیز بن ابی سلمہ الماجشون کا انتخاب کیا۔ (تاریخ بغداد:۶/۴۳۷) کان یصلح للوزارۃ(تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۰۱)وہ وزارت کی صلاحیت رکھتے تھے۔ شاعری شعر وشاعری سے بھی ذوق تھا،گو اسے پیشہ نہیں بنایا تھا مگر کبھی کبھی اس کا اظہار ہوجاتا تھا،ایک دفعہ ابن الماجشون مہدی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ مہدی نے پوچھا، آپ نے ان مرحوم دوستوں کے بارے میں بھی کچھ طبع آزمائی کی ہے،جو فقہائے روز گار تھے؟ابن الماجشون بولے ہاں! پھر یہ اشعار سُنائے: أيا باك على أحبابه جزعا قد كنت أحذر ذا من قبل أن يقعا إن الزمان رأى ألف السرور بنا فدب بالهجر فيما بيننا وسعى ما كان والله شؤم الدهر يتركني حتى يجرعني من غيظه جرعا وليصنع والدهر بي ما شاء مجتهدا فلا زيادة شيء فوق ما صنعا (ترجمہ)اے دوستوں کی موت پر بے تحاشا رونے والے میں بھی اس حادثہ کے نازل ہونے سے پہلے ڈرتا تھا،زمانہ نے جب یہ دیکھا کہ ہم سب احباب ایک جگہ ہونے کی وجہ سے باہم بہت مانوس ہیں تو اس نے ہجر کو ہمارے درمیان دوڑایا اوراس میں اس نے بڑی دوڑودھوپ کی،بخدا زمانہ کی بد نصیبیاں میرا پیچھا اس وقت تک نہیں چھوڑیں گی جب تک کہ وہ اپنے غیض و غضب کو خوب اچھی طرح مجھ کو نہیں پلادے گی،تو اب میں کہتا ہوں کہ اچھا ! زمانہ میرے ساتھ جو کچھ کرنا چاہتا تھا وہ کر گزرا ہے اس نے اس نے اب تک میرے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس پر کسی چیز کی کیا زیادتی ہوسکتی ہے۔ مہدی نے ان اشعار کو سن کر کہا بخدا! میں اب آپ کو مالدار بنادوں گا،چنانچہ اس نے انہیں دس ہزار دینار دیئے جانے کا حکم دیا،ابن الماجشون انہیں لے کر بغداد چلے آئے،لیکن انہوں نے اپنے والد کے اوصاف وخصائل دیکھ کر جو دو عطا کی جو خُو اپنے اندر پیدا کرلی تھی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے وہ سب دینار تقسیم کرکے خرچ کردئیے۔ زہد وورع علم وفضل کے ساتھ ان کے عملی کمالات بھی قابلِ ذکر ہیں، وہ نہایت متقی اور پرہیزگار تھے،احمد بن صالح کہتے ہیں "کان نزھًا صاحب سنۃ ثقۃ"علامہ ابن سعد انہیں ورع بتاتے ہیں۔ تصنیفات شیخ عبدالعزیز بن الماجشون صاحب تصنیف بھی تھے؛ لیکن افسوس ہے کہ ان کی تصنیفات کی کوئی تفصیل نہیں پائی جاتی ،خطیب بغدادی نے صرف اتنا لکھنے پر اکتفا کیا ہے کہ "لہ کتب مصنفۃ فی الاحکام"احکام میں ان کی چند کتابیں ہیں (تاریخ بغداد:۱۰/۴۳۹) اسی طرح حافظ ذہبی احمد بن کامل کا قول نقل کرتے ہیں کہ: لہ کتب مصنفۃ رواھا عنہ ابن وھب (تذکرۃ الحفاظ للذہبی:۱/۲۰۱) ان کی تصنیف کی ہوئی چند کتابیں بھی ہیں جن کو ابن وہب نے روایت کی ہے۔ وفات شیخ عبدالعزیز بن الماجشون کی وفات کے سلسلہ میں ان کے صاحبزادے ایک بہت ہی عجیب وغریب واقعہ نقل کرتے ہیں،یہاں اس کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا،فرماتے ہیں کہ "میرے والد کی روح جسم سے پرواز کرگئی،ہم سب نے انہیں غسل کے لیے ایک تخت پر لٹایا اتفاق کی بات غسل دینے والا جب غسل دے رہا تھاتو اس نے ان کے تلوے میں ایک رگ دیکھی جو پھڑک رہی تھی، اس نے یہ واقعہ لوگوں کے سامنے بیان کیا، سب کی یہ رائے ہوئی کہ اس وقت غسل دینا ملتوی کردیا جائے،دوسرے دن بھی جب غسل دینے کا اہتمام کیا گیا تو یہی صورت پیش آئی،غرض اسی طرح تین دن گزرگئے،اس کے بعد ابن الماجشون یکایک اٹھ کر بیٹھ گئے اور لوگوں سے ستو طلب کیا، ارشاد کی فوراً تعمیل کی گئی، جب ستو پی چکے تو لوگوں نے دریافت کیا، آپ پر ان تین دنوں میں جو کچھ واردات گزری ہے اس کی کچھ روداد ہم کو بھی سنائیے،انہوں نے بطیب خاطر اس درخواست کو قبول کیا اوریوں واقعہ بیان کیا: میری روح کو فرشتہ لے کر روانہ ہوا، اس نے آسمانِ دنیا کو عبور کیا، اوراسی طرح گزرتا ہوا ساتویں آسمان تک پہنچ گیا،وہاں اس فرشتہ سے پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے؟