انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** پہلی عیدالفطر(شوال۲ہجری) رمضان کے ختم ہونے میں صرف دو دن باقی تھے کہ صدقۂ فطر اور نماز عید کا حکم نازل ہوا، سورۂ اعلیٰ کی آیت ۱۴ ، ۱۵ نازل ہوئی: " بے شک اُس نے فلاح پالی جو پاک ہو گیا ، اور جس نے اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھتا رہا " ( سورہ اعلیٰ : ۱۴، ۱۵ ) اس آیت کی تفسیر میں حضرت عمر بن عبدالعزیز اور ابو العالیہ کا بیان ہے کہ اس کا مطلب صدقۂ فطر اور صلوٰۃ عید ہے، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: عید کے دن کوئی روزہ نہ رکھے بلکہ کھائے پئے اور خوشیاں منائے ،عید کی نماز کے لئے آپﷺ عید گاہ تشریف لے جاتے ، زادالمعاد کے مطابق مدینہ کے مشرقی حصہ کی طرف عید گاہ تھی، آپﷺ عید گاہ ایک راستہ سے تشریف لے جاتے اور دوسرے راستہ سے واپس ہوتے ، اس سے جلوس کی شکل ہو جاتی اور غیر مسلموں پر رعب طاری ہوتا، ایک سال جب تیز بارش ہو رہی تھی آپﷺ نے عید کی نماز مسجد نبوی میں پڑھائی۔ حضور ﷺ کا معمول تھا کہ عید کے روز غسل فرماتے اور عمدہ لباس زیب تن فرماتے، سرخ یا سبز یا سرخ دھاری دار ایرانی چادر اوڑھتے ، عید گاہ جاتے وقت حضرت بلالؓ آپ ﷺ کے آگے آگے نجاشی کاروانہ کردہ نیزہ لئے ہوئے چلتے ، عید گاہ پہنچ کر قبلہ کی جانب بطور ستر گاڑ دیتے، پا پیادہ عید گاہ جاتے ، عیدالفطر کی نماز میں تاخیر فرماتے ، اس میں کوئی اذان یا اقامت نہ ہوتی ، نماز کے بعد کھڑے ہو کر لوگوں کی طرف منہ کر کے خطبہ دیتے ، تھوڑی دیر بیٹھ کر ؛ دوسرا خطبہ ارشاد فرماتے ، منبر نہ ہوتا، زمین پر کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے اور نمازیوں کو صدقہ و خیرات کی تاکید فرماتے ، صدقۂ فطر نماز سے پہلے ادا کرنے کا حکم دیا۔