انوار اسلام |
س کتاب ک |
قرضہ جات یا بینک میں موجود رقم وغیرہ کی زکوۃ قرض پرلگائی ہوئی رقم شریعت میں جورقم یاچیز کسی کے ذمہ باقی ہو اسے دین کہتے ہیں، زکوٰۃ کے احکام کے لحاظ سے یہ دین چار قسم کے ہیں: (۱)وہ قرض جوکسی شخص کودیا گیا ہو یاتاجر نے وہ سامان جوتجارت ہی کے لیے تھا بیچا ہو اور اس کی قیمت باقی ہو؛ اگریہ رقم کل کی کل ایک ساتھ مل جائے توسبھوں کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی اور اگر کئی سالوں کے بعد ملی توتمام سالوں کی بیک وقت ادا کی جائے گی؛ اگریہ رقم تھوڑی تھوڑی وصول ہو توجتنا روپیہ وصول ہواتنے کی زکوٰۃ ادا کرتا جائے؛ لیکن اگریہ رقم نصاب زکوٰۃ کے ۱/۵ سے بھی کم ہوتوپھرزکوٰۃ واجب نہیں ہوگی..... اس کوفقہ کی اصطلاح میں دینِ قوی کہتے ہیں۔ (۲)دوسری صورت یہ ہے کہ کسی سامان کی قیمت توباقی ہو لیکن وہ سامان اصلاً تجارت کے لیے نہیں تھا؛ اس مال پربھی اسی وقت زکوٰۃ واجب ہوگی جب وصول ہوجائے اور وصولی کے بعد اس پوری مدت کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی جب سے اس نے وہ سامان بیچا تھا؛ البتہ اس رقم پراسی وقت زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی جب یہ تمام رقم اکٹھی وصول ہوجائے اور زکوٰۃ کے نصاب کی مقدار کو پہنچ جائے؛ اگرتھوڑی تھوڑی رقم وصول ہوتی رہے، کبھی سوکبھی دوسو، کبھی چارسو تواس میں زکوٰۃ نہیں ہوگی؛ اسی باقی رقوم کودینِ وسط کہتے ہیں۔ (۳)ایسی رقمیں جوکسی مال کے بدلے میں باقی نہ ہوں، جیسے مہر کی رقم کہ وہ کسی مال کے عوض میں نہیں ہے؛ بلکہ عورت کی عصمت کا معاوضہ ہے اس پرزکوٰۃ اس وقت واجب ہوگی جب مال پرقبضہ ہوجائے اور قبضہ کے بعد ایک سال گزر جائے..... فقہ کی اصطلاح میں اس کودینِ ضعیف کہتے ہیں۔ (۴)ایسا قرضہ جس کی وصولی یاایسا مال جس کو حاصل کرنا دشوار ہو اس پربھی زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی؛ ہاں اگرغیرمتوقع طور پرکبھی وہ مال وصول ہوگیا تواب اس پوری مدت کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی..... فقہ کی اصطلاح میں اس کومال ضمار کہا جاتا ہے۔ یہ فقہی احکام گواپنی نوعیت کے لحاظ سے جدید نہیں ہیں؛ مگرآج کل بقایا جات اور دین کی جومختلف صورتیں نئے معاشی نظام اور طریقِ انتظام کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہیں ان اصولی احکام کے ذریعہ ان کوباآسانی حل کیا جاسکتا ہے، وباللہ التوفیق۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۲۱۲،۲۱۳) طویل مدتی دیون کی زکوٰۃ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی طرف سے آج کل ترقیاتی اور صنعتی قرضے فراہم کئے جاتے ہیں طویل مدت میں ان کی ادائیگی مطلوب ہوتی ہے، ان قرضوں کی مقدار توبہت زیادہ وہتی ہے؛ لیکن ہرسال ادا طلب قسط بہت معمولی ہوتی ہے، سوال یہ ہے کہ ایسے قرضے پورے کے پورے منہا کرکے زکوٰۃ واجب ہوگی یاہرسال کی مطلوبہ قسط ہی منہا کی جائے گی اور باقی پورے مال کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی؟ فقہاءِ احناف کے عام اصول کا تقاضہ تویہی ہے کہ ایسی صورت میں پورے قرض کومنہا کیا جائے اس کے بعد جورقم بچ جائے اس میں زکوٰۃ واجب ہو؛ لیکن ایسے طویل مدتی دیون کومستثنیٰ کرنے میں فقراء کواپنے حق سے محروم ہونا پڑتا ہے اور صاحب مال کوایک ایسے مال کی زکوٰۃ سے چھوٹ مل جاتی ہے جو اس کے تصرف میں ہے اور جس کی ادائیگی میں اسے بہت مہلت حاصل ہے، اس لیے ان حالات میں سب سے متوازن شریعت کی روح ومقصد سے ہم آہنگ اور معتدل رائے یہ ہے کہ ہرسال قرض کی جوقسط ادا کی جانی ہے صرف وہی مقدار زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہوگی، بقیہ پورے مال میں زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۲۱۳،۲۱۴۔ فتاویٰ عثمانی:۲/۷۰) بینک میں جمع شدہ مال پرزکوٰۃ بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ میں رقم رکھی جائے یافکسڈ ڈپازٹ کی جائے ہردوصورت میں جمع شدہ رقم پرزکوٰۃ واجب ہوگی، زکوٰۃ واجب ہونے کے لیے ملکیت اور قبضہ ضروری ہوتا ہے، بینک میں جمع رقم پرملکیت توجمع کرنے والے کی ظاہر ہی ہے قبضہ بہ ظاہر اس کا نہیں ہے؛ مگرچونکہ اس نے اپنے ارادہ واختیار سے بینک میں رقم جمع کی ہے؛ لہٰذا بینک قبضہ میں اصل مالک کا نائب ہے، اس طرح بالواسطہ جمع کنندہ کا قبضہ بھی ثابت ومتحقق ہے، اس لیے فقہاء نے ازراہِ امانت رکھے گئے مال میں زکوٰۃ واجب قرار دی ہے؛ کیونکہ امین کا قبضہ اصل مالک کا قبضہ ہے...... لہٰذا ہرایسی جمع شدہ رقم پرزکوٰۃ واجب ہوگی جس کومالک نے اپنے اختیار ومرضی سے جمع کیا ہو۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۲۱۶) نابالغ کے نام بینک میں جمع شدہ روپیہ پر زکوٰۃ آج کل جولوگ اپنے نابالغ بچوں کے نام سے بینک وغیرہ میں پیسے جمع کرتے ہیں، اس کا وہ لڑکا مالک ہوجاتا ہے اور نابالغ پرزکوٰۃ واجب نہیں ہوتی؛ لہٰذا اس کی زکوٰۃ نہیں دی جائیگی۔ (ملخص فتاویٰ محمودیہ:۹/۳۳۵) بیوی کا مہر، زکوٰۃ واجب ہونے میں مانع نہیں مقدارِ نصاب کا مالک ہونے کے بعد زکوٰۃ اسی وقت ہوتی ہے، جب آدمی پراتنا زیادہ قرض نہ ہو کہ اس کے ادا کرنے میں نصاب زکوٰۃ باقی نہ رہ سکے، اس قرض سے حقوق اللہ مستثی ہیں، یعنی بندوں پراللہ تعالیٰ کے جوقرض ہیں مثلاً کفارے، صدقہ فطر، سفر حج وغیرہ، ان کے اخراجات منہا کرنے کے بعد اگرمال اتنا نہ رہتا ہو کہ زکوٰۃ واجب ہوسکے توبھی زکوٰۃ واجب ہوگی اور یہ حقوق اللہ زکوٰۃ واجب ہونے میں رکاوٹ نہیں بنیں گے؛ البتہ بندوں کے جوحقوق ہوں ان کی ادائیگی کے بعد اگرنصاب باقی نہ رہتا ہو توزکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، اس کا تقاضا ہے کہ بیوی کے مہر کی رقم وضع کرنے کے بعد اگرنصاب باقی نہ رہ پاتا ہو توزکوٰۃ واجب نہ ہو؛ مگرعملاً چونکہ ہمارے زمانے میں لوگ مہر سے بہت غافل ہوچکے ہیں اور بیویاں عموماً اسے معاف کردیتی ہیں اس لیے اس قرض کی وجہ سے زکوٰۃ پرکوئی اثر نہیں پڑے گا اور زکوٰۃ واجب ہوگی۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۲۲۱)