انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** دروغ گوئی وبدعہدی دروغ گوئی، بدعہدی اور جھوٹی قسمیں کھانا ان کا شیوہ تھا: سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ۔ (المائدۃ:۴۱) ترجمہ: یہ لوگ غلط باتوں کے سننے کے عادی ہیں۔ اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً۔ (المجادلۃ:۱۶) ترجمہ:انھوں نے اپنی قسموں کوڈھال بنارکھا ہے۔ عہدنبوی میں ان کی دروغ گوئی اور بدعہدی کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں، معاہدہ کے ذکر میں، اس کی تفصیل آئے گی؛ اسی طرح وہ فواحش اور بے حیائی سے بھی باز نہیں رہتے تھے، عرب عورتوں کوچھیڑا کرتے تھے اور ان سے کھلا ہوا مذاق کرتے تھے، کعب بن اشرف ان کا مشہور شاعر اس میں بے حد بنام تھا، ایک مرتبہ ایک انصاری بزرگ نے اس سے قرض مانگا تواُس نے ان سے برجستہ کہا کہ اس کے بدلے اپنی بیوی کومیرے یہاں گروی رکھ دو، اس کی دنائت اور اس کا سفلہ پن اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ ازواجِ مطہرات اور صحابیات کا نام لے کرتشبیب (یعنی وہ اشعار جن میں حسن وعشق کے جذبات ظاہر کیے جائیں) کرتا تھا۔ (طبقات الشعراء:۱۱۰) ایک برائی ان میں یہ بھی تھی کہ اگرکوئی شریف ومعزم آدمی زناکرتا تواُّ کوچھوڑدیتے اور اگرکوئی معمولی اور کم رتبہ آدمی اس کا ارتکاب کرتا تواس کوسزا دیتے۔ (مسلم، باب رجم یہود) ان میں خودغرضی اور قساوتِ قلبی بھی حددرجہ تھی جس کا مظاہرہ دن رات ہوتا رہتا تھا؛ حتی کہ وہ اپنے یہودی بھائیوں کوگھر سے نکال دیتے، اسی خود غرضی کی وجہ سے وہ آپس میں برابر لڑکے بھڑتے رہتے تھے؛ یہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف اپنے دشمنوں تک کومدد دیتے تھے، قرآن نے ا نکے ان معائب کی تصویر ان الفاظ میں کھینچی ہے: تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ۔ (البقرۃ:۸۵) ترجمہ:تم ایک دوسرے قتل وقتال بھی کرتے ہو اور ایک دوسرے کوگھروں سے نکال دیتے ہو۔ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى۔ (الحشر:۱۴) ترجمہ:تم ان کومتفق خیال کرتے ہو؛ حالانکہ ان کے دل آپس میں متفق نہیں ہیں۔ اس سلسلہ میں حضرت عبدللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت مسنداحمد میں ہے، آپ نے فرمایا کہ جاہلیت میں یہود دوگروہ میں بٹ گئے تھے، ان میں ایک غالب تھا اور دوسرا مغلوب، جب غالب گروہ کا کوئی آدمی قتل کیا جاتا تواس کی دیت مغلوب کوزیادہ دینی پڑتی اور اگرمغلوب کا کوئی آدمی قتل ہوجاتا تواس کی دیت کم ملتی، جاہلیت میں تومغلوب گروہ اس ظلم کوبرداشت کرتا رہا؛ مگررحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد، ایک بار جب ایسا واقعہ پیش آیا تواس نے زیادہ دیت دینے سے انکار کردیا اور غالب گروہ کے پاس کہلا بھیجا کہ اب نبی موعود صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد ہم یہ ظلم وستم سہنے کے لیے تیار نہیں۔ (مسند:۱/۲۴۶) پھران تمام اخلاقی جرائم پروہ خوش ہوتے اور چاہتے تھے کہ جوخوبیاں ان میں نہیں ہیں ان پربھی ان کی تعریف وتحسین کی جائے: الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا۔ (آل عمران:۱۸۸) ترجمہ:یہ لوگ اپنے اخلاق وکردار پرخوش ہیں اور جوکام انھوں نے نہیں کیا اس پرچاہتے ہیں کہ ان کی تعریف ہو۔ ان کے دینی اور اخلاقی انحطاط کا یہ بہت مجمل خاکہ ہے، اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ جس قوم میں اتنا زیادہ دینی انحطاط اور اتنے زیادہ ذمائم اخلاق ہوں اس کی موجودگی میں کوئی صالح معاشرہ اورپرسکون ماحول کیسے پیدا ہوسکتا ہے؛ چنانچہ جب تک یہودیوں کا معاشی، اقتصادی، سیاسی تغلب او ران کا زور باقی رہا، پورے حجاز اور خصوصیت سے مدینہ میں سکون واطمینان کی فضاپیدا نہ ہوسکی؛ مگرجوں جوں ان کا زور ختم ہوتا گیا امن وسلامتی کی فضا پیدا ہوتی گئی؛ تآنکہ پورا حجاز ان کی ریشہ دوانیوں اور فتنہ انگیزیوں سے پاک وصاف ہوگیا۔ ایسے معائب، مثالب اور ذمائم اخلاق میں گھرے ہونے پربھی اس بدباطن اور کج فطرت قوم کے جتنے افراد بھی حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے وہ اسلام کی بڑی کامیابی ہے؛ ورنہ ایسا دین جس کے قبول کرنے میں کوئی جبروسختی نہ ہو (لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِدین میں کوئی جبر نہیں ہے؛ چنانچہ مدینہ سے یہودی قبائل کے اخراج کے بعد متعدد یہودی موجود تھے جنھوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا؛ لیکن ان سے کوئی تعارض نہیں کیا گیا، بعض کا تذکرہ اس کتاب میں آیا ہے کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ایک جائداد کے متعلق اپنے یہودی رشتہ داروں کووصیت کی تھی) اس میں ایسی تیرہ بخت اور دون فطرتِ قوم کے ایک دوفرد کا داخل ہونا بھی درحقیقت اسلام کا ایک معجزہ ہے۔