انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خلافتِ امین کا جائزہ خلیفہ امین نے ۲۷/ یا۲۸/برس کی عمر پائی، چار برس اور ساڑھے ساتھ مہینے خلافت کی، یہ تمام زمانہ فتنہ وفساد اور خوں ریزی میں گزارا، ہزارہا مسلمانوں کا خون بلاوجہ بہایا گیا، امین کا عہدِ خلافت عالم اسلام کے لیے مصیبت ونحوست کا زمانہ تھا، امین اگرچہ نحووادب میس دست گاہِ کامل رکھتا تھا اور اچھے شعر کہتا تھا، اہلِ علم کا قدردان بھی تھا؛ مگرلہوولعب کی طرف مائل اور مہماتِ سلطنت کے سرانجام کے ناقابل تھا، تختِ سلطنت پربیٹھتے ہی قصر منصور کے قریب میدانِ چوگان کے بنانے کا حکم دیا، زیب وزینت اور آرائش کے کاموں میں اس کی خصوصی توجہ صرف ہوتی تھی، گانے بجانے کا شائق اور حسن پرستی کی لعنت میں گرفتار تھا؛ پھرسب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ خود غرض وزراء میں ایسا کوئی نہ تھا کہ جوکہتا کہ ؎ توئی مردِ میدانِ ایں کارواں چہ کارت بعشقِ پری پیکراں غرض امین اپنی نوجوانی کے جذبات کا پورے طور پرمغلوب اور ملک گیری وملک داری کی صفات سے معرا تھے، فضل بن ربیع جواُس کا وزیر اعظم تھا، خاندانِ عباسیہ کے لیے اچھا وزیر ثابت نہ ہوا، فضل بن ربیع نے ہی طوس سے اُس لشکر اور اُس سامان کوجومامون کے پاس ہارون کی وصیت کے موافق رہنا چاہیے تھا، بغداد لانے اور مامون کونقصان پہنچانے کی نامناسب حرکت سے امین ومامون دونوں بھائیوں میں عداوت ودشمنی کا بیج بویا، اتنی سی بات کوغالباً مامون برداشت کرلیتا اور امین اپنی عیش پرستی کے سبب مامون کے درپے نہ ہوتا؛ لیکن دوسرا نازیبا کام فضل بن ربیع نے امین سے یہ کرایا کہ مامون کوولی عہدی سے معزول کراکر امین کے شیرخوار بچے کومامون کی جگہ ولی عہدی بنوایا اور اُس ملک میں سے جوہارون کی وصیت اور تقسیم کے موافق مامون کا تھا، ایک حصہ کترلینا چاہا، عہد نامے کوخانہ کعبہ سے منگواکر چاک کردینے کی حرکت بھی امین نے فضل بن ربیع کے مشورے سے کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خاندانِ عباسیہ کے تمام بااثر اراکین امین سے بدگمان وبددل ہوگئے۔ اگرذرانظرِ غور سے دیکھا جائے توان تمام مصائب اور تمام نقصانات کا جوکہ عالمِ اسلام کوپہنچے، سبب ہارون الرشید تھا، ہارون الرشید کے غلط اور قابل ملامت کاموں میں سب سے زیادہ اور قابل ملامت کام یہی تھا کہ اس نے اپنے جانشین کے انتخاب میں غلط رویہ اختیار کیا اور یہ جانتے ہوئے کہ امین کے مقابلہ میں مامون زیادہ لائق اور مستحق خلافت ہے امین کومامون پرمقدم رکھا، ہارون کی طرف سے یہ عذر پیش کیا جاسکتا ہے کہ امین نجیب الطرفین اور خالص ہاشمی تھا؛ لیکن مامون کی ماں مجوسی النسل تھی اس لیے مامون سے اندیشہ تھا کہ وہ عربی عنصر کوزیادہ کمزور کرکے ایرانیوں کے اقداروقوت کواور زیادہ بڑھا دے گا، امین کواس لیے اپنا جانشین منتخب کیا تھا کہ وہ خالص ہاشمی اور عربی ہونے کی وجہ سے ہارون الرشید کی اس پالیسی کوجواُس نے آخرعمر میں آختیار کی تھی کہ ایرانیوں کے زور کوتوڑ دیا جائے کامیاب بناسکے گا؛ مگراس پالیسی کوکامیاب بنانے کے لیے امین کا دل ودماغ موزوں نہ تھا اور ہارون کواس کا اندازہ بخوبی تھا؛ کیونکہ اپنے آخرِ ایام حیات میں وہ مامون کی قابلیت اور امین کی نااہلیت سے بخوبی واقف ہوچکا تھا؛ اگراور بھی زیادہ گہری نظر سے دیکھا جائے گوہارون الرشید کی بھی کوئی خطا نہیں تھی؛ بلکہ شروع ہی سے عباسیوں نے جوطرزِ عمل اختیا رکیا، اس کا لازمی نتیجہ یہی تھا جوظہور میں آیا، عباسیوں نے اوّل اہلِ خراسان کوحصولِ مقصد کا ذریعہ بناکر عربوں کی مخالفت کی اور عربوں کے اثرواقتدار کے