انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت معقل ؓبن یسار نام ونسب معقل نام، ابو عبداللہ کنیت، نسب نامہ یہ ہے،معقل بن یسار بن عبداللہ بن صغیر بن حراق بن لای بن کعب بن عبد بن ثور بن ہدمہ بن لاطم بن عثمان بن عمرو بن اوبن طانجہ بن الیاس بن مضر اسلام اور صلح حدیبیہ میں شرکت معقل صلح حدیبیہ کے قبل مشرف باسلام ہوئے، صلح حدیبیہ میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب تھے اورجس وقت آپ لوگوں سے موت پر بیعت (بیعت رضوان) لے رہے تھے اس وقت معقل ایک شاخ سے آپ کے اوپر سایہ کئے ہوئے کھڑے تھے۔ (مسند احمد بن حنبل:۵/۲۵) عہد قضا آنحضرتﷺ نے ان کو قبیلہ مزنیہ کا قاضی بنانا چاہا،انہوں نے معذرت کی کہ مجھ میں اس ذمہ داری کو سنبھالنے کی اہلیت نہیں ہے، آپ نے دوبارہ فرمایا نہیں تم ان کے فیصلے کیا کرو، انہوں نے پھر معذرت کی کہ میں اچھی طرح فیصلہ نہیں کرسکتا،تیسری مرتبہ پھر آپ نے باصرار فرمایانہیں تم فیصلہ کرو ،خدا قاضی کے ساتھ اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ عمداً ظلم و ناانصافی نہیں کرتا۔ (مستدرک حاکم:۳/۵۷۷) عہد فاروقی معقل کی قوت فیصلہ کی وجہ سے حضرت عمرؓ انہیں بہت مانتے تھے،مہما ت امور میں ان سے مشورہ کرتے اوربڑی بڑی خدمتیں ان کے سپرد کرتے،عراق کی فوج کشی کے سلسلہ میں ۲۰ ھ میں جب یزد گرد نے مروان شاہ کو ایک لشکر جرار کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے بھیجا، تو حضرت عمرؓ نے اکابر صحابہ سے مشورہ لیا،اس مشورہ میں معقل بھی تھے (اصابہ:۶/۱۲۶) اسی زمانہ میں حضرت عمرؓ نے ابو موسیٰ اشعریؓ کو بصرہ میں ایک نہر کھدوانے کا حکم دیا، اورفرمایا تیاری کے بعد معقل کے ہاتھوں سے اس میں پانی جاری کرایا جائے(فتوح البلدان:۳۶۶) امیر معاویہ کے زمانہ میں جب زیاد نے اس نہر کو دوبارہ درست کرایا تو تبرکاً معقل ہی کے ہاتھوں اس کا افتتاح کرایا۔ علالت اوروفات امیر معاویہؓ کے زمانہ میں بیمار پڑے، عبید اللہ بن زیاد ان کی عیادت کو آیا، اس سے فرمایا میرا وقت آخر ہے،اگر زندگی کی امید ہوتی تو ایک حدیث جس کو میں نے ابھی تک نہیں بیان کیا ہے نہ بیان کرتا، لیکن اب وقت آخر ہے،اس لیے بیان کیے دیتا ہوں میں نے آنحضرتﷺ کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ " جو شخص رعایا کی گلہ بانی کرتا ہے،اگر اس نے رعایا کہ خیانت کی اوراسی حالت میں مرگیا تو خدا اس پر جنت حرام کردے گا۔(مسلم ،کتاب الایمان باب استحقاق الوالی الغاش لرعیۃ النار)اس مرض میں وفات پائی، ساٹھ اور ستر کے درمیان عمر تھی۔ (اصابہ:۶/۱۲۶) فضل وکمال حضرت معقلؓ بڑے صاحبِ کمال صحابی تھے، ان کے کمال کی سب سے بڑی سند یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے انہیں باصرار قبیلہ مزنیہ کا عہدۂ قضا سپرد فرمایا تھا بہت سے ایسے مسائل جن کے متعلق کبار صحابہ نے آنحضرت ﷺ سے کوئی فیصلہ نہ سنا تھا، معقل کے علم میں تھے،ایک مرتبہ کسی شخص نے عبداللہ ؓبن مسعود سے پوچھا کہ ایک شخص نے بلا تعیین مہر ایک عورت سے شادی کی اور بلا خلوت صحیحہ مرگیا، ایسی صورت میں عورت کو ترکہ اورمہر ملے گایا نہیں، انہوں نے (غالبا قیاس سے) جواب دیا بلا شبہ اس قسم کی منکوحہ کو اس کے جیسی اوصاف والی عورت کے برابر مہر ملے گا، میراث بھی پائیگی اورعدت بھی پوری کرنی ہوگی،معقل بھی موجود تھے،انہوں نے کہا آنحضرتﷺ نے یربوع بنت داشق کے بارہ میں یہی فیصلہ فرمایا تھا،عبداللہ بن مسعودؓ کو آپ کا یہ فیصلہ معلوم نہ تھا، اس لیے اپنے فیصلہ کے توارد پر بہت محظوظ ہوئے۔ (اسد الغابہ:۴/۳۵۷) ان سے چونتیس حدیثیں مروی ہیں ان میں ایک متفق علیہ ہے اورایک میں امام بخاری دو میں امام مسلم منفرد ہیں (تہذیب الکمال:۳۸۳) ان کے رواۃ کا دائرہ خاصہ وسیع ہے،عمران بن حصین،معاویہ ابن قرہ ،علقمہ بن عبداللہ، حکم بن اعرج، عمرو بن لیمون، حسن بصری، نافع بن ابی نافع، ابی الملیح ،مسلم بن مخراق، عیاض اورابو خالد وغیرہ نے ان سے روایتیں کی ہیں۔ (تہذیب التہذیب :۱۰/۲۳۵) غیرت وحمیت معقل نہایت غیور اورباحمیت آدمی تھے،شادی اورطلاق عربوں میں معمولی بات تھی مگر ان کی غیرت طلاق کو پسند نہ کرتی تھی اور وہ نہایت مکروہ سمجھتے تھے، انہوں نے ایک شخص کے ساتھ اپنی بہن کی شادی کی اس نے چند دنوں کے بعد طلاق دیدی اورعدت گذرنے کے بعد پھر نکاح کا پیام دیا، معقل نے کہا میں نے تمہارے ساتھ شادی کرکے تمہاری عزت افزائی کی تھی،تم نے طلاق دیدی، اب کبھی تمہارے ساتھ شادی نہ کروں گا ان کے انکار پر یہ حکم نازل ہوا۔ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ (القرۃ:۲۳۲) ترجمہ:جب تم عورتوں کو طلاق دو اوروہ اپنی عدت پوری کرچکیں تو ان کو نہ روکو اس حکم ربانی کے سامنے غیرت مندی اورخوداری کے تمام جذبات سرد پڑگئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ،مجھے کوئی عذر نہیں اور دوبارہ اس شخص کے ساتھ بہن کی شادی کردی۔ (بخاری کتاب النکاح ارباب من قال النکاح الابولی)