انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت اقرع بن حابس نام ونسب فراس نام، اقرع لقب، نسب نامہ یہ ہے،اقرع بن حابس بن عبقان محمد بن سفیان ، ابن محاشع بن دارم بن مالک بن حنظلہ بن مالک بن زید مناۃ بن تمیم تمیمی، زمانہ جاہلیت میں شرفائے بنی تمیم میں تھے، اسلام کے بعد بھی یہ اعزاز قائم رہا۔ اسلام سے پہلے اقرع باضابطہ اسلام قبول کرنے کے بہت پہلے اسلام سے متاثر تھے؛چنانچہ فتح مکہ حنین اورطائف میں کفر کی حالت میں آنحضرتﷺ کے ساتھ تھے۔ (اسدالغابہ،۱/۱۱۹) مجلس مفاخرہ فتحِ مکہ کے بعد جب روسائے تمیم مدینہ آئے تو اقرع بھی تھے،روسائے عرب کی طرح بنی تمیم کے عمائد میں بھی عالی نسبی کا بڑا غرور اوردولت کا بڑا نشہ تھا، فخر وتعلی کی مجلسیں ہوتی تھیں، جنہیں روساء عمائد اپنے اپنے فخریہ سناتے تھے،مدینہ آئے تو یہ تمام لوازم ساتھ تھے،کاشانۂ نبویﷺ پر پہنچ کر ارکانِ وفد نے آواز دی، محمدﷺ باہر نکلو، آپ کو ناگوار ہوا تا ہم حجرۂ اقدس سے باہر تشریف لائے ،روسائے تمیم نے کہا ہم لوگ فخاری کے لئے آئے ہیں، اجازت دو کہ ہمارے شعراء بلغاء اپنی سحر بیانی کے جوہر دکھائیں، ابن ہشام کی روایت ہے کہ آپ نے ان کی درخواست قبول کرلی ،لیکن صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں کہ آپ نے فرمایا میں شعر بازی اور فخاری کے لئے نہیں مبعوث ہوا ہوں،لیکن اگر تم اسی کے لیے آئے ہو تو ہم بھی اس سے باہر نہیں ہیں، اجازت ملنے کے بعد عطار دبن حاجب کھڑے ہوئے اورنہایت فخرومباہات کے ساتھ بنی تمیم کے تمول ،ثروت ،اثرواقتدار، عالی نسبی،شجاعت وبہادری اورمہمان نوازی کی جاہلانہ داستان سنائی ان کی تقریر ختم ہونے کے بعد مسلمانوں کی جانب سے جواب کے لئے حضرت ثابت بن قیسؓ کھڑے ہوئے، لیکن یہ جواب کیا تھا؛بلکہ آنحضرتﷺ کی بعثت ،قرآن کا نزول، اسلام کی تبلیغ، انصار کی حمایت اوراعلائے کلمۃ اللہ کی تاریخ اوراسلام کی دعوت تھی، ثابت کے بعد بنی تمیم کے معزز رکن زیر قان بن بدر اٹھے، اوراسی جاہلیت کی غرور آمیز داستان کو اشعار میں دہرایا،ان کے مقابلہ میں دربارِ رسالت کے ملک الشعراء اورطوطیِ اسلام حضرت حسان بن ثابتؓ کو جواب کا حکم ہوا، انہوں نے جواب دیا۔ اسلام روسائے بنی تمیم کی فخاری اورمسلمانوں کے تبلیغی جواب کا یہ اثر ہوا کہ بنی تمیم کے معزز رکن اقرع بن حابسؓ نے اٹھ کر اپنے ارکان سے کہا،"محمدﷺ کے خطیب ہمارے خطیبوں اوران کے شعرا ہمارے شعرا سے زیادہ بہتر ہیں، ان کی آوازیں، ہماری آوازوں سے زیادہ شیریں اوردلآویز ہیں(سیرۃ ابن ہشام ،جلد۲،ذکر قدوم وفدتمیم ونزول سورۂ حجرات میں یہ واقعات نہایت مفصل ہیں ،ہم نے صرف ان کا خلاصہ نقل کیا ہے)میں شہادت دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں، آپ خدا کے رسول ہیں، اس کے قبل جو کچھ ہوچکا وہ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، قبول اسلام کے بعد انہیں کسی غزوہ میں شرکت کا حصہ نہیں ملا، مگر آنحضرتﷺ نے بعض سرایا کے مال غنیمت میں ان کا حصہ بھی لگایا؛چنانچہ حجۃ الوداع کے قبل جو سریہ بھیجا تھا، اس کے مال غنیمت میں سے تھوڑا سا سونا انہیں عطا فرمایا۔ (بخاری کتاب المغازی باب بعث علیؓ بن ابی طالب وخالدؓ بن ولید الی الیمن) عہد خلفاء عہد نبویﷺ میں اقرع غزوات میں نہ شریک ہوسکے تھے خلفاء کے زمانہ میں اس کی تلافی کی کوشش کی عہد صدیقی میں یمامہ کی مشہور جنگ میں حضرت خالد بن ولیدؓ کے ساتھ تھے پھر عراق کی فوج کشی میں بھی ان کے ساتھ نکلے اورابنار کی فتوحات میں شریک ہوئے، دو مۃ الجندل کے معرکہ میں شرجیلؓ بن حسنہ کے ساتھ تھے، حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں بعض معرکہ کے قرع کی امارت میں سر ہوئے،عبداللہ بن عامرؓ والی خراسان نے انہیں خراسان کے ایک حصہ پر مامور کیا تھا؛چنانچہ جوزجان ان ہی کی قیادت میں فتح ہوا۔ شہادت حافظ ابن حجر کے بیان کے مطابق اسی غزوہ میں شہید ہوئے۔ (اصابہ:۱/۱۵۱)