انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** توحید فی الربوبیت اللہ کا اکیلا اورتنہاہونا کسی کا اس میں شریک نہ ہونا یہ تین چیزوں میں ہوتا ہے. (۱)رب ماننے میں توحید. (۲)معبود ماننے میں توحید. (۳)صفات باری تعالی میں توحید. رب ماننے میں توحید کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز کے خالق صرف اور صرف اللہ تعالی تنہا ہیں زمین آسمان اور دنیا کی تمام مخلوقات سب کچھ اللہ کی پیدا کی ہوئی ہیں نیز روزانہ جو چیزیں وجود میں آتی ہیں وہ سب کچھ اسی کی جانب سے ہوتی ہیں اور اس بات کا اقرار کہ اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اورایک ہی جیسے دو، دنیا بنانے والے نہیں ہیں اور آج تک کوئی بھی قوم اس بات کا دعوی نہیں کرسکی کہ اس دنیا کا بنانے والا اللہ کے علاوہ اور بھی اسی جیسا ہے (حجۃ اللہ البالغہ، باب التوحید:۱/۱۲۲) جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے خود اس کی طرف اشارہ فرمایا: "أَفِیْ اللہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ"۔ (ابراہیم:۱۰) کیا اللہ تعالی کے بارے میں شک ہے جوکہ آسمانوں اورزمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) البتہ جس نے بھی ربوبیت کا دعویٰ کیا وہ حقیقت میں اپنے متعلق جانتا تھا کہ وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے اور اللہ تعالی ہی اصل خالق ہیں اور بظاہر اس کا انکار کرتا تھا جیساکہ فرعون، اس نے خودکےرب ہونے کا دعویٰ تو کیا لیکن دل سے اسے اللہ تعالی پر یقین تھا جیسا کہ حضرت موسیؑ نے فرمایا: "لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ ہَـؤُلاء إِلاَّ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ بَصَآئِرَ". (الاسراء:۱۰۲) توخوب جانتاہےکہ یہ عجائبات خاص آسمانوں اورزمین کےپروردگارہی نے بھیجے ہیں جوکہ بصیرت کے لیےذرائع ہیں۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) اور اللہ تعالی نے بھی اس کے اور اس کی قوم کے متعلق فرمایا: "وَجَحَدُوا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا أَنفُسُہُمْ ظُلْماً وَعُلُوّاً "۔ (النمل:۱۴) اورظلم وتکبرکی راہ سے ان کے منکرہوگئے؛ حالانکہ ان کے دلوں نے ان کا یقین کرلیا تھا۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) اور نصاری(عیسائیوں)نے جو تثلیث (تین معبودوں)کے قائل ہیں وہ بھی دنیا کے تین پیدا کرنے والے نہیں مانتے بلکہ تینوںمیں سے ہر ایک کو دوسرے سے الگ صفات کے حامل سمجھتے ہیں اور وہ بھی اس بات پرمتفق ہیں کہ دنیا بنانے والا ایک ہی ہے۔ (شرح الطحاویۃ لا بن ابی العزء، ان اللہ واحد لا شریک لہ:۱/۱۲) الغرض ایک ہی جیسے صفات کے حامل دو معبود کوئی بھی قوم نہیں مانتی ہے،اس لیےکہ اگر دنیا کے بنانے والے دو خالق ہوتے تو ان کے اختلاف کےوقت میں یہ بات ہوتی کہ ان میں سےایک چاہتا کہ فلاں کو قتل کردیاجائے،اس کے ختم کرنے میں یہ مصلحت ہے،اور دوسرا یہ کہتا کہ اس کو ختم نہ کیا جائے، اس میں یہ نقصان ہے وغیرہ اسی وجہ سے اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا: "لَوْکَانَ فِیْہِمَاآلِہَۃٌ إِلَّااللہُ لَفَسَدَتَا"۔ (الانبیاء:۲۲) اگر اللہ تعالی کے سوا کوئی اور معبود ہوتے تو دونوں درہم برہم ہوجاتے۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ)