انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت بریدہ بن حصیبؓ نام ونسب بُرَیْدَہْ نام،ابوعبداللہ کنیت،نسب نامہ یہ ہے کہ بریدہ بن حصیب بن عبداللہ بن حارث بن اعرج بن سعد بن زراح بن عدی بن سہم بن مازن بن حارث بن سلامان بن اسلم اسلمی۔ اسلام بریدہؓ عین زمانہ ہجرت میں مشرف باسلام ہوئے، اسلام کے واقعہ یہ ہے کہ جب مرکز نبوت مکہ کے ستم کدہ سے مدینہ کے بیت الامن میں مدینہ میں منتقل ہونے لگا اورکوکب نبوی غمیم پہنچا تو یہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے،آپ نے اسلام پیش کیا، بریدہؓ نے بلا پس و پیش قبول کرلیا، ان کے ساتھ بنو اسلم کے اسی خانوادے حلقہ بگوشہ اسلام ہوئے،پھر کچھ دنوں قرآن کی تعلیم حاصل کرکے گھر لوٹ گئے۔ (ابن سعدجز ۴،ق۱:۱۷۸ ،واستیعاب:۱/۶۹) ہجرت اورغزوات بدرواحد کے معرکے ان کے وطن کے قیام کے زمانہ میں ختم ہوچکے تھے،غالباً۶ھ یا اس سے کچھ پہلے ہجرت کا شرف حاصل کیا،( ابن سعدجز ۴،ق۱:۱۷۸ ،واستیعاب:۱/۶۹)۷ھ میں غزوۂ خیبر پیش آیا، اس میں یہ پیش پیش تھے؛چنانچہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگوں نے خیبر کا محاصرہ کیا ،پہلے دن ابوبکرؓ نے علم لیا؛لیکن فتح نہ کرسکے دوسرے دن پھر یہی ہوا، لوگ بہت تھک چکے تھے ،آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ کل میں ایسے شخص کو علم دوں گا، جس کو اللہ اوراس کا رسول محبوب رکھتا ہے اور وہ بھی اللہ اوراس کے رسول سے محبت کرتا ہے وہ فتح کرکے لوٹے گا، لوگ بہت خوش ہوئے کہ کل یہ مہم سر ہوگی ،دوسرے دن صبح کو آنحضرتﷺ نے فجر کی نماز پڑھ کر علم منگوایا،لوگ اپنی اپنی صفوں میں تھے، پھر علی کو طلب فرمایا، ان کو آشوب چشم کی شکایت تھی ،آنحضرتﷺ نے لعاب دہن لگاکر علم مرحمت فرمایا اوران ہی کے ہاتھوں خیبر فتح ہوا۔ (مسند احمد بن حنبل:۵/۳۵۳) ۸ھ میں آنحضرتﷺ نے مکہ پر چڑھائی کی،اس میں بھی یہ ہمرکاب تھے ؛چنانچہ بیان کرتے تھے کہ فتح کے دن آنحضرتﷺ نے کئی نمازیں ایک وضو سے پڑھیں۔ (مسند احمد بن حنبل:۵/۳۵۰) فتح مکہ کے بعد آنحضرتﷺ نے حضرت خالدؓ کی ماتحتی میں جو سریہ یمن بھیجا تھا،بریدہؓ بھی اس میں ساتھ تھے،بعد کو پھر اسی مقام پر حضرت علیؓ کی ماتحتی میں مسلمانوں کی ایک جماعت بھیجی گئی اورپوری فوج کی امارت حضرت علی ؓکو تفویض ہوئی، جنگ کے بعد انہوں نے مال غنیمت میں سے ایک لونڈی خمس میں اپنے لیے مخصوص کرلی،حضرت بریدہؓ کو یہ بات پسندنہ آئی،انہوں نے لوٹ کر یہ واقعہ آنحضرتﷺ سے بیان کیا، آپ نے سن کر فرمایا، بریدہؓ کیا تم کو علیؓ سے کینہ ہے، انہوں نے صفائی سے اس کا اقرار کیا، فرمایا ان سے کینہ نہ رکھو، ان کو خمس میں سے اس سے زیادہ کا حق ہے،(صحیح بخاری،جلد۲ باب بعث علی الی الیمن ومسند احمد بن حنبل:۵/۳۵۰) حضرت بریدہؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت کی زبان مبارک سے یہ لفظ سن کر میری ساری شکایت حضرت علیؓ سے جاتی رہی اور ان سے اتنی محبت ہوگئی جو کسی دوسرے سے نہیں تھی۔ (صحیح بخاری،جلد۲ باب بعث علی الی الیمن ومسند احمد بن حنبل:۵/۳۵۰) آنحضرتﷺ کی زندگی میں جس قدر غزوات بھی ہوئے،بریدہؓ تقریباً سب میں شریک تھے،ان کے غزوات کی مجموعی تعداد سولہ ہے،(بخاری کتاب المغازی باب کم غزالنبی ﷺ ) آنحضرتﷺ نے اپنے مرض الموت میں اسامہؓ کی زیر سرکردگی جو سریہ شام بھیجا تھا، اس میں بھی یہ شریک اورسریہ کے علمبردار تھے۔ (طبقات ابن سعد،حصہ مغازی:۱۳۶) آنحضرتﷺ کی زندگی بھر دیارحبیب میں رہے،آپ کی وفات کے بعد جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بصرہ آباد ہوا تو دوسرے صحابہ کے ساتھ یہاں منتقل ہوگئے اور یہیں مستقل گھر بنالیا۔ (ابن سعد،جلد۴،ق۱،تذکرہ بریدہؓ بن حصیب) ان کی رگ رگ میں جہاد کا خون دوڑتا تھا،لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ زندگی کا مزہ گھوڑے کدانے میں ہے،(ایضا:۱۷۹) اسی جذب وولولہ کی بنا پر خلفاء کے زمانہ میں بھی مجاہدانہ شریک ہوتے تھے،حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت میں خراسان پر فوج کشی ہوئی، اس میں آپ کی تلوار نے اپنے جوہر دکھائے۔ مگر مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کی تلوار ہمیشہ نیام میں رہی،چنانچہ شیخین کے بعد جس قدر خانہ جنگیاں ہوئیں ان میں سے کسی میں شریک نہیں ہوئے؛بلکہ شدت احتیاط کی بنا پر ان لوگوں کے بارہ میں جو اس میں شریک تھے کوئی رائے بھی نہ قائم کرتے تھے، ایک شخص نے حضرت علیؓ،عثمانؓ،طلحہؓ اورزبیر کے بارہ میں ان کی رائے معلوم کرنے کے لیے ان کے سامنے ان بزرگوں کا تذکرہ کیا، بریدہؓ فوراً قبلہ رو ہوکر دست بدعا ہوگئے کہ خدایا علیؓ کی مغفرت فرما،عثمانؓ کی مغفرت فرما اورزبیرؓ کی مغفرت فرما، پھر اس شخص سے مخاطب ہوکر کہا کہ تو مجھ کو میرا قاتل معلوم ہوتا ہے،اس نے کہا حاشا میں قاتل کیوں ہونے لگا، اس استفسار سے میرا یہ مقصد تھا، فرمایا ان لوگوں کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اگر وہ چاہے گا تو ان کی نیکیوں کے بدلہ میں بخش دے گا اوراگر چاہے گا تو ان کی غلطیوں کی سزا میں عذاب دے گا۔ (طبقات ابن سعد،جز۴،ق۱:۱۷۶) وفات یزید کے عہد حکومت میں ۶۳ھ میں وفات پائی،دولڑکے یادگار چھوڑے عبداللہ اور سلیمان۔ فضل وکمال فضل وکمال کے اعتبار سے بھی عام صحابہ کی جماعت میں ممتاز ہیں ،احادیث نبوی کی کافی تعداد ان کے حافظہ میں محفوظ تھی، ان کی مرویات کا شمار ۱۶۴ حدیثوں تک پہنچتا ہے،اس میں ایک متفق علیہ ہے اور ۲ میں بخاری اور ۱۱ میں مسلم منفرد ہیں،(تہذیب الکمال:۴۷) ان کی مرویات تمامتربراہ راست زبان نبوت سے منقول ہیں، ان کے تلامذہ میں ان کے صاحبزادہ عبداللہ اور سلیمان اوردوسرے لوگوں میں عبداللہ بن عوس خزاعی ،شعبی اورملیح بن اسامہ قابل ذکر ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۱/۴۳۳) عام حالات حضرت بریدہؓ کو بارگاہ نبویﷺ میں پذیرائی حاصل تھی،حضورﷺ انور ان سے بے تکلفانہ ملتے تھے،کبھی کبھی آنحضرتﷺ ان کے ہاتھ میں ہاتھ دیے ہوئے نکلتے تھے،ایک مرتبہ یہ کسی ضرورت سے کہیں جارہے تھے،راستہ میں آنحضرتﷺ سے ملاقات ہوگئی ،آپ نے ان کا ہاتھ پکڑلیا اورآگے بڑھے۔ (مسند احمدبن حنبل:۵/۳۵۰) حق گوئی حق گوئی ان کا خاص وصف تھا اور وہ بڑی سے بڑی شخصیت کے مقابلہ میں بھی کلمہ حق کے اظہار سے باز نہ رہتے تھے،ایک مرتبہ امیر معاویہؓ کے پاس گئے،ایک شخص بیٹھا ہوا ان سے باتیں کررہا تھا، بریدہؓ نے کہا میں بھی کچھ کہہ سکتا ہوں، معاویہؓ سمجھے یہ بھی پہلے شخص کی طرح مجھے سراہیں گے، کہا شوق سے ،فرمایا :میں نے آنحضرتﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مجھ کو امید ہے کہ قیامت کے دن میں روئے زمین کے کنکر، پتھر اور درختوں کی تعداد کے برابر لوگوں کی شفاعت کروں گا، معاویہ !کیا اس عام شفاعت کے تم مستحق ہو اور علی نہیں ہیں (ایضا:۳۴۷) (غالباً پہلا شخص حضرت علیؓ کی مذمت کررہا تھا اور معاویہ بریدہؓ کی زبان سے بھی یہی سننا چاہتے تھے) فرمان نبوی پر عمل آنحضرتﷺ کی زبان مبارک سے ایک مرتبہ جو سن لیا، وہ حرزجان بن گیا، ایک مرتبہ آنحضرتﷺ کے پاس بیٹھے تھے، آپ نے فرمایا کہ میری امت کو ڈھال کی طرح چوڑے چوڑے اورچھوٹی آنکھ والی قوم تین مرتبہ ہنکائے گی؛ یہاں تک کہ اس کو ہنکاتے ہنکاتے جزیرۃ العرب کے اندر محدود کردے گی، اس کے پہلے ہلہ میں جو لوگ بھاگ جائیں گے، وہ بچ جائیں گے،دوسرے ہلہ میں بعض بچیں گے اور بعض ہلاک ہوجائیں گے، تیسرے ہلہ میں سب کے سب اس آگ میں پڑ جائیں گے ،لوگوں نے پوچھا یا نبی اللہﷺ وہ کون ہیں؟ فرمایا ترک،پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ لوگ اپنے گھوڑوں کو مسلمانوں کی مسجدوں کے ستونوں سے باندھیں گے، اس ہولناک پیشین گوئی کے بعد بریدہؓ ہمیشہ دو تین اونٹ زادسفر اورپانی پینے کا برتن ساتھ رکھتے تھے کہ جیسے ہی یہ وقت آئے فوراً اس عذاب سے بھاگ نکلیں۔ (مسند احمد بن حنبل:۵/۳۴۹)