انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خلافت کیوں چھوڑی؟ بعض ظاہر بینوں کو یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ حضرت حسنؓ نے اپنی فوج کی کمزوری سے مجبور ہوکر امیر معاویہ ؓ سے صلح کرلی اورکچھ واقعات بھی اس خیال کی تائید میں مل جاتے ہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ نے یہ جلیل القدر منصب محض مسلمانوں کی خونریزی سے بچنے کے لیے ترک نہیں کیا ،گویہ صحیح ہے کہ جس فوج کو لے کر آپ مقابلہ کے لئے نکلے تھے،اس میں کچھ منافق بھی تھے، جنہوں نے عین موقع پر کمزوری دکھائی مگر اس فوج میں بہت سے خارجی العقیدہ بھی تھے، جو آپ کی حمایت میں امیر معاویہؓ سے لڑنا فرض عین سمجھتے تھے؛چنانچہ جب انہوں نے مصالحت کا رنگ دیکھا تو آپ کی تکفیر کرنے لگے۔ (اخبار الطوال:۲۳۰) خود عراق میں چالیس بیالیس ہزار کوفی جنہوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی آپ کے ایک اشارہ پر سرکٹانے کے لئے تیار تھے (ابن عسا کر :۲/۲۱۹) عراق تو عراق سارا عرب آپ کے قبضہ میں تھا،مصالحت وغیرہ کے بعد ایک مرتبہ بعض لوگوں نے آپ کو خلافت کی خواہش سے متہم کیا، آپ نے فرمایا کہ عرب کے سر میرے قبضہ میں تھے جس سے میں صلح کرتا اس سے وہ بھی کرتے اور جس سے میں جنگ کرتا اس سے وہ لڑتے ؛لیکن اس کے باوجود میں نے خلافت کو خالصۃً للہ اورامت محمدی کی خونریزی سے بچنے کے لئے چھوڑا۔ (مستدرک حاکم:۳/۱۷) خود آپ کی فوج میں ان چند منافقوں کے علاوہ جنہوں نے بعض مخفی اثرات سے عین وقت پر دھوکا دیا تھا،باقی پوری فوج کٹنے مرنے پر آمادہ تھی،ابو عریق راوی ہیں کہ ہم بارہ ہزار آدمی حضرت حسنؓ کے مقدمۃ الجیش میں کٹنے اورمرنے کے لئے تیار تھے اور شامیوں کی خون آشامی کے لئے ہماری تلواروں کی دھار وں سے خون ٹپک رہا تھا، جب ہم لوگوں کو صلح کی خبر معلوم ہوئی تو شدت غضب ورنج سے معلوم ہوتا تھا کہ ہماری کمر ٹوٹ گئی ،صلح کے بعد جب حسنؓ کوفہ آئے تو ہماری جماعت کے ایک شخص ابو عامر سفیان نے غصہ میں کہا "السلام علیک یا مذلل المومنین" مسلمانوں کے رسواکرنے والے السلام علیک،اس طنزیہ اورگستاخانہ سلام پر اس صبر وتحمل کے پیکر نے جواب دیا، ابو عامر ایسا نہ کہو میں نے مسلمانوں کو رسوا نہیں کیا البتہ ملک گیری کی ہوس میں مسلمانوں کی خونریزی پسند نہیں کی۔ (استیعاب :۱/۴۳ اور مستدرک حاکم،جلد۳،تذکرہ حضرت حسنؓ ) امام نووی لکھتے ہیں کہ چالیس ہزار سے زیادہ آدمیوں نے حسنؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور وہ سات مہینہ حجاز، یمن،عراق اورخراسان وغیرہ پر حکمران رہے اس کے بعد معاویہؓ شام سے ان کے مقابلہ کو نکلے جب دونوں قریب ہوئے تو حضرت حسنؓ کو اندازہ ہوا کہ جب تک مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کام نہ آجائے گی اس وقت تک کسی فریق کا غلبہ پانا مشکل ہے، اس لئے چند شرائط پر آپ امیر معاویہؓ کے حق میں دست بردار ہوگئے اوراس طرح رسول اللہ ﷺ کا یہ معجزہ ظاہر ہوگیا کہ میرا یہ لڑکا سید ہے اور خدا اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دوسرے فرقوں میں صلح کرائے گا۔ شیعان علیؓ اس صلح کو جس نظر سے دیکھتے تھے اوراس کے بارہ میں ان کے جو جذبات تھے ان کا اندازہ ان خطابات سے ہوسکتا ہے جس سے وہ اس سردار خلد برین کو مخاطب کرتے تھے "مذل المومنین" مسلمانوں کو رسوا کرنے والے "مسود وجوہ المسلمین" مسلمانوں کو روسیاہ کرنے والے،"عارالمومنین" ننگ مسلمین یہ وہ خطابات تھےجن سے حضرت حسنؓ کو خطاب کیا جاتا تھا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عام لوگ صلح اور دستبرداری کو کس درجہ ناپسند کرتے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت حسنؓ ایسے امن پسند،صلح جو نرم خو تھے کہ انہوں نے اول یوم ہی سے ارادہ کرلیا تھا کہ اگر بلا کسی خونریزی کے انہیں ان کی جگہ مل گئی تو لے لیں گے ورنہ اس کے لئے مسلمانوں کا خون نہ بہائیں گے، طبری کا بیان ہے کہ حسنؓ کے ساتھ چالیس ہزار آدمی تھے،لیکن آپ جنگ کرنا نہیں چاہتے تھے ؛بلکہ آپ کا خیال تھا کہ امیر معاویہؓ سے کچھ مقرر کراکے دستبردار ہوجائیں۔ چنانچہ جس وقت آپ نے عراقیوں سے بیعت لی تھی،اسی وقت اس عزم کو اشارۃ ظاہر فرمادیا تھا، زہری لکھتے ہیں کہ امام حسنؓ نے اہلِ عراق سے بیعت لیتے وقت یہ شرط کرلی تھی کہ تم کو پورے طور سے میری اطاعت کرنی ہوگی ،یعنی جس سے میں لڑوں گا اس سے لڑنا ہوگااور جس سے صلح کروں گا اس سے صلح کرنی پڑیگی اس شرط سے عراقی اسی وقت کھٹک گئے تھے کہ آپ آئندہ جنگ و جدال ختم کردیں گے ؛چنانچہ اسی وقت ان لوگوں نے آپس میں کہا تھا کہ ہمارے خیال کے آدمی نہیں اور لڑنا نہیں چاہتے،اس کے چند روز بعد آپ کو زخمی کردیا گیا۔ حضرت حسنؓ نے اپنے گھر والوں پر بھی یہ خیال ظاہر فرمادیا تھا ،ابن جعفر کا بیان ہے کہ صلح کے قبل میں ایک دن حسنؓ کے پاس بیٹھا تھا جب چلنے کا ارادہ سے اٹھا تو انہوں نے میرا دامن کھینچ کر بٹھا لیا، اورکہا میں نے ایک رائے قائم کی ہے امید ہے کہ تم بھی اس سے اتفاق کروگے،ابن جعفر نے پوچھا کونسی رائے ہے؟ فرمایا میں خلافت سے دستبردار ہوکر مدینہ جانا چاہتا ہوں کیونکہ فتنہ برابر بڑھتا جاتا ہے ،خون کی ندیاں بہہ چکی ہیں ،عزیز کو عزیز کا پاس نہیں ہے،قطع رحم کی گرم بازاری ہے، راستے خطرناک ہورہے ہیں، سرحدیں بے کار ہوگئی ہیں،ابن جعفرؓ نے جواب دیا، خدا آپ کو امت محمدی کی خیر خواہی کے صلہ میں جزائے خیر دے،اس کے بعد آپ نے حسینؓ کے سامنے یہ رائے ظاہر کی،انہوں نے کہا، خدا را علیؓ کو قبر میں جھٹلا کر معاویہؓ کی سچائی کا اعتراف نہ کیجئے، آپ نے یہ سن کر حسینؓ کو ڈانٹا کہ تم شروع سے آخرتک برابر میری ہر رائے کی مخالفت کرتے چلے آرہے ہو،خدا کی قسم میں طے کرچکا ہوں کہ تم کو فاطمہؓ کے گھر میں بند کرکے اپنا ارادہ پورا کروں گا، حسینؓ نے بھائی کا لہجہ درشت دیکھا تو عرض کیا آپ علیؓ کی اولاد اکبر اورمیرے خلیفہ ہیں،جو رائے آپ کی ہوگی وہی میری ہوگی،جیسا مناسب فرمائے کیجئے اس کے بعد آپ نے دستبرداری کا اعلان کیا۔ (ابن عساکر :۴/۲۲۱/۲۲۲) ان واقعات سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ خلافت سے دستبرداری میں فوج کی کمزوری وغیرہ کا چنداں سوال نہ تھا؛بلکہ آپ کو اس کا یقین ہوگیا تھا کہ بغیر ہزاروں مسلمانوں کے خاک وخون میں تڑپے ہوئے کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا اورجنگ جمل سے لے کر برابر مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہتی چلی آرہی ہیں، اس لئے آپ نے اسے روکنے کے لئے خلافت کو خیر باد کہہ کر مدینہ کی عزلت نشینی اختیار فرمائی:فجزاہ اللہ عن المسلمین خیر الجزاء