انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابتؒ (م:۱۵۰ ھ) امام صاحب علم وحکمت میں اپنے معاصرین میں ممتاز مقام رکھتے تھے اوران کی عقل مندی،حاضر جوابی،معاملہ فہمی کے سب لوگ قائل تھے،ان کے بہت سے حکیمانہ اقوال کتابوں میں مذکور ہیں،چند اقوال ملاحظہ ہوں: ۱۔علماء دین کے واقعات بیان کرنا اوران کی مجلسوں میں بیٹھنا میرے نزدیک بہت سے فقہی مباحث سے بہتر ہے کیونکہ ان کے اقوال ومجالس ان کے آداب واخلاق ہیں۔ ۲۔کوئی شدید ضرورت پیش آجائے تو پوری کیے بغیر کھانا نہ کھاؤ؛کیونکہ کھانا عقل میں ثقل پیدا کردیتا ہے۔ ۳۔جو شخص وقت سے پہلے عزت وشرف اورسیادت طلب کرے گا،زندگی بھر ذلیل رہے گا۔ ۴۔جو شخص علم دین دنیا کے لئے حاصل کرے گا، اس کی برکت سے محروم رہے گا، اورعلم اس کے دل میں راسخ نہیں ہوگا اورنہ ہی اس سے کسی کو نفع پہنچے گا، سب سے بڑی عبادت اللہ پر ایمان ہے اورسب سے بڑا گناہ کفر ہے۔ ۵۔جو شخص بغیر تفقہ کے حدیث پڑھتا ہے وہ اس عطار کے مانند ہے جو دوا فروخت کرتا ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ کس مرض کے لیے ہے، اس کو طبیب بتاتا ہے،اسی طرح محدث حدیث جانتا ہے مگر فقیہ کا محتاج ہوتا ہے۔ ۶۔جب کوئی عورت اپنی جگہ سے اٹھ جائے تو اس کی جگہ پر جب تک گرم رہے نہ بیٹھو۔ ۷۔میں نے ابتداء میں گناہ کے کام ذلت ورسوائی کے ڈر سے چھوڑے اورآخر میں یہ عمل دین ودیانت بن گیا۔ ۸۔قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ مجھ کو اپنے سامنے کھڑا کرے گا تو حضرت علی،حضرت معاویہؓ اوران کے معاملات کے بارے میں سوال نہیں کرے گا؛بلکہ جن باتوں کا مجھ کو مکلف کیا ہے،ان ہی کے بارے میں سوال کرے گا،میرے لیے انہیں میں مشغول رہنا بہتر ہے۔ ۹۔امام صاحب اکثر یہ اشعار پڑھتے تھے: عطاء ذی العرش خیرٌ من عطائکم وسیبہ واسعٌ یرجیٰ وینتظر انتم یکدرماتعطون منکم واللہ یعطی بلا من ولاکدر "عرش والے کی عطا تمہاری عطا سے بہتر ہے اور اس کی دین وسیع ہے جس کی امید کی جاتی ہے،تم جو کچھ دیتے ہو اس کو تمہارا احسان جتانا خراب کردیتا ہے اوراللہ تعالی بلا احسان جتائے بلا کسی خرابی کے دیتا ہے" (سیرت ائمہ اربعہ:۹۵،۹۷) ۱۰۔امام ابو یوسف کابیان ہے کہ ایک دن بارش ہورہی تھی،ہم لوگ امام صاحب کے حلقہ درس میں ان کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے،حاضرین میں داؤد طائی،قاسم بن معن،عافیہ بن یزید،وکیع بن جراح،مالک بن مغول اورزفر بن ہذیل ؒ بھی شامل تھے،امام صاحب نے ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: "تم لوگ میرے دل کا سرور اورآنکھوں کا نور ہو،میں نے تم لوگوں کو تفقہ فی الدین میں اس قابل بنادیا ہے کہ لوگ تمہاری اتباع کریں،تم میں سے ہر ایک عہدہ قضاء کی صلاحیت رکھتا ہے،میں اللہ تعالی اور تمہارے علم کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ علم دین کو اجرت اورمزدوری کی ذلت سے محفوظ رکھنا اوراس کو ذریعہ معاش نہ بنانا،اگر تم لوگوں میں سے کوئی عہدہ قضاء میں مبتلا ہوجائے اوراس بارے میں اپنے اندر کوتاہی یا خرابی محسوس کرے جس سے عوام بے خبر ہوں تو اس کے لئے اس منصب میں رہنا جائز نہیں ہے اگر مجبوراً اس منصب پر جانا ہی پڑے تو عوام سے بے تعلق نہ ہو،پانچوں وقت محلہ کی مسجد میں عام مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھو اوران کی دینی ضروریات معلوم کرو،اگر درمیان میں بیمار پڑ جاؤ اور مجلس قضاء میں حاضر نہ ہو تو وظیفہ سے غیر حاضری کے دن ساقط کردو اورجو فیصلہ میں نا انصافی کرےگا،اس کا فیصلہ جائز اورقابل قبول نہیں ہوگا" (سیرت ائمہ اربعہ:۷۷،بحوالہ تاریخ بغداد:۱۳/۳۶۱) ۱۱۔جو شخص میرے بارے میں جہالت اورغلط فہمی کی بنیاد پر کوئی نا مناسب اورغلط بات کہے وہ سب معاف ہے،لیکن جو باوجود علم کے جان بوجھ کر کچھ کہے تو اس کے نامہ اعمال میں اس کا اثر موجود رہے گا اس لئے کہ علماء کی غیبت ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی باقی رہتی ہے۔ (الخیرات الحسان فی مناقب الامام ابی حنیفۃ النعمان:۹۰) ۱۲۔ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کہا"اللہ تعالیٰ سے ڈرو"یہ سن کر آپ کانپ اٹھےاور اپنے سر کو جھکالیاپھرفرمایا: اے میرے بھائی !اللہ تعالی تجھے بہتر جزادے،بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس وقت کسی نصیحت کرنے والے کے محتاج ہوتے ہیں جب ان کے سینوں سے علم کا فیضان برس رہا ہو اور وہ اس بارے میں خوش فہمی میں مبتلا ہورہے ہوں، یہاں تک کہ وہ اپنے اعمال میں صرف اللہ کو ہی راضی کرنے کا ارادہ کرلیں،میں جانتا ہوں کہ اللہ عزوجل یقیناً مجھے سے سوال کرے گا اورمیں یقینا سلامتی کے حصول کا متمنی اورحریص ہوں" (الخیرات الحسان فی مناقب الامام ابی حنیفۃ النعمان:۹۱) ۱۳۔امام صاحب ؒ کی عادت تھی کہ جب کوئی آنے والا آپ کے پاس آتا اورادھر ادھر کی باتیں شروع کرتا کہ ایسا ہو اور ویسا ہو اوراس کو زیادہ کرتا تو فرماتے: "اس کو چھوڑو!لوگوں کی ایسی بات نقل کرنے سے بچو جس کو وہ پسند نہ کرتے ہوں،جو شخص میرے بارے میں ناپسندیدہ بات کہے اللہ تعالیٰ اسے معاف کرے اورجو اچھی بات کہے اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے،دین میں سمجھ حاصل کرو،لوگوں کو ان کے کاموں میں لگا رہنے دو اس چیز کے بارے میں جو انہوں نے اپنے نفس کے بارے میں منتخب کرلی ہے،اگر تم لوگوں کی عزتیں اچھالنے کے پیچھے لگ گئے تو اللہ تعالی تمہیں ذلیل کردے گا اور تمہیں لوگوں کا محتاج بنادے گا" (الخیرات الحسان فی مناقب الامام ابی حنیفۃ النعمان :۹۲) ۱۴۔ایک مرتبہ آپ نے امیر کوفہ سے فرمایا: "سلامتی کے ساتھ روٹی کا ایک ٹکڑا،ایک پیالہ پانی،ایک کپڑا پوستین کا بہتر ہے،ایسی نعمتوں میں عیش کرنے سے جس کے بعد ندامت ہو،لوگوں کے بارے میں ایسی باتوں کے کرنے سے پرہیز کرو جنہیں وہ ناپسند کرتے ہوں جو شخص میری برائی بیان کرے اللہ تعالی اسے معاف کرے اورجو شخص میرے حق میں کلمہ خیر کہے اللہ تعالیٰ اسے نیک اجر عطا فرمائے،دین میں تفقہ حاصل کرو اور لوگوں کو اس حال پر چھوڑو جو انہوں نے اپنے لئے پسند کیا ہے اللہ تعالی انہیں تمہارا محتاج بنائے گا جس کے نزدیک اس کا نفس معظم ہوگا دنیا اور اس کی تمام سختیاں اس کے نزدیک ذلیل ہوں گی جو شخص تمہاری بات کاٹے اسے کسی قابل مت گن ،اس لئے کہ وہ علم و ادب کا دوست دار نہیں، اپنے دوست (یعنی نفس) کے لئے گناہ اوراپنے غیر(یعنی وارث) کے لئے مال مت جمع کر" (الخیرات الحسان فی مناقب الامام ابی حنیفۃ النعمان:۱۵۱) ۱۵۔معافی موصلی فرماتے ہیں ‘‘امام صاحب میں دس باتیں ایسی تھیں کہ ایک بھی کسی شخص میں ہو تو وہ اپنے وقت کا رئیس اوراپنے قبیلہ کا سردار ہو،وہ دس باتیں یہ ہیں: ۱۔