انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت مسطح بنؓ اثاثہ نام ونسب عوف نام، ابو عباد کنیت،سلسلۂ نسب یہ ہے،مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب ابن عبدمناف بن قصی قرشی مطلبی ،عوف حضرت ابوبکرؓ کے خالہ زاد بھائی تھے۔ (اسد الغابہ:۴/۳۵۴) اسلام وغزوات مسطح بہت ابتداء میں مشرف باسلام ہوئے،البتہ ہجرت کا وقت متعین نہیں ہے؛لیکن بدر کے قبل ہجرت کرکے مدینہ آچکے تھے اوربدرمیں شریک تھے،بدر کے بعد اورغزوات میں بھی ان کی شرکت کا پتہ چلتا ہے،چنانچہ غزوۂ بنو مصطلق جس میں افک کا واقعہ پیش آیا، یہ شریک تھے اوراس فتنہ میں ان کا دامن بھی محفوظ نہ رہ سکا ،جب منافقین نے یہ واقعہ مشہور کیا تو بعض صحابہ بھی ان کے دام فریب میں آگئے، ان میں ایک مسطح بھی تھے جنگ سے واپسی کے بعد انہوں نے یہ واقعہ اپنی ماں سے بیان کیا، وہ حضرت عائشہ کے پاس گئیں اور کسی بات پر مسطح کو بددعادی،حضرت عائشہؓ نے کہا تم بدر ی صحابی کو بددعا دیتی ہو، انہوں نے کہا تم کو نہیں معلوم ان لوگوں نے کیا افترا پردازیاں کی ہیں اورپورا واقعہ حضرت عائشہؓ کو سنایا، حضرت عائشہ کو اس افترا پردازی کا سب سے پہلے ان ہی کے ذریعہ سے علم ہوا، مسطح حضرت ابوبکرؓ کے خالہ زاد بھائی تھے، اس لیے وہ ان سے مسلوک ہوتے رہتے تھے، جب انہوں نے افک کے واقعہ میں شرکت کی اور قرآن پاک نے اس کو افتراقراردیا تو حضرت ابوبکرؓ نے ان کی امداد کرنا بند کردی اورفرمایا کہ اب مسطح پر ایک حبہ نہیں خرچ کروں گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی: وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (النور:۲۲) تم میں سے جولوگ صاحبِ فضیلت اورصاحب مقدرت ہیں وہ قرابت والوں محتاجوں اورمہاجرین فی سبیل اللہ کو امدد نہ دینے کی قسم نہ کھائیں اور چاہیے کہ معاف کردیں اور درگذر کریں، مسلمانوکیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہاری مدد کرے اوراللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اس آیت کے نزول کے بعد، پھر حضرت ابوبکرؓ صدیق بدستوران کی خبر گیری کرنے لگے،(بخاری:۱/۲۶۴،۲۶۵) لیکن چونکہ ایک محصنہ پر تہمت لگائی تھی اوراس کی سزا قرآن نے یہ تجویز کی تھی۔ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً (النور:۴) یعنی جولوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں اورچارگواہ نہ لاسکیں تو ان کو اسی کوڑے لگاؤ۔ اس لیے دوسرے لوگوں کے ساتھ ان پر بھی حد جاری ہوئی۔ (اسدالغابہ:۴/۲۵۵) وفات زمانۂ وفات میں اختلاف ہے،بعض روایتوں سے ۳۴ھ عہدعثمانی میں وفات ثابت ہوتی ہے اوربعض سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علیؓ کے عہد تک زندہ تھے اور جنگ صفین میں ان کی حمایت میں لڑے اوراسی سال ۳۷ھ میں انتقال فرمایا ،وفات کے وقت ۵۶ سال کی عمر تھی، (اسد الغابہ:۴/۲۵۵) آخری روایت زیادہ مستند ہے۔