انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مقابلہ کے لئے آمادگی اور واپسی حضرت حسنؓ اس وقت کوفہ میں تھے آپ کو عبداللہ بن عامر کی پیش قدمی کی خبر ہوئی تو آپ بھی مقابلہ کے لئے کوفہ سے مدائن کی طرف بڑھے، ساباط پہنچ کر اپنی فوج میں کمزوری اورجنگ سے پہلو تہی کے آثار دیکھے اس لئے اسی مقام پر رک کر حسبِ ذیل تقریر کی: "میں کسی مسلمان کے لئے اپنے دل میں کینہ نہیں رکھتا اور تمہارے لئے بھی وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں،تمہارے سامنے ایک رائے پیش کرتا ہوں، امید ہے کہ اسے مسترد نہ کروگے جس اتحاد ویکجہتی کو تم ناپسند کرتے ہو وہ اس تفرقہ اوراختلاف سے کہیں افضل و بہتر ہے،جسے تم چاہتے ہو میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میں سے اکثر اشخاص جنگ سے پہلو تہی کررہے ہیں اور لڑنے سے بزدلی دکھا رہے ہیں میں تم لوگوں کو تمہاری مرضی کے خلاف مجبور کرنا نہیں چاہتا" یہ خیالات سن کر لوگ سناٹے میں آگئے اورایک دوسرے کا منہ تکنے لگے،اگرچہ کچھ لوگ جنگ سے پہلو تہی کررہے تھے تاہم بہت سے خارجی عقائد کے لوگ جو آپ کے ساتھ تھے وہ معاویہؓ سے لڑنا فرض عین سمجھتے تھے،انہوں نے جب یہ رنگ دیکھا تو حضرت علیؓ کی طرح حضرت حسنؓ کو بھی برا بھلا کہنے لگے اوران کی تحقیرکرنی شروع کردی اورجس مصلیٰ پر آپ تشریف فرماتے تھے حملہ کرکے اسے چھین لیا اورپیراہن مبارک کھسوٹ کر گلے سے چادر کھینچ لی حضرت حسنؓ نے یہ برہمی دیکھی تو گھوڑے پر سوار ہوگئے اور ربیعہ و ہمدان کو آوازدی انہوں نے بڑھ کر خارجیوں کے نرغہ سے چھڑایا اورآپ سیدھے مدائن روانہ ہوگئے راستہ میں جراح بن قبیصہ خارجی حملہ کی تاک میں چھپا ہوا تھا، حضرت حسنؓ جیسے ہی اس کے قریب سے ہوکر گزرے اس نے حملہ کرکے زانوئے مبارک زخمی کردیا، عبداللہ بن خطل اورعبداللہ بن ظبیان نے جو امام کے ساتھ تھے جراح کو پکڑکر اس کا کام تمام کردیا اورحضرت حسنؓ مدائن جاکر قصر ابیض میں قیام پذیر ہوگئے اورزخم بھرنے تک ٹھہرے رہے،شفایاب ہونے کےبعد پھر عبداللہ بن عامرکے مقابلہ کے لئے تیار ہوگئے اس دوران میں امیر معاویہؓ بھی انبار پہنچ چکے تھے اور قیس بن عامر کو جو حضرت حسنؓ کی طرف سے یہاں متعین تھے گھیرلیا تھا ادھر معاویہؓ نے قیس کا محاصرہ کیا دوسری طرف حضرت حسنؓ اورعبداللہ ابن عامر بالمقابل آگئے،عبداللہ اس موقع پر یہ چال چلا کہ حضرت حسنؓ کی فوج کو مخاطب کرکے کہا کہ عراقیو! میں خود جنگ نہیں کرنا چاہتا،میری حیثیت صرف معاویہؓ کے مقدمۃ الجیش کی ہے اور وہ شامی فوجیں لے کر خود انبار تک پہنچ چکے ہیں، اس لئے حسنؓ کو میرا سلام کہہ دو اورمیری جانب سے یہ پیام پہنچا دو کہ ان کو اپنی ذات اوراپنی جماعت کی قسم جنگ ملتوی کردیں عبداللہ بن عامر کا یہ افسوں کار گر ہوگیا،حضرت حسنؓ کے ہمراہیوں نے اس کا پیام سنا تو انہوں نے جنگ کرنا مناسب نہ سمجھا اور پیچھے ہٹنے لگے، حضرت حسنؓ نے اسے محسوس کیا،تو وہ پھر مدائن لوٹ گئے۔