انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** امام نسائی ؒ کی تصنیفات سنن نسائی کا اطلاق آپ کی سنن کبریٰ پر بھی ہوتا ہے اور سننِ صغریٰ پر بھی، یہ کتاب سنن نسائی جو دورۂ حدیث میں داخل ہے یہ سنن صغریٰ ہے، اس کا نام المجتبیٰ بھی ہے، ان کی کتاب خصائص علی اور کتاب الضعفاء والمتروکین بھی بارہا شائع ہوچکی ہے، صحت کے لحاظ سے سنن نسائی صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بعد تیرے درجہ کی کتاب ہے، رجال کی تنقید میں کہیں آپ امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ سے بھی زیادہ سخت ہوجاتے ہیں، کتاب الضعفاء والمتروکین کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ جرح کرنے میں متشددین میں سے تھے، اسماء وکنی کی تعیین میں آپ اور امام ترمذیؒ ایک سے چلتے ہیں۔ سنن نسائی کوامام نسائیؒ سے ابن السنی، ابن الاحمر، ابوعلی السیوطی اور دیگر کئی محدثین نے روایت کیا ہے، برِصغیر ہندوپاک میں سنن نسائی کا جونسخہ رائج ہے وہ ابن السنی کی روایت سے ہے، دوسرے نسخوں میں امام نسائی کا دوواسطوں سے حضرت امام ابوحنیفہؒ سے حدیث روایت کرنا ثابت ہے۔ (امام نسائی کہتے ہیں "حدثنا علی بن حجر حدثنا عیسیٰ ھوابن یونس عن النعمان یعنی اباحنیفۃ عن عاصم عن ابی رزین عن ابن عباس" (تہذیب:)) جس طرح جامع ترمذی امام ابن حزم کی دسترس سے باہر رہی، سنن نسائی امام بیہقیؒ کے مطالعہ میں نہ آسکی، علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "ولم یکن عندہ سنن النسائی ولاجامع الترمذی ولاسنن ابن ماجہ"۔ (تذکرۃ الحفاظ:۳/۱۱۳۲، شاملہ،موقع یعسوب) ترجمہ: آپ کے پاس سنن نسائی، جامع ترمذی اور سنن ابنِ ماجہ تینوں کتابیں نہ تھیں۔ امام بیہقی کی اگران کتابوں پر نظر ہوتی توشافعیت میں وہ اس قدر متشدد نہ ہوتے، سنن نسائی کے تراجم صحیح بخاری کے تراجم کے انداز پر ہیں، بعض جگہ لفظاً لفظاً ایک ہیں، یہ تراجم امام نسائی کے فقہی نظر کے آئینہ دار ہیں، امام نسائی کے تراجم بعض مقامات پر متن سے متعلق نہیں سند سے متعلق بھی ہوتے ہیں اور یہ بات صحیح بخاری کے تراجم میں نہیں، اس پہلو سے سنن نسائی ایک بے مثال کتاب ہے۔