انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فتح مصر وشام اوپر کسی باب میں ذکر آچکا ہے کہ خاندان ایوبیہ کے ساتویں بادشاہ ملک الصالح نے مصر میں مملوکی فوج قائم کی تھی، جس کو غلاموں کی فوج کہنا چاہئے، بہت جلد ان غلاموں نے مصر کے تخت پر قبضہ کرلیا،اسی زمانہ کے قریب ہندوستان میں بھی غلاموں کا خاندان فرماں روا تھا،لیکن یہاں ہندوستان میں غلاموں کے خاندان کے صرف دو بادشاہ غلام تھے باقی انہیں غلاموں کی اولاد نسلاً بعد نسل تخت نشین ہوتا رہا،مصر میں اس کے خلاف یہ دستور قائم ہوا تھا کہ ایک فرماں روا کے فوت ہونے پر غلاموں ہی میں سے کسی کو منتخب کرکے تختِ حکومت پر بٹھا یا جائے مصر کے یہ غلام بادشاہ مملوکی کہلاتے تھے، سلطان سلیم کے زمانہ تک ان کی سلطنت مصر میں قائم تھی اور انہیں سلاطین مصر کی حفاظت میں عباسی خلفا مصر کے اندر رہتے تھے،مصر کی مملوکی سلطنت بھی بڑی معزز اورشاندار سلطنت تھی،ان مملوکیوں نے عالم اسلام کی دو سب سے بڑی اور اہم خدمات انجام دی تھیں،ایک تو انہوں نے فلسطین وشام کو اسلام کے حملوں سے بچایا اورہمیشہ کے لئے صلیبی چڑھائیوں کا استیصال کردیا،دوسرے انہوں نے مغلوں کے سیلاب عظیم کو آگے بڑھنے سے روک دیا اور چنگیز وہلاکو وغیرہ کی فوجوں کو شکست دے دے کر بھگادیا عجیب بات ہے کہ ان فتح مند مغلوں نے مصر کے غلاموں یعنی مملوکیوں سے جس طرح شکست کھائی اسی طرح ہندوستان کے غلام خاندان سے انہوں نے ہمیشہ نیچا دیکھا گویا ان کی قسمت میں یہی لکھا تھا کہ وہ مسلمانوں کے معزز ترین اوراعلیٰ خاندانوں کو برباد کردیں لیکن جب مسلمانوں کے غلاموں سے معرکہ آرا ہوں تو شکست کھا کر بھاگیں۔ بہرحال مصر کی مملوکی سلطنت مصر و شام و حجاز پر حکمراں اورقدیم سے سلاطین عثمانیہ کے ساتھ کوئی پر خاش نہیں رکھتی تھی،سلطان فاتح کی وفات کے بعد جب سلطان بایزید ثانی تخت نشین ہوا اور شہزادہ جمشید شکست کھا کر مصر پہنچا تو دربار قاہرہ کے تعلقات دربارِ قسطنطنیہ کے ساتھ پہلی مرتبہ کشیدہ ہوئے اور جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے جنگ وپیکار تک نوبت پہنی اس موقعہ پر سلطنتِ عثمانیہ کو مملوکیوں سے نیچے دیکھنا اور نقصان اٹھانا پڑا تھا جس کا ذکر اوپر آچکا ہے،اب سلطان سلیم کے تخت نشین ہونے کے بعد مصل دوسری سلطنتوں کے مملوکی بھی اس نئے سلطان کی حرکات کو بغور دیکھ رہے تھے،انہوں نے جب اسمعیل صفوی کی شکست اورسلیم کی فتوحات کا حال سنا تو ان کو یہ فکر ہوئی کہ سلیم اب ہم سے چھیڑ چھاڑ کئے بگیر نہ رہے گا، اس لئے کہ دیار وغیرہ صوبے جو سلطنت عثمانیہ میں شامل ہوچکے تھے انہوں نے مملوکیوں کے مقبوضہ ملک یعنی شام کو سلطنت عثمانیہ سے اور بھی قریب کردیا تھا،ان کو یہ بھی محسوس ہوچکا تھا کہ سلطان