پرہیز گاری ۲۔سچ بولنا ۳۔عفت ۴۔لوگوں کی خاطر ومدارت کرنا۔ ۵۔سچی محبت رکھنا ۶۔اپنے نفع کی باتوں پر متوجہ نہ ہونا۔ ۷۔زیادہ تر خاموش رہنا۔ ۸۔ٹھیک بات کہنا۔ ۹۔عاجزوں کی مدد کرنا ۱۰۔اگرچہ وہ عاجز دشمن ہو۔ (الخیرات الحسان فی مناقب الامام ابی حنیفۃ النعمان:۱۴۲) ۱۶۔اگر دین میں تنگی ہوجانے کا خوف نہ ہوتا تو میں کبھی فتوی نہ دیتا، جن چیزوں کی بدولت جہنم میں جانے کا خوف ہوسکتا ہے ان میں سب سے زیادہ خوف ناک چیز فتویٰ ہے۔ (ائمہ اربعہ کے دربار میں:۱۱،بحوالہ الخیرات الحسان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمانؒ) ۱۷۔میں نے کبھی کسی کی برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیا اور میں نے کبھی کسی پر لعنت نہیں کی اور میں نےکسی مسلمان یا ذمی کافر پر کبھی ظلم نہیں کیا اورمیں نے کبھی کسی کو دھوکہ دیا نہ کسی سے خیانت کی۔ ۱۸۔جو وقت سے پہلے بڑا بننے کا خواہشمند ہوتا ہے وہ ذلیل ہوجاتا ہے۔ ۱۹۔اگر علماء اولیاء اللہ نہیں تو پھر دنیا وآخرت میں کوئی ولی اللہ نہیں۔ ۲۰۔جسے اس کا علم حرام چیزوں سے نہ روکے وہ خسارہ میں ہے۔ (ائمہ اربعہ کے دربار میں ،ص:۱۳ بحوالہ الخیرات الحسان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمانؒ ) ۲۱۔ایک مرتبہ ایک صاحب سے فرمایا جب میں چل رہا ہوں یا لوگوں سے بات کررہا ہوں یا سورہا ہوں یا آرام کررہا ہوں تو ان اوقات میں مجھ سے دین کی بات نہ پوچھا کرو کیونکہ ان اوقات میں آدمی کے خیالات مجتمع نہیں ہوتے۔ (ائمہ اربعہ کے دربار میں،ص:۱۴ بحوالہ الخیرات الحسان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمانؒ) ۲۲۔تمام طاعات میں سب سے عظیم طاعت ایمان ہے اورتمام گناہوں میں بدترین گناہ کفر ہے،جو ایمان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا رہا اور بدترین گناہ سے بچتا رہا تو باقی گناہوں کی مغفرت کی امید ہے ۔ ۲۳۔حکمت(یعنی دین کی صحیح سمجھ کی بات)اس شخص کے سامنے مت بیان کرو جو اسے سننا نہ چاہتا ہو اورجو شخص تمہاری بات درمیان میں کاٹ دے اسے خاطر میں نہ لاؤ ؛کیونکہ اسے علم و ادب میں تم سے محبت نہیں ہے۔ ائمہ اربعہ کے دربار میں،ص:۱۳ بحوالہ عقود الحمان فی مناقب الامام ابی حنیفۃ النعمان للامام شمس الدین محمد بن یوسف الصلحی الدمشقی (م:۵۹۴۲:۳۰۷) ۲۴۔امام ابو حنیفہؒ سے کسی نے پوچھا کہ آپ اس مقام تک کیسے پہنچے؟تو فرمایا میں نے استفادہ (یعنی علم حاصل کرنے )میں کبھی تکبر سے کام نہیں لیا اور افادہ (علم پہنچانے)میں کبھی بخل نہیں کیا۔ (مقدمۃ الدر المختار:۹) (۱)جب تم کسی ظالم بادشاہ کے ساتھ مبتلا ہوجاؤ جس کے سبب تمہارے دین میں رخنہ پڑجائے تو تم اپنے اور بادشاہ کے لئے کثرت سے استغفار کرکے اس رخنہ میں پیوند لگاؤ ۔ (۲)جو اپنے قدر سے کم پر خوش ہوگیا اس کو مقصود سے زیادہ رتبہ دیاگیا ۔ (۳)تم دانائی ضرور سیکھو کیونکہ دانائی مسکینوں کو بادشاہوں کے مرتبہ تک پہونچاتی ہے ۔ (۴)اگر کوئی اللہ کا بندہ اتنی عبادت کرے کہ اس ستون جیسا ہوجائے مگر اس کو یہ خیال نہ ہو کہ اس کے پیٹ میں حلال کھانا جارہا ہے یا حرام تو اس کی ایک عبادت بھی قبول نہ کی جائے گی ۔ (۵)مجھ کو یہ بات پہونچی ہے کہ دنیا میں پرہیزگار عالم سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہے