انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جہنم میں داخل ہونے کے بعد دوزخیوں کا استقبال اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں: "ثُمَّ إِنَّكُمْ أَيُّهَا الضَّالُّونَ الْمُکَذِّبُونَ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ ، فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ ، فَشَارِبُونَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَمِيمِ ، فَشَارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ، هَذَا نُزُلُهُمْ يَوْمَ الدِّينِ" (الواقعہ:۵۱،۵۲) (ترجمہ)پھراے جھٹلانے والے گمراہو!تم لوگوں کو ایک ایسے درخت میں سے کھانا پڑےگاجس کا نام زقوم ہے ،پھر اسی سے پیٹ بھرنے ہوں گے ،پھراس کےاو پرسے کھولتا ہوا پانی پیناپڑے،اور پینا بھی اس طرح جیسے پیاس کی بیماری والے اونٹ پیتے ہیں،یہ ہوگی جزا وسزا کے دن ان لوگوں کی مہمانی ۔ (فائدہ)"نزل"اس مہمانی کو کہتے ہیں جو مہمان کی آمد پر تیار کی جائے،یہ آیات اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ دوزخیوں کو ان کے جہنم میں داخل ہونے کے بعد زقوم کا درخت کھانے کو اور جلتا ہوا پانی پینے کو دیا جائے گا اورانہیں جہنم کی طرف پیاسا ہنکایا جائے گا جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں۔ "وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَى جَهَنَّمَ وِرْدًا" (مریم:۸۶) (ترجمہ)اور ہم لوگوں کو جہنم کی طرف پیاسا ہانکیں گے۔ ابوعمران جونی فرماتے ہیں کہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ اہل دوزخ کو(قبروں سے) پیاسا اٹھایا جائے گا اور میدان قیامت میں بھی وہ پیاسے ہی کھڑے ہوں گے پھر انہوں نے "وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَى جَهَنَّمَ وِرْدًا"کی تلاوت کی۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت مجاہد فرماتے ہیں ان کی گردنیں پیاس کے مارے گری ہوئی ہوں گی۔ (حدیث)حضورﷺ سے شفاعت کی طویل حدیث میں مروی ہے: انہ یقال للیھود والنصاری: مَاذَا تَبْغُونَ فَيَقُولُونَ عَطِشْنَارَبَّنَافَاسْقِنَاقَالَ فَيُشَارُإِلَيْهِمْ أَلَاتَرِدُونَ فَيُحْشَرُونَ إِلَى جَهَنَّمَ کَأَنَّهَا سَرَابٌ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ. (بخاری ومسلم) (ترجمہ)یہودونصاری سے پوچھا جائے گا تم کیا چاہتے ہو؟تو وہ کہیں گے اے ہمارے رب !ہم پیاسے ہیں ہمیں پانی پلادیجئے تو ان کو اشارہ ہوگا کہ تم چلتے کیوں نہیں؟ تو انہیں جہنم کی طرف چلایا جائے گا جو انہیں دور سے پانی کی طرح نظر آئے گی تو وہ ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوجائیں گے بس(اسی حالت میں ہی) وہ آگ میں جاگریں گے۔ (محدث)حضرت ایوب(سختیانیؒ)حضرت حسن (بصریؒ)سے نقل کرتے ہیں کہ تمہارا کیا خیال ہے اس قوم کے متعلق جو اپنے پاؤں کے بل پچاس ہزار سال تک کھڑی رہے ایک لقمہ تک نہ کھائے اور(پانی کا)ایک گھونٹ تک نہ پئے یہاں تک کہ ان کی گردنیں پیاس سے ٹوٹ چکی ہوں اور ان کے دل بھوک سے جل چکے ہوں پھر انہیں (ہمیشہ کے لئے)آگ میں ڈالدیا جائے اورجلتے ہوئے پانی کے چشمے سے پانی پلایا جائے اس کی گرمی تیز ہوچکی ہو اور اس کا بھوننا انتہاء کو پہنچ چکا ہو۔ امام ابن مبارک اپنی سند سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت کعب نے فرمایا کہ اللہ تعالی روز قیامت جس بندے کی طرف غضبناک ہوکر دیکھیں گے تو فرمائیں گے اس کو پکڑلو،تو اسے ایک لاکھ یا اس سے زائد فرشتے پکڑلیں گے اور اس کے سر کو اور پاؤں کو خدا کے غضب کی وجہ سے غصہ میں آکر جمع کردیں گے پھر اسے جہنم میں منہ کے بل گھسیٹے ہوں گے، حضرت کعبؓ نے فرمایا کہ وہ ایک دفعہ کے لئے پانی کی فریاد کرے گا تو اسے ایک دفعہ پانی پلادیا جائے گا جس کے عذاب سے اس کا گوشت اورپٹھے(تک)گرپڑیں گے،پھر اسے آگ میں بھردیا جائے گا یا اوندھے منہ ڈالدیا جائے گا،ایسے لوگوں کے لئے جہنم میں ہلاکت (ہی ہلاکت) ہوگی۔ ابن مبارکؒ (ہی) فرماتے ہیں کہ بعض اہل مدینہ سے حدیث منقول ہے کہ جب اس جہنمی کو فرشتے پکڑیں گے تو وہ ان کے ہاتھوں ہی میں بکھر جائے گا اور فریاد کرے گا کہ تم مجھ پر رحم نہیں کھاتے؟تو وہ جواب دیں گے کہ ہم تجھ پر کیسے رحم کھائیں جبکہ خود سب سے بڑے مہربان (اللہ)نے تم پر رحم نہیں کھایا۔ امام اعمشؒ حضرت مالک بن الحارث سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا جب کسی آدمی کو دوزخ میں ڈالا جائے گا تو وہ اس میں گرتا رہے گا پس جب وہ دوزخ کے کسی دروازے تک جارکے گا تو حکم ہوگا کہ یہاں پر ٹھہرجاؤ یہاں تک کہ مہمانی دی جائے، فرمایا کہ اسے بڑے بڑے سیاہ سانپوں اور بچھوؤں کے زہر کا پیالہ پلایاجائے گا جس سے اس کی جلد،بال،پٹھے اوررگیں الگ الگ ہوجائیں گی۔ (ابن ابی حاتم) (حدیث)حضرت ابوہریرہؓ حضورﷺ سے نقل فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: "إِنَّ جَهَنَّمَ لَمَّا سِيقَ إِلَيْهَا أَهْلُهَا تَلَقَّتْهُمْ فَلَفَحَتْهُمْ لَفْحَةً، لَمْ تَدَعْ لَحْمًا عَلَى عَظْمٍ إِلا أَلْقَتْهُ عَلَى الْعُرْقُوب" (المعجم الکبیر للطبرانی،باب قطعۃ من المفقود:۱۹/۲۹۵) (ترجمہ)جب دوزخ کی طرف دوزخیوں کو چلایا جائے گا جب وہ ان کے سامنےآئے گی تو ان کو(پہلی بار)ایسا جھلسادے گی کہ ہڈیوں پر گوشت کو باقی نہ چھوڑے گی مگر اسے(ان کی) ایڑیوں پر ڈالدے گی۔ اسی طرح کی ایک روایت حضرت ابوہریرہؓ کی فرمان باری تعالی"لَوَّاحَةٌ لِلْبَشَرِ" کی تفسیر میں بھی منقول ہے۔