سلیم ضرور ان شہروں اورقلعوں کے واپس لینے کی کوشش کرے گا جو مملوکیوں نے سلطان بایزید ثانی سے چھین لئے تھے،اُدھر شاہ اسمعیل صفوی نے سلطان سلیم سے شکست فاش کھانے کے بعد اپنے ایلیچی مصر کے سلطان قالضو غازی کے پاس بھیجے اورعہد نامہ صلح قائم کرنا چاہا،مملوکی امیر کو اسمعیل صفوی کے سفیر کی مدارات کرنے اور معاہدہ صلح کے قائم کرنے میں کوئی تامل نہ ہوا، اسمعیل کے سفیر نے قالضو غازی کو اور بھی زیادہ ان خطرات کی طرف توجہ دلائی جو سلطان سلیم سے سلطنت مصر کے لئےپیدا ہوسکتے تھے ان مذکورہ وجاہات سے یا اور کسی سبب سے یہ ضرور ہوا کہ امیر کبیر قالضوہ نمازی سلطان مصر خود شہر حلب میں آکر مقیم ہوا اور اس نے سرحد شام پر مناسب فوجیں فراہم و متعین کردیں جس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا تھا کہ سلطان سلیم ملک شام پر حملہ نہ کردے اوریہ بھی ہوسکتا تھا کہ موقع پاکر مملوکی سلطنت خود ایشیائے کوچک کے مشرقی حصے پر حملہ آور ہو، بہر حال سلطان سلیم کا غالباً یہ خیال نہ تھا کہ وہ مملوکی سلطنت پر حملہ کرے کیونکہ مملوکی بہت پابند شرع اورسلطان سلیم کے ہم عقیدہ وہم مذہب تھے مگر اسمعیل صفوی کی خفیہ تدابیر نے اس جگہ بخوبی کامیابی حاصل کی اورمملوکی بے چارے شاہ ایران کی چالاکی کے فریب میں آکر یا ناحق مارے گئے۔ سلطان سلیم ایران کی طرف سے واپس آکر قسطنطنیہ میں مقیم اور اندرونی انتظامات میں مصروف تھا،اب اس کے لئے سوائے مغربی حدود اورعیسائی سلطنتوں کے اور کوئی چیز جاذب توجہ نہ تھی، اس کے باپ دادا کئی پشتوں سے یوروپ کے عیسائیوں سے دست وگریباں چلے آتے تھے سلیم کے لئے سوائے یورپی ممالک کے اورکوئی علاقہ اب ایسا نہ تھا کہ وہ اس کا لالچ کرتا،۹۲۲ھ میں اس کے پاس یکا یک اس کے گورنر سنان پاشا کی ایک تحریر پہنچی سنان پاشا ایشیائے کوچک کے مغربی حصہ کا حاکم و سپہ سالار تھا) کہ میں آپ کے حکم کی تعمیل میں وادیٔ فرات کی جانب فوج لے جانے سے اس لئے قاصر ہوں کہ سرحدِ شام پرمملوکی فوجیں موجود ہیں اور مجھ کو اندیشہ ہے کہ میرے یہاں سے غیر حاضر ہوتےہی وہ شاید ایشیائے کوچک کے مشرقی حصہ پر حملہ آور ہوجائیں،اس تحریر کو پڑھ کر سلطان سلیم نے قسطنطنیہ میں اپنے تمام سرداروں،عالموں اور وزیروں کو جمع کرکے ایک مجلس مشورت منعقد کی اوران سے پوچھا کہ ہم کو مملوکیوں کے ساتھ کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے،اس مسئلہ پر دیر تک گفتگو ہوتی رہی،آخر اس کے میر منشی محمد پاشا نے ایکپر جوش اور زبردست تقریر میں بیان کیا کہ سلطان عثمانی کو ضرور اپنی طاقت کا اظہار کرنا چاہئے اور حقیقت یہ ہے کہ مملوکی سلطان عثمانی کے سامنے ہرگز اس بات کے مستحق نہیں ہیں کہ وہ حرمین شریفین کے خادم ہوں اورملک حجاز کو اپنے قبضہ میں رکھیں،سلطان عثمانی کو یہ شرف ضرور حاصل کرلینا چاہئے اوراس کا حاصل کرنا عین خدمتِ اسلامی ہے اوراس کے لئے مملوکیوں سے لڑنا بالکل جائز اورمناسب ہے؛چنانچہ سلطان نے اس رائے کو بہت ہی پسند کیا اوراپنے میر منشی کو اسی وقت وزیر اعظم بنادیا۔ سلطان سلیم نے مصر کی سلطنت مملوکیہ سے جنگ کا مصمم ارادہ کرکے اول ایک سفارت میرقالضوغازی کے پاس روانہ کی اورپیغام بھیجا کہ تم ہماری اطاعت و فرماں برداری قبول کے اظہار اطاعت کے لئے خراج گذاری قبول کردو ورنہ ہم فوج کشی کر کے تم سے ملک چھین لیں گے،سلطان کے سفیر جب حلب میں قالضو غازی کے پاس پہنچے تو وہ بہت برافروختہ ہوا اورسفیروں کو قید کرلیا بس اتنا بہانہ فوج کشی کے لئے کافی تھا، سلطان فوراً قسطنطنیہ سے فوج لے کر روانہ ہوا،جب عثمانیہ لشکر قریب پہنچا تو مملوکی سلطان گھبرایا اوراس نے مصلحت مصالحت میں ہی دیکھی بچہ عثمانی سفیروں کو آزاد کرکے ان کے ہاتھ صلح کا پیغام بھیجا مگر اب یہ کوشش بے سود تھی سلطان سلیم برابر بڑھتا چلا گیا،حلب کے قریب میدان مرج وابق میں جہاں حضرت داؤد علیہ السلام کی قبر ہے،دونوں فوجیں جنگ خالدران سے پورے دو سال بعد ۲۴،اگسٹ ۱۴۱۶ء مطابق ۹۲۲ھ کو ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہوئیں،ملوکی اپنی شجاعت اوربہادری میں ہرگز عثمانیوں سے کم نہ تھے،ان کی بہادری کی عام طورپر ہر ملک کے مورخین نے تعریف کی ہے،لیکن اس زمانے میں ان کے اندر آپس کے اختلافات پیدا ہوکے تھے،اور اندرونی رقابتوں نے ان کی مشہور و مسلم بہادری کے اظہار کا موقعہ ضائع کردیا تھا؛چنانچہ سلطان سلیم کی کثیر التعداد فوج کے مقابلہ میں مملوکی لشکر پر آثار ہزیمت نمایاں ہوئے اور مملوکی سلطان جو بہت بوڑھا شخص تھا نہایت جرأت وہمت کےس اتھ لڑتا ہوا میدان جنگ میں مارا گیا مملوکی سلطان کے مارے جانے کی خبر جب مملوکی کے لشکر میں مشہور ہوئی توان کے پاؤں اکھڑ گئے اورسلطان سلیم آگے بڑھ کر حلب پر قابض ہوگیا۔ اس شکست سے مملوکیوں کی ہمت مطلق پست نہیں ہوئی کیونکہ وہ عثمانیوں کو اپنی برابر بہادر نہیں جانتے تھے،قالضوغازی کے مارے جانے پر تمام سردارانِ لشکر قاہرہ کی طرف اس لئے چلے گئے کہ وہاں جدید مسلطان کاانتخاب کریں ،مملوکیوں میں چو بیس سردار اعلیٰ درجہ کے ہوا کرتے تھے جو اس بات کا حق رکھتے تھے کہ ایک سلطان کے فوت ہونے پر اتفاق رائے سے کسی شخص کو اپنا سلطان منتخب کریں اور چوبیس سرداروں کا ایسے انتخاب کے موقعہ پر داراسلطنت سے قاہرہ میں موجود ہونا ضروری تھا،لہذا مملوکیوں کے ایسے بڑے بڑے تمام سرداروں کو فوراً قاہرہ کی طرف جانا ضروری ہوگیا کہ جلد از جلد نیا سلطان منتخب ہوسکے،بڑے بڑے سرداروں کی غیر موجودگی میں شام کا ملک سلطان سلیم کے لئے خو د بخود خالی تھا، لہذا اُس کو اس فرصت میں شام کے شہروں پر قبضہ کرنے ک ا خوب موقعہ مل گیا اوردمشق وبیت المقدس وغیرہ سب سلطان کے قبضے میں آگئے، جنگ حلب کے بعد کوئی بڑی مزاحمت مملوکیوں کی طرف سے ملک شام میں نہ ہوسکی۔ ادھر قاہرہ میں مملوکیوں نے طومان بے کو اپنا سلطان منتخب کیا اس نے سلطان منتخب ہوتے ہی ایک زبردست فوج مصر و شام کے سرحدی مقام قلعہ غزا کی طرف بھیج دی کہ سلیم کو مصر کی طرف پیش قدمی کرنے سے روکے اورخود قاہرہ کے قریب تمام افواج کو فراہم کرنے میں مصروف ہوا، اس فرصت میں سلطان سلیم کی خوش قسمتی کا دمشق وشام میں یہ اظہار ہوا کہ مصر سلطنت کا ایک بہت بڑا خزانہ جو شہر دمشق میں جمع تھا سلطان کے ہاتھ آگیا ،بڑے بڑےشہروں سے جو مالِ غنیمت سلطان کے ہاتھ آیا تھا اس کے علاوہ صرف دمشق کے اس خزانہ میں ستر لاکھ روپیہ سے زیادہ موجود تھا،یہ خزانہ سلطان کی آئندہ فتوحات کے لئے بہت مفید ثابت ہوا اورسلطان نے اس سے فائدہ اٹھانے اوراس کے صحیح استعمال کرنے میں کسی بخل وکنجوسی کو مطلق دخل نہیں دیا،اہل شام کے قلوب کو اپنی طرف مائل کرنے کی سلطان نے بہت ہی باموقع کوشش کی اور عالموں،خطیبوں،درویشوں ارقاضیوں کو انعام واکرام سے مالا مال کردیا،مساجد،مدارس ،ُل اور رفاہِ رعایا کے لئے بڑی بڑی رقمیں عطا کیں اورمصر پر حملہ آور ہونے کے لئے بار برداری کے اونٹ اورہر قسم کا ضروری سامان فراہم کرلیا، مصریوں کی فوج شہر غازہ پر جو مصر کی سرحد سمجھا جاتا تھا آگئی،ادھر سلطان سلیم اپنی فوج کو لئے ہوئے شام کے آباد اورسر سبرز مقامات سے گزرتا ہوا جب ریگستان میں داخل ہونے لگا تو بڑی احتیاط اور دور اندیشی کے ساتھ اونٹوں پر پانی لاد کر ساتھ لیا اورسپاہیوں کو انعام تقسیم کرکے ان کا دل بڑھایا،شان پاشاہ کو توپ خانہ دے کر ایک زبردست حصہ فوج کا سیاہ سالار بنایا اوربطور ہر اول آگے روانہ کیا اورخود بقیہ تمام فوج لے کر بڑے اہتمام و انتظام کے ساتھ روانہ ہوا،یہ ریگستان کا سفر دس روز کا تھا جو بحسن وخوبی طے ہوا،سنان پاشا نے مقام غزہ میں پہنچ کر سرسری فوج کا جو سپہ سالار غزالی کے ماتحت صف آرا تھی مقابلہ کیا، مملوکی لشکر بڑی بے جگری اوربہادری کے ساتھ حملہ آور ہوا مگر سنان پاشا نے اپنی توپوں کو میدان میں جما کر ایسی سخت گولہ باری کی اوراس طرح توپوں میں گراپ بھر بھر کر چلایا کہ مصری لشکر عثمانی لشکر تک پہنچنے سے پہلے ہی میدان میں بھون ڈالا گیا، مملوکی توپوں کے استعمال سے ناواقف اوراپنے پاس کوئی توپ خانہ نہ رکھتے تھے،اس طرح جب کہ بارود کی طاقت جواں مردوں کے قلب کی طاقت یعنی بہادری پر غالب آگئی اورمیدان عثمانیہ لشکر کے ہاتھ آیا تو ان کے دل بہت بڑھ گئے اور مملوکیوں کی جو ہیبت عثمانیہ لشکر پر چھا ئی ہوئی تھی یک لخت دور ہوگئی۔