انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت معاذ بن جبلؓ حضرت معاذؓ بن جبل انصاری کا شمار خیر البشر کے ان عظیم المرتبت جاں نثاروں میں ہوتا ہے جو ایک طرف تو راہِ حق کے ایک پُر جوش مجاہد اور گوناگوں محاسنِ اخلاق کا پیکرِ جمیل تھے تو دوسری طرف علم وفضل کا ایسا مجمع البحرین(سنگم) تھے کہ ایک دنیا ان کے فیوض ِعلمی سے بہرہ یاب ہوتی تھی اور ان کو عالم ربانی،کنز العلماء اور امام الفقہاء کے القاب سے یاد کرتی تھی۔ (الاصابہ فی معرفۃ الصحابہ:۳/۹۹) نام ونسب اور قبولیت اسلام حضرت معاذؓبن جبل کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج سے تھا اور وہ اس کی ایک شاخ ادی بن سعد کے چشم وچراغ تھے،نبوت کے بارہویں سال مدینہ میں اسلام کی دعوت شروع ہوئی تو حضرت معاذؓ نے اس کے قبول کرنے میں ذرا بھی پس وپیش نہیں کیا ،داعیٔ اسلام حضرت مصعب بن عمیرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صدق دل سے توحید کا اقرار کیا، اس وقت ان کا سن کم وبیش ۱۸ سال کا تھا ،قبولیتِ اسلام کے بعد اشاعتِ اسلام کے لیے تن من دھن کی بازی لگادی، بیعت عقبہ اور غزوۂ بدر سے لے کر تبوک تک کے سارے معرکوں میں شریک رہے ،مجلس نبوی کے ہمہ وقت حاضر باش حضرات میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ مزاج ومذاق مزاج میں جزو رسی ،معاملہ فہمی اور حق شناسی بلا کی تھی، اپنی علمی پیاس بجھانے اور اپنے ذوق تحقیق کی تسکین کے لیے ہمیشہ مناسب مواقع کی تلاش میں رہا کرتے تھے ، بسا اوقات خود نبی کریم ﷺ ان کے اس مزاج کی رعایت فرماتے تھے اور انہیں مخاطب بناکر اپنے فرمودات عالیہ سے نہال فرماتے ،اس طرح نہایت کم عمر ہی میں حضرت معاذؓ نے علومِ نبوت سے اپنے دامن ِمراد کو بھر لیا تھا اور اپنے اقران میں بڑے ہی قابل رشک بن گئے تھے ۔ نمایاں خدمات ۹ھ میں رسول اللہ ﷺ کے نائب بناکر یمن بھیجے گئے ،وہاں قاضی اور معلم کی حیثیت سے دوسال تک یمن کے باشندوں کو اپنی خدمات سے مستفید کرتے رہے اور ۱۱ھ میں خود اپنی مرضی سے سبکدوش ہوکر مدینہ واپس آگئے ،سرور عالمﷺ کا وصال ہوچکا تھا اور عہد صدیقی چل رہا تھا، حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اس عظیم مبلغ ِاسلام کا نہایت پاس ولحاظ فرمایا، چند دن مدینہ قیام کرکے حضرت معاذؓ ؓنے ملک شام کا قصد کیااور اپنے اہل وعیال کو لے کر وہیں سکونت پذیر ہوئے ،حضرت ابو بکر ؓنے انتقال کیا تو حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے ،فتوحات اسلامی کا سیلاب بلادِ شام سے گزررہا تھا، حضرت معاذؓ بھی فوج میں شامل تھے اور میدانوں میں دادِ شجاعت دیتے تھے۔ وفات اسی اثناء میں ۱۸ھ میں نہایت زور وشور سے شام میں طاعون نمودار ہوا ،جو طاعون عمواس کے نام سے مشہور ہے، یہ طاعون اس قدر شدید تھا کے بشمول اکابر صحابہ،۲۶/ہزار مسلمان اس میں جاں بحق ہوئے ،حضرت معاذؓ کی قسمت میں بھی یہ سعادت آئی اور وہ بھی اس وبا میں مبتلا ہوکر بڑے ہی صبر واحتساب کے ساتھ اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی، وفات کے وقت ان کی عمر علی اختلاف الاقوال ۳۴یا۳۸یا۳۳ سال تھی سن وفات ۱۸ ھ ہے، شام کے مبارک خطہ ہی میں مدفون ہوئے۔ (الاستیعاب۱/۴۴۰) علمی جامعیت حضرت معاذؓ کا شمار درسگاہ نبوی کے ان ہونہار طالب علموں میں ہوتا ہے جنہیں وہاں عالم انسانی سے معلم کاملﷺ کی جانب سے قرآن ،حدیث اور فقہ تینوں علوم عالیہ میں خصوصی سند فضیلت عنایت کی گئی تھی ،اونچے درجے کے اہل علم صحابہ جلالت ِشان اور علمی تفوق کےقائل ومداح تھے۔ قرآن قرآنیات میں کمال کا عالم یہ تھا کہ خود حاملِ قرآن نے اپنے اصحاب کو ان سے قرآن سیکھنے کا حکم فرمایا؛ چنانچہ ارشاد نبویﷺ ہے چار لوگوں سے قرآن حاصل کرو،ابی بن کعبؓ سے،معاذؓ بن جبل سے،سالم ؓمولی ابو حذیفہؓ سے اور عبداللہ بن مسعودؓ سے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب:۱/۱۷۰) عہد ِرسالت میں جمع وحفظ قرآن کی سعادت جن چار حضرات کے حصہ میں آئی تھی ان میں سے ایک حضرت معاذؓ بھی تھے۔ (ابن عساکر وابو عوانہ بحوالہ حیاۃ الصحابہ عربی۱/۴۱۷) اہل یمن کی جانب جن مقاصد کےلیے انہیں مبعوث کیا گیا تھا ان میں سے ایک اہم اور بنیادی مقصد وہاں کے باشندوں کو تعلیمِ قرآن سے آراستہ کرنا بھی تھا۔ (الاستیعاب۱/۴۳۹،۴۴۰) یمن کی دوسالہ مدت قیام میں وہاں کے بہت سارے لوگوں نے قرآنیات میں ان سے کسب فیض کیا،ابو تمیم جیثانی کہتے ہیں میں نے حضرت معاذؓ سے قرآن سیکھا جس وقت وہ یمن تشریف لائے تھے۔ (الاستیعاب:۲/۱۴) ناشرہ بن سمی بھی اس زمانے کے شاگردرہے ہیں اور انہوں حضرت معاذؓ کے ساتھ رہے کر قرآن حاصل کیا تھا۔ (الاستیعاب۲/۲۰۷) حدیث رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اگرچہ صحابہ کو روایت حدیث کی بہت کم ضرورت پڑتی تھی کہ خود حامل نبوت سامنے تھے ؛تاہم اس زمانے میں بھی متعدد صحابہ نے ان سے حدیثیں روایت کی ہیں ؛لیکن چوں کہ حضرت معاذؓ احادیث کی روایت میں بہت محتاط تھے پھر آنحضرتﷺ کے اخیر زمانے سے لے کر اپنی وفات تک بڑے بڑے کاموں کے انجام دینے کے لیے برابر مدینہ سے باہر رہے اس لیے بقول حضرت شاہ ولی اللہؒ" حدیث او چنداں باقی نماند" کہ ان کی احادیث زیادہ باقی نہ رہیں ؛تاہم روایتِ حدیث کا سلسلہ زندگی کی آحری سانس تک جاری تھا، عمواس کے طاعون میں جب انگلی کی سوزش ان کو بستر مرگ پر تڑپا رہی تھی زبانِ مبارک اسی فرض کی ادائیگی میں مصروف تھی ؛چنانچہ وفات کے وقت حضرت جابر بن عبداللہ اور کچھ اور لوگ پاس بیٹھے تھے، وفات کا وقت قریب آیا تو فرمایا پردہ اٹھاؤ میں حدیث بیان کروں گا جس کو اب تک میں نے اس لیے مخفی رکھا تھا کے لوگ تکیہ کر بیٹھیں گے، اس کے بعد ایک حدیث بیان کی۔ حضرت معاذؓ کی روایتیں اگرچہ اور صحابہ سے کم ہیں؛ تاہم ان کا شمار راویانِ حدیث کی تیسرے طبقہ میں ہے، ان کی احادیث کی مجموعی تعداد ۱۵۷ ہے ،جس میں دو حدیثوں پر بخاری اور مسلم کا اتفاق ہے، تلامذہ حدیث کی تعداد کثیر تھی، اکابر صحابہ کا ایک بڑا طبقہ ان سے حدیث کی روایت کرتا ہے ،اجلۂ تابعین کی ایک جماعت ان کے تلامذہ ٔ خاص میں داخل تھی۔ (سیر الصحابہ۵/۱۵۶) فقہ یہ ایسا موضوع ہے جس سے حضرت معاذؓ کو فطری مناسبت معلوم ہوتی ہے، مسائل منصوصہ کے بیان وتشریع اور نوازل (نئے پیش آمدہ مسائل)میں اجتہاد واستنباط دونوں پر انہیں یکساں قدرت حاصل تھی جس توقع پر انہیں یمن کی جانب روانہ کیا جارہا تھا تو رسول اللہﷺ نے ازراہِ امتحان ان سے دریافت کیا کہ جب کوئی مسئلہ وقضیہ درپیش ہوتو کیسے نمٹوگے ؟عرض کیا :کتاب اللہ کی روشنی میں فیصلہ کروں گا، ارشاد فرمایا کہ اگر اس میں اس کا جواب نہ ملے تو ،عرض کیا :سنت رسول اللہﷺ کی مدد سے ،ارشاد فرمایا اگر اس میں بھی نہ ملے، عرض کیا اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور کوئی کسر نہ چھوڑوں گا ،یہ سن کر رسول اللہﷺ نے فرطِ مسرت سے ان کے سینے کوتھپ تھپایا اور اپنے منشا وچاہت کے مطابق اس باتوفیق قاصد کے پورے اُترنے پر خدا کی حمد وستائش فرمائی۔ (اعلاءالموقعین۱/۲۲۱) پھر رسول اللہﷺ نے صرف اس داد وتحسین پر بس نہیں فرمایا؛ بلکہ باقاعدہ ایک نامۂ مبارک اہل یمن کےنام تحریر کروایا جس میں یہ مضمون تھا کہ "میں تمہارے پاس اپنے لوگوں میں سے بہتر ترین شخص کو روانہ کررہا ہوں" (الاصابہ:۳/۹۹) حضرت معاذؓ نے فصل قضایا اور حلِ مسائل کا جوطریقہ ٔکار بیان فرمایا بعد کو تمام مجتہدین کے لیے وہی راہِ عمل قرار پایا اور تقریر نبوی سے اس طریقے کار کا حجت اوربرحق ہونا ثابت ہوا۔ فقہی مرتبہ فقہ کے میدان میں حضرت معاذؓ کی عالی رتبی کے لیے تنہا یہی منقبت کافی ہے کے لسانِ نبوت سے انہیں "اعلمھم باالحلال والحرام" حلال وحرام کے سب سے بڑے عالم کاخطاب ملا تھا۔(الاستیعاب۱/۴۴۰) حضرت معاذؓ نے بہت کم عمر پائی تھی؛ مگر ان کے فتاویٰ اس کثرت سے موجود ہیں کہ حضرت انسؓ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ، حضرت ابو ھریرہ ؓ،حصرت ابو موسی اشعری ؓ،حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ اورحضرت عثمان بن عفانؓ جیسے طویل عمر پانے والے اصحاب افتاء کے فتاوے کی تعداد کو پہنچ جاتے ہیں ، علماء نے انہیں صحابہ کے طبقے متوسطین و اربابِ افتاء سے شمار کیا ہے۔ (اعلام الموقعین۱/۱۳) حضرت معاذؓ کی شانِ افتاء کا یہ حال تھا کہ خود مدینہ منورہ میں رسالت مآبﷺ کی حیات مبارکہ اور حضرت ابو بکرؓ کے عہدمیں لوگوں کو فتوے دیا کرتے تھے ۔ (حیاۃ الصحابہ:۱/۴۸۰) طبقۂ صحابہ کے وہ حضرات جو تمام صحابہ کے علوم کا خلاصہ سمجھے جاتے تھے وہ بھی برملا حضرت معاذؓ کے علم وتفقہ کا اعتراف کرتے تھے ،حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے معاذؓ جیسا شخص پیدا کرنے سے عورتیں عاجز ہیں، اگر معاذؓ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔ (الاصابہ:۳/۹۹) عہدِ صدیقی میں جب حضرت معاذؓ مدینہ کوخیرباد کہہ کر ملکِ شام تشریف لے گئے تو حضرت عمرؓ کا تاثر یہ تھا کہ ان کے اس طرح مدینہ چھوڑکر چلے جانے سےیہاں کے اپنے بسنے والوں کا فقہ وفتاوی کے باب میں بڑا حرج اور خلل ہوگیا ہے اور میں نے لوگوں کی ضرورت کے خیال سے حضرت ابو بکر صدیقؓ سے ان کے روکنے کے سلسلہ میں گفتگو بھی کی تھی۔ (حیاۃ الصحابہ:۱/۴۸) حضرت عمر ؓہی کا یہ عمومی اعلان تھا کہ جسے فقہ مطلوب ہو وہ حضرت معاذؓ کا رخ کرے۔ (الطبقات الکبری:۲/۳۴۸) فقیہ الامت حضرت عبداللہ بن مسعودؓحضرت معاذؓ کو ان کی اطاعت شعاری ،پیشوائی اور تعلیم خیر کی خصوصیت کی بنا پر" قانت اور پوری امت کے بجائے "قرار دیتے تھے جو کلام الٰہی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے القاب کے طورپر استعمال ہوئے ہیں۔ (الاستیعاب:۱/۴۱) حضرت معاذؓ کی چند سالہ یمن وشام کی مدت قیام میں ان کے بعض ایسے شاگرد تیار ہوئے جو آگے چل کر اپنے پورے علاقہ کے مرجع الفقہاء بنے، عبدالرحمن بن غنمؒ جو حضرت معاذؓ کے ہمدم شاگرد اور صاحب معاذؓ کے لقب سے مشہور تھے وہ اہلِ شام کے فقیہ ترین علماء میں شمار ہوتے تھے اور شام کے اکثر تابعین نے انہی سے فقہ حاصل کی تھی۔ (الاستیعاب۱/۲۵۷) عمر بن میمونؒ جن کا شمار کوفہ کے بڑے فقہاءمیں ہوتا تھا انہوں نے بھی حضرت معاذؓ سے کسب فیض کیا تھا، پھر حضرت معاذؓ ہی کی مشورہ سے ان کی وفات کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے فقہ کی تکمیل کی تھی۔ (اعلام الموقعین۱/۲۶) اصابت رائے اور بعض فقہی آراء حضرت معاذؓ کے ملکۂ استنباط اور کمالِ تفقہ کا اندازہ اِن مسائل سے لگایا جاسکتا ہے جن کی بنا اپنی رائے سے حضرت معاذؓ نے ڈالی اور پھر رسالتمآبﷺ نے ان کی تصویب فرمائی۔ مثلاً شروع زمانے میں جو لوگ جماعت میں دیر سے پہنچتے اور ان کی کچھ رکعتیں چھوٹ جاتیں تو وہ نمازیوں سے اشارہ سے پوچھ لیتے کہ کتنی رکعتیں ہوئیں اور وہ اشارے سے جواب دے دیتے ،اس طرح لوگ فوت شدہ نمازیں پوری کرکے صف ِنماز میں مل جاتے تھے، ایک دن جماعت ہورہی تھی اور لوگ قعدہ میں شریک ہوگئے، آنحضرت ﷺ نے سلام پھیرا تو حضرت معاذؓ نے اٹھ کر بقیہ رکعتیں پوری کیں آنحضرت ﷺ نے دیکھا تو فرمایا معاذؓ نے تمہارے لیے ایک طریقہ نکالا ہے تم بھی ایسا ہی کیا کرو۔ (کشف الاسار:۳/۴۱۶) رسول اللہﷺ کی حین حیات میں حضرت معاذؓ نے ملک یمن میں وراثت کا ایک مسئلہ یوں حل فرمایا تھا کہ میت کے دو ورثاء بیٹی اور بہن میں سے ہر ایک کو نصف کا حقدار قرار دیا تھا، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کا خیال تھا کہ میت کے ورثاء میں بیٹی اور بہن جمع ہونے کی صورت میں حقدار صرف بیٹی ہے اور بہن ترکہ سے محروم رہے گی؛ مگر جب ان کو حضرت معاذؓ کے اس ناقابل تردید فتوی کا علم ہواتو انہوں نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا۔ (احکام القرآن للکیا الھراسی:۳/۶۶) طاؤس کہتے ہیں کہ حضرت معاذؓ زمانۂ رسالت اور شیخین کے دور میں تہائی اور چوتھائی پیداوا رپر زمین کو بٹائی پر دیا کرتے تھے اور آج تک اس پر عمل جاری ہے ۔ (المجموع شرح المہذب۱۴/۴۰۰) جماع کی ایک خاص صورت(مباشرت بلا انزال )میں صحابہ کرام میں اختلاف تھا ،بعض اس کی وجہ سے غسل کے واجب ہونے کے قائل تھے، جب کے بعض غسل کو غیر ضروری قرار دیتے تھے، حضرت معاذؓ اور حضرت علیؓ کا اصرار پہلی رائے پر تھا، حضرت عمر اس صورت حال سے نہایت متردد تھے بالآخر اس مسئلہ میں حضرت عائشہؓ سے رجوع کیا گیا تو حضرت عائشہؓ نے حضرت معاذؓ کی رائے سے اتفاق کیا اور اس پر حضرت عمر اور تمام صحابہ کا اجماع ہوگیا۔ (مسند احمد۵/۱۱۵) وراثت کے باب میں عام صحابہ دین کے اختلاف کو مانع ارث ٹہراتے تھے (بعدکو ائمہ اربعہ نے بھی یہی رائے اختیار کی)ان حضرات کے پیش نظر یہ ارشاد نبوی تھا کہ نہ مسلمان کو کافر کی میراث ملتی ہے اور نہ کافر کو مسلمان کی(رواہ الجماعۃ الاالنسائی:نیل الوطار۶/۷۳)حضرت معاذؓ اور حضرت معاویہؓ کا نظریہ یہ تھا کہ مسلمان کو غیر مسلم کی میراث ملے گی ،ان دونوں بزرگوں نے اس حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط کیا تھا کے اسلام غالب رہتا ہے مغلوب اور نیچا نہیں ہوتا۔ (احکام القرآن للجصاص:۲/۱۲۷ ،الفقہ الاسلامی وادلتہ۱۰/۷۷۱۹) حضرت سعید بن مسیب ؓسے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ نے یہ تحریر جاری کرائی تھی کے عشاء کا اول وقت شفق کے غائب ہونے پر شروع ہوتا ہے اور حضرت معاذؓ کا فرمان تھا کہ شفق سے مراد افق کی سفیدی ہے۔ (احکام القرآن للجصاص۲/۳۴۳) تقسیم زکوۃ میں حضرت معاذؓ کا تمام اصناف مستحقین کو دینا ضروری خیال کرتے تھے ؛بلکہ ان کا معمول یمن میں یہ تھا کہ لا علی التعیین ایک صنف کو زکوۃ دے دیا کرتے تھے۔ (احکام القرآن للجصاص:۳/۱۷۹) نماز جمعہ کے بارے میں حضرت معاذؓ کی رائے یہ تھی کے امام کے سلام پھیرنے سے قبل جو شخص بھی نماز میں شامل ہوجائے اسے جمعہ مل گیا۔ (احکام القرآن للجصاص) اسلام نے عدل وانصاف کی رعایت کے ساتھ تعدد ازدواج کی اجازت دی ہے ؛مگر علم وتقوی کے بغیر یہ رعایت ممکن نہیں، حضرت معاذؓ عالم وفقیہ بھی تھے اور متقی وپارسا بھی، اس لیے انھوں نے اس حوالے سے بھی پوری امت کے سامنے ایک نہایت مثالی نمونہ پیش فرمایا ہے، صورتحال یہ تھی کہ ایک بیوی کی باری میں دوسرے بیوی کے یہاں نہ وضو کرتے تھے نہ پانی کا ایک گھونٹ پیتے تھے ،حد یہ ہے کہ طاعون عمواس میں جب دونوں بیویاں داغِ مفارقت دے گئیں اور ان کی تدفین کا مرحلہ آیا تو قرعہ اندازی کی ،پھر اس کے مطابق ایک کو پہلے اتارا پھر دوسری کو۔ (حیاۃ الصحابہ۳/۴۸۷) الغرض! حضرت معاذؓ کی یہ علمی اور عملی زندگی ہمارے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے، اس کی روشنی میں ہم اپنے علم وعمل کے زاویوں کو درست کرسکتے ہیں اور فہم وکردار کے بگاڑ کو دور کرسکتے ہیں۔