فرشتہ نے جواب دیا،ابن الماجشون، کہا گیا تو ابھی تو ان کی عمر میں اتنے برس،اتنے مہینے اوراتنے گھنٹے باقی ہیں تم ان کو ابھی کیوں لے آئے،اس کے بعد فرشتے نے لے کر نیچے اترنا شروع کیا یہاں تک کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا ان کے دائیں جانب حضرت ابوبکرؓ تھے اوربائیں جانب عمر فاروقؓ اورحضرت عمر بن عبدالعزیزؒ آپ کے سامنے تشریف رکھتے تھے۔ یہ دیکھ کر میں نے فرشتہ سے دریافت کیا کہ جو آنحضرتﷺ کے روبرو بیٹھے ہیں وہ کون ہیں ؟ جواب ملا، عمر بن عبدالعزیز ؒ میں نے کہا یہ تو سرورِ کونینﷺسے زیادہ قریب ہیں، فرشتہ نے کہا یہ وہ بزرگ ہیں جنہوں نے ظلم و جور کے زمانہ میں حق پر عمل کیا اورحضرت ابوبکرؓ وعمرؓ نے حق کے زمانہ میں حق پر عمل کیا۔ (شذرات الذہب:۱/۲۵۹) اس کے کچھ دنوں کےبعدبغدادمیں ۱۶۴ ھ میں علم وعمل کا یہ آفتاب غروب ہوگیا(تہذیب التہذیب:۶/۲۴۴ والعبر فی خبرمن غبر:۱/۲۴۴، وشذرات الذہب:۱/۲۵۹) ان کے جنازہ میں خلیفہ وقت مہدی خود شریک تھا اوراسی نے نماز جنازہ پڑھائی تھی ،قریش کے قبرستان میں دفن کیے گئے۔ (تاریخ بغداد:۱/۴۳۹) اولاد ابن ماجشون کے ایک نامور صاحبزادے عبدالملک کا ذکر تذکروں میں ملتا ہے حافظ ابن حجر اورابن خلکان نے ان کا مستقل تذکرہ لکھا ہے،ذیل میں مختصر تعارف درج کیا جاتا ہے۔ عبدالملک نام اورابو مروان کنیت تھی،یہ خانوادہ مدینہ میں آباد تھا اس لیے مدنی بھی ان کے نام کا جزوہوگیا۔ علم وفضل کے لحاظ سے ممتاز تھے،حدیث میں تو کسی بلند مقام کے مالک نہیں تھے ،مگر فقہ میں اپنے والد کے صحیح جانشین تھے، فقہ میں امام مالکؒ سے تلمذ رکھتے تھے اورانہیں کے مسلک کے پابند تھے،اسی بنا پر مالکی شمار کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ ابنِ خلکان لکھتے ہیں: تفقہ علیٰ الامام مالک (ابن خلکان:۱/۵۱۴) انہوں نے امام مالک سے تفقہ حاصل کیا۔ تفقہ کے ساتھ اعلیٰ درجہ کے فصیح وبلیغ تھے حتیٰ کہ ان کی فصاحت لسانی ضرب المثل تھی۔ حافظ ابن عبدالبر کا بیان ہے کہ: کان فقیھاً فصیحاً دارت علیہ الفتیا وعلی ابیہ قبلہ وھوفقیہ ابن الفقیہ (تہذیب التہذیب:۶/۴۰۸) وہ فقیہ اورفصیح اللسان تھے،ان کے عہد کے فتوے کا مدار انہی پر تھا اور ان سے پہلے ان کے والد پر تھا،وہ (بلاشبہ)فقیہ ابن فقیہ تھے۔ قاضی یحییٰ بن اکثم فرمایا کرتے تھے: عبدالملک ایک سمندر ہیں جس کو ڈول گندا نہیں کرسکتا۔ (تہذیب التہذیب:۶/۴۰۸) مصعب الزبیری کہتے تھے کہ،کان مفتی اھل المدینۃ فی زمانہ ،یعنی عبدالملک اپنے زمانہ میں مدینہ کے مفتی تھے۔ امام شافعیؒ سے مذاکرہ ہونے لگتا تو دونوں کی نکتہ رسی اورفصاحتِ لسانی کی وجہ سے دوسرے لوگ ان کی اکثر بحثیں سمجھ نہیں پاتے تھے،مؤرخ ابن خلکان نے اس کی وجہ یہ لکھی کہ: لان الشافعی تأدب بھذیل فی البادیۃ وعبدالملک تأدب فی خؤولتہ من کلیب بالبادیہ (ابن خلکان:۱/۵۱۴) اس لیے کہ امام شافعی نے دیہات میں قبیلہ ہذیل کے پاس زبان سیکھی تھی اورعبدالملک نے اپنے نانہال قبیلہ کلیب کے یہاں دیہات میں رہکر تربیت حاصل کی تھی۔ ان کے شاگرد احمد بن حنبل معدل کہتے ہیں کہ عبدالملک کی موت کے بعد جب یہ ذکر آتا کہ ان کی زبان کو مٹی کھا رہی ہے تو: صغرت الدنیا فی عین (تہذیب التہذیب:۶/۴۰۹) دنیا میری نظروں میں حقیر ہوجاتی تھی۔ ۲۱۴ھ یا بروایت ۲۱۲ھ میں ان کا انتقال ہوا۔