مٹانے میں ساری طاقت صرف کرکے خراسانیوں کوجونومسلم تھے طاقتوربنادیا، ابومسلم کوجوحکم عباسی مقتداء کی طرف سے دیا گیا تھا ا سکا ذکر اوپر آچکا ہے کہ کسی عربی بولنے والے کوزندہ نہ چھوڑا جائے؛ چنانچہ ابومسلم نے چھ لاکھ عربوں کوخراسان وایران میں موت کے گھاٹ اُتاردیا، علویوں اور عباسیوں کی متفقہ کوششیں جوبنواُمیہ کے خلاف جاری تھیں وہ شروع ہی سے اہلِ عرب کے اثروقوت کواور خراسانیوں، فارسیوں اور عراقیوں کوطاقتور بنانے والی تھیں، ہرایک سازش جوبنواُمیہ کے خلاف کامیاب ہوئی اُس میں عراقیوں اور خراسانیوں ہی سے امداد لی گئی، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بنواُمیہ کی بربادی عمل میں آئی توعلوی دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے اور عباسی خلافت وحکومت کے مالک ہوگئے، اب علویوں نے عباسیوں کی مخالفت شروع کی اور سازشوں کا سلسلہ برابر جاری رہا توعلویوں کوبھی عراقیوں اور خراسانیوں ہی سے امداد ملی۔ جن لوگوں کوشروع میں بنواُمیہ کے خلاف عربوں کے قتل کرنے پرآمادہ کیا گیا تھا وہی اب عباسیوں کے لیے موجب مشکلات بن گئے، منصور عباسی کے زمانے تک خراسانیوں کا عروج برابر ترقی پذیر رہا، صرف مہدی کے چند سالہ عہد حکومت میں مجوسی النسل لوگوں کی ترقی رکی رہی اور عربوں کی کچھ کچھ قدردانی ہوئی، ہادی وہارون کے زمانے میں مجوسی النسل لوگ برابر ترقی کرتے اور اپنی قوت بڑھاتے رہے، ہارون نے اپنے آخر ایامِ حکومت میں اس بات کومحسوس کیا کہ عربوں کے کمزور کردینے سے ہم نے خود اپنا بھی بہت سانقصان کرلیا ہے وہ اس کی تلافی کے درپے ہوا مگر اس کوموت نے زیادہ مہلت نہ دی، امین کی خلافت میں عربوں کا مرکزقوت امین اور خراسانیوں کا مرکز قوت مامون بن گیا، یعنی امین ومامون کے ذریعہ عربی النسل گروہوں کا مقابلہ ہوا، امین چونکہ ذاتی طور پرناقابل اور مامون اس کی نسبت زیادہ سمجھ دار تھا؛ لہٰذا عربی گروہ کوشکست ہوئی اور مجوسی النسل لوگ حکومتِ اسلامیہ کے مالک بن گئے۔ انھیں خراسانیوں اور مجوسی النسل لوگوں نے مامون کواپنا بناکر اور سلطنت کی مشین کواپنے قبضے میں لے کرچاہا کہ مامون کے بعد حکومت علویوں کے سپرد کردیں؛ مگرقدرتی طور پرایسے اسباب پیش آگئے کہ وہ کامیاب نہ ہوسکے اور حکومت وخلافت عباسیہ خاندان ہی میں رہی آخر اُنھیں خراسانیوں اور نومسلم ترکوں نے زیادہ حوصلہ مند بن کرخود خلافتِ اسلامیہ کے تکے بوٹی کرکے الگ الگ اپنی حکومتیں قائم کیں جس کی تفصیل آئندہ ابواب میں آنے والی ہے، خلاصۂ کلام یہ کہ خلافتِ اسلامیہ میں باپ کے بعد بیٹے کے ولی عہد ہونے اور وراثت کے قائم ہونے کی لعنت تمام مفاسد، تمام مصائب، تمام معائب کی بنیاد ہے اور اسی بدعت نے مسلمانوں کوسب سے زیادہ نقصان پہنچایا اور حکومتِ اسلامیہ کے روشن خوبصور چہرے کوہمیشہ گرد آلود رکھا، امین کی خلافت کے زمانہ کی بدتمیزیاں بھی اسی وراثتِ خلافت کی لعنت کا نتیجہ تھیں۔ ۸۰عجیب اتفاق کی بات ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت امام حسن علیہ السلام، امین الرشید تین خلیفہ ماں اور باپ دونوں کی طرف سے ہاشمی تھے، یعنی ان ہرسہ خلفاء کی مائیں بھی ہاشمیہ تھیں اور تینوں کے لیے خلافت بہ حسب ظاہر راس نہ آئی، یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا تمام عہدِ خلافت اندرونی جھگڑوں اور مسلمانوں کی آپس کی لڑائیوں میں گزرا اور انجام کار ایک شقی نے اُن کوشہید کردیا، حضرت امام حسن علیہ السلام نے خلافت کوخود چھوڑ دیا؛ تاہم وہ بھی زہر سے شہید ہوئے، امین کا بھی تمام زمانۂ خلافت لڑائی جھگڑوں میں بسر ہوا اور وہ بھی قتل کیا گیا۔