انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی اس کے بعد صلح کے تمام مدارج طے ہوگئے اورآنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیش گوئی بھی جو حضرت امام حسنؓ کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھی پوری ہوگئی کہ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اورخدا تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرادے گا، حضرت امام حسنؓ منبر سے اُترے تو امیر معاویہؓ نے بے ساختہ ان سے مخاطب ہوکر کہا کہ: ’’ابو محمد! آپ نے آج اس قسم کی جواں مردی اور بہادری دکھائی ہے کہ ایسی جونمردی اور بہادری آج تک کوئی بھی نہ دکھا سکا‘‘ یہ صلح ۴۱ ھ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت سے چھ ماہ بعد وقوع پذیر ہوئی اس لئے ۴۱ھ کو عام جماعت کے نام سے موسوم کیا گیا۔ بعد تکمیلِ صلح حضرت امیر معاویہؓ کوفہ سے دمشق کی جانب روانہ ہوئے اورجب تک حضرت امام حسنؓ زندہ رہے اُن کے ساتھ امیر معاویہؓ نے بڑی تکریم و تعظیم کا برتاؤ کیا اور برابر اُن کی خدمت میں حسب قرار داد صلح نامہ روپیہ بھیجتے رہے، امیر معاویہؓ کے کوفہ سے واپس چلے جانے کے بعد اہل کوفہ نے آپس میں یہ چرچا کرنا شروع کیا کہ صوبہ اہواز کا خراج تو ہمارا مالِ غنیمت ہے،ہم امام حسنؓ کو ہرگز نہ لینے دیں گے، حضرت امام حسنؓ نے سُن کر اہلِ کوفہ کو جمع کیا اور اُن کے سامنے تقریر کی کہ: ’’اے اہلِ عراق! میں تم سے بارہادر گذر کرچکا ہوں، تم نے میرے باپ کو شہید کیا،میرا گھر بار لوٹا،مجھے نیزہ مار کر زخمی کیا،تم دو قسم کے مقتولین کو یاد رکھتے ،ایک وہ لوگ جو صفین میں مقتول ہوئے،دوسرے وہ جو نہروان کے مقتولین کا معاوضہ طلب کررہے ہیں،معاویہؓ نے جو معاملہ تم سے کیا ہے اُس میں تمہاری کوئی عزت بھی نہیں اور انصاف بھی یہی ہے،پس اگر تم موت پرراضی ہو تو میں اس صلح کو فسخ کردوں اورتیغ تیز کے ذریعہ فیصلہ طلب کروں،اوراگر تم زندگی کو عزیز رکھتے ہو تو پھر میں اس صلح پر قائم رہوں۔‘‘ یہ سنتے ہی ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں کہ صلح قائم رکھئے،صلح قائم رکھئے، بات یہ تھی کہ حضرت امام حسنؓ اہلِ کوفہ کی کم ہمتی اور بیوقوفی سے خوب واقف تھے،انہوں نے صرف دھمکی سے اُن کو سیدھا کرنا مناسب سمجھا،حضرت امیر معاویہؓ اب بلا اختلاف عام عالم اسلام کے خلیفہ ہوگئے،حضرت سعد بن ابی وقاصؓ جو معاملاتِ ملکی سے قطع تعلق کرکے اونٹوں اوربکریوں کو چرانے اور گوشہ نشینی کے عالم میں مصروفِ عبادت رہتے تھے، انہوں نے بھی حضرت امیر معاویہؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی،غرض کوئی ایسا قابلِ تذکرہ شخص باقی نہ رہا جس نے جلد یا کچھ تامل کے بعد حضرت امیر معاویہؓ کو خلیفہ وقت تسلیم کرکے بیعت نہ کی ہو، بعد انعقاد صلح حضرت امام حسنؓ چند روز کوفہ میں رہے پھر کوفہ کی سکونت ترک کرنے معہ جملہ متعلقین مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوئے، اہلِ کوفہ تھوڑی دُور تک بطریق مشایعت ہمراہ آئے،مدینہ آکر پھر آپؓ نے کبھی کسی دوسری جگہ کی سکونت کا قصد نہیں فرمایا: