انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خلفاء اور اجتہاد حضرت ابو بکرؓ قرآن وحدیث کا مطلوب انسان، کتاب وسنت کے معیار پر پورے طور پر اترنے والے افراد، عملی طور پر قرآنی ونبوی ہدایات کے جامع اشخاص کا اگر کوئی متلاشی ہے، تو وہ امت محمدیہ کے اولین گروہ خیرالقرون میں پائے جانے والے ان افراد کو دیکھ لے جنھیں آج دنیا صحابہ کرام کے نام سے جانتی ہے، جنھوں نے فرموداتِ خداوندی وارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو عملی جامہ پہناکر اہل دنیا کے لئے نقش دوام چھوڑا؛ یہی وہ افراد تھے جنھوں نے اشاعت ِاسلام کے لئے خشکی وتری، مشرق ومغرب میں عملی جدو جہدکی؛ انھیں میں ایک نمایاں نام حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے؛ جنھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفروحضر کی معیت نصیب ہوئی؛ بلکہ اسلام سے قبل بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق تھے، آپ کا نام عبداللہ بن عثمان بن ابی قحافہ اور کنیت ابوبکر ہے۔ (اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابۃ: ۲/۱۳۸) آپ رضی اللہ عنہ کو عتیق بھی کہاگیا اس کی کئی وجوہات ذکر کی گئی ہیں یا تو حسن و جمال کی بناء پر یا اس بناء پر کہ آپکے نسب میں کوئی عیب نہیں تھا یا اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایک دفعہ "أنْتَ عَتِیْقُ اللہِ مِنَ النَّارِ" تم آگ سے آزاد ہو کہا تھا۔ (مشکوۃ المصابیح: ۵۵۶۔ اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابۃ: ۲/۱۳۸) واقعۂ اسراء کی تصدیق میں کئی مسلمان تردد کا شکار ہوئے تو ادھرکفار مکہ طعنہ زنی و تکذیب استہزاء میں مصروف اس موقعہ پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی، اسی لئے آپ رضی اللہ عنہ کو صدیق کہا گیا (حوالۂ بالا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا میں نے جس کو بھی اسلام کی دعوت دی اس نے شک و شبہ یا تردد یاکم از کم غور وفکر کی جانب مائل ہوا مگر آپ نے بغیر کسی تردد و غور وفکر کے میری دعوت پر لبیک کہا۔ (اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابۃ: ۲/۱۳۸) اس مختصر سی تحریر میں نہ تو آپ رضی اللہ عنہ کی خصوصیات و فضائل کا تذکرہ مقصود ہے اور نہ ہی آپ رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی سے بحث بلکہ صرف آپ کے اجتہادی شان اور فقہی بصیرت اور فقہی مقام کی مختصر سی نشاندہی اور آپ رضی اللہ عنہ کے اجتہادکی جانب رہنمائی مطلوب ہے، آپ رضی اللہ عنہ کے فتاوی اور آپ سے منسوب مسائل نیز آپ رضی اللہ عنہ کے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے درمیان مختلف فیہ مسائل کا اختصاراً تذکرہ پیشِ نظر ہے۔ واضح رہے کہ اس امت کی ابدیت کا راز جہاد اور اجتہاد ہے؛ اگر اجتہاد کی گنجائش نہ ہوگی تو پیش آمدہ مسائل کاحل قرآن وسنت کی روشنی میں کیسے کیا جائیگا؟ اسی لیے جہاں صدرِ اول میں جہاد کا جذ بہ تھا وہیں اجتہاد کا بھی رواج تھا؛ چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جصاص رازی (متوفی ۳۷۰ھ) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجود گی میں مشورہ سے طے پانے والے امور میں صحابہ کرام کی آراء کو اجتہاد سے تعبیر کیاہے۔ (الفصول فی الاصول: ۳/۱۱۹) لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں مجتہدین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت تھی جنہوں نے انقطاع وحی کے بعد جدید مسائل میں ملت اسلامیہ کی اجتہادہی سے رہنمائی کی؛ انہی میں ایک حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہیں جن کی اجتہادی صلاحیت، اور استنباط کی استعداد اسی وقت آشکار ہوئی جب آ پ نے مانعینِ زکوۃ سے قتال کا حکم صادر فرمایا؛ جبکہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا موقف اس کے برخلاف تھا، صحابہ نے عرض کیا کہ کلمہ گو سے کیسے مقاتلہ کیا جائیگا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خون کو معصوم اور ان کے اموال کو محفوظ شمار کیاہے، اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کلمہ کے حقوق میں سے ایک حق جس طرح نماز ہے اسی طرح زکوۃ بھی ہے، جس نے نماز اور زکوۃ میں فرق کیا یقینا میں اس سے مقاتلہ کروںگا، پھرحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے استدلال پر دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو بھی شرح صدر ہوا اور اسی کو راجح قرار دیتے ہوئے اس پر عمل کیا۔ (الفصول فی الاصول:۲/۳۸۷) ابواسحاق رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مانعین زکوۃ کے تئیں آپ رضی اللہ عنہ کا موقف اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس رائے کی جانب رجوع کر لینا صحتِ استدلال واصابتِ رائے کی دلیل ہے۔ (تاریخ الخلفاء:۱/۱۵) آپ کے صحتِ اجتہاد اور اصابتِ رائے کی تصدیق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمائی ہے، جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ کیا جارہا تھا تو کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مشورہ کیا کہ کن کو یمن روانہ کیا جائے؟ ان صحابہ رضی اللہ عنہم میں ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمررضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ، علی رضی اللہ عنہ اور طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیررضی اللہ عنہ موجود تھے؛ ہرایک نے اپنی اپنی رائے پیش کی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ تمہاری کیا رائے ہے، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواباً کہا کہ مجھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے زیادہ پسند ہے، اس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی آسمان پر اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ غلطی کرجائیں۔ (تاریخ الخلفاء: ۱/۱۷) آپ کی فقہی بصیرت کا اندازہ ابن عمررضی اللہ عنہ کے اس قول سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، " مَنْ کَانَ یُفْتِی النَّاسَ فِی زَمَانِ رَسُوْ لِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: أَبُوْبَکَرٍ وَعُمَرَ مَاأَعْلَمُ غَیْرَھُمَا"۔ (اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ: ۲/۱۴۶۔ تاریخ الخلفاء: ۱/۱۵) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کون فتوی دیاکرتے تھے ؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان دونوں کے علاوہ میں نہیں جانتا؛ نیز علامہ ابن قیم جوزی متوفی ۷۵۱ھ نے آپ کے فتاوی کے سلسلہ میں لکھا ہے: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور امّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی فتاوی کی ایک معتد بہ مقدار مروی ہے؛ اگران میں سے ہرایک کے فتاوی جمع کئے جائیں تو فتاوی کا ایک اچھا خاصہ مجموعہ ہوجائیگا۔ (اعلام الموقعین: ۱/۱۲) نیز علی حیدر آفندی متوفی ۱۳۵۳ھ رقم طراز ہیں "کَانَ یَصْدُرُ بَعْضُ الْأَحْکَامِ بِنَاءً عَلیٰ اِجْتِہَادِہِ"۔ (دررالاحکام فی شرح مجلۃ الاحکام: ۱/۳۵) آپ بعض احکام اپنے اجتہاد کی روشنی میں بھی صادر فرماتے تھے ایک دفعہ آپ نے کلالہ کے سلسلہ میں اجتہاد کرتے ہوئے یوں بیان فرمایا: "فَإِنْ یَکُ صَوَاباً فَمِنَ اللہِ وَرَسُوْلِہِ وَإِنْ یَکُ خَطَأً فَمِنِّی وَمِنَ الشَّیْطَانِ أَرَی الْکَلَالَۃَ مَاخَلَاالوَلَدِ وَالْوَالِدِ"۔ ( مبسوط سرخسی: ۳۲/۲۹۴) "اگر اس اجتہاد سے میں درست بات کہوں تو یہ درستگی اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے ہوگی اور اگر غلطی ہوجائے تو یہ غلطی کی نسبت میرے اور شیطان کی جانب رہے گی"۔ آپؓ کے قیاسی مسائل میں سے ایک مشہور مسئلہ دادا کی وراثت کا مسئلہ ہے، جس سے ان کی اجتہادی قوت کا اندازہ ہوتا ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی میت ورثہ میں صرف داد ا اور بہن بھائی چھوڑے یعنی اصول میں باپ اور فروع میں کوئی نسبی اولاد نہ ہوتو وراثت کا مستحق کون ہوگا، داد ا یابھائی بہن؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ تقریباً چودہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ وغیرہ شامل ہیں، دادا کو باپ کے مرتبہ میں قرار دیکر بھائی بہن کو وراثت کا غیر مستحق قرار دیتے ہیں۔ "بَاب مِيرَاثِ الْجَدِّ مَعَ الْأَبِ وَالْإِخْوَةِ وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَابْنُ عَبَّاسٍ وَابْنُ الزُّبَيْرِ الْجَدُّ أَبٌ"۔ (بخاری شریف: ۲۰/۴۶۳) لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت اس سے اختلاف رکھتی ہے اور بھائی بہن کو اصل وارث قرار دیتی ہے، یہ اختلاف در حقیقت لفظ کلالہ کی تشریح پر مبنی ہے؛ کیونکہ قرآن شریف میں آیا ہے " یَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللہُ یُفْتِیْکُمْ فِیْ الْکَلاَلَۃِ إِنِ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَیْسَ لَہُ وَلَدٌ وَلَہُ أُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ"۔ (النساء:۱۷۶) اس آیت کریمہ میں گویا باپ کی کوئی تصریح نہ ہونے میں اس حد تک سب کا اتفاق ہے کہ کلالہ کی صورت میں باپ کا نہ ہونا ضروری ہے؛ لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ داد ا کا نہ ہونا بھی ضروری قرار دیتے ہیں اور اس آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہیں "وَإِن کَانَ رَجُلٌ یُورَثُ کَلاَلَۃً أَوامْرَأَۃٌ وَلَہُ أَخٌ أَوْأُخْتٌ" (النساء:۱۲) اس آیت میں علاتی بھائی بہنوں کی وراثت کا تذکرہ ہے اور یہاں بالاتفاق "کلالہ" کے یہ معنی ہیں کہ میت کے اصول وفروع میں کوئی نہ ہو، یعنی اگر میت کا دادا موجود ہوگا تو وہ کلالہ نہ ہوگا اور علاتی بھائی محروم ہونگے۔ اس بناء پر کوئی وجہ نہیں کہ کلالہ کی یہی تشریح زیر بحث مسئلہ میں قائم رہے اور بلاوجہ اسکے معنی میں تفریق کی جائے۔ (سیرالصحابہ:۱/۸) آپ کا مسائل میں فیصلہ کا انداز یہ تھا کہ آپ پہلے کتاب اللہ میں غور وفکر کرتے کوئی حکم مل جاتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے ورنہ سنت رسول میں غوطہ زنی کرتے اس میں حکم مل جاتا تو اس کے مطابق فیصلہ کردیتے؛ ورنہ لوگوں سے دریافت کرتے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کسی معاملہ میں فیصلہ کیا ہے ؟ کوئی گواہی دیتا تو اس طرح فیصلہ کردیتے؛ اگر سنت میں بھی حکم نہ ملے تو ایسی صورت میں اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کو جمع کرتے اور ان سے مشورہ کرتے؛ اگر کسی پر رائے قائم ہوجاتی تو اسی کے مطابق فیصلہ کردیتے۔ ( اعلام الموقعین: ۱/۶۲۔ الفقہ الاسلامی وادلتہ: ۸/۲۶۸) آپ کا اختیار کردہ طریقہ کا ر بعینہ وہی ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ بدر کے موقعہ پر اختیار کیا تھا اسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ مشاورت بھی ایک قسم کا اجتہاد ہی ہے کیوں کہ اگر کوئی بات منصوص ہوتی تو یہ جمع ہونا بیکار ہوتا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ما بین اختلافی مسائل کی ایک معتد بہ مقدار ہے، ایسے اختلافی مسائل حضراتِ شیخین کے درمیان بھی ہیں؛ نیزحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اجتہادی اقوال اور ان کے مختلف فیہ مسائل؛ نیزان کے فقہی اقوال کو ڈاکٹر رواس قلعہ جی نے فقہ ابی بکر رضی اللہ عنہ کے نام سے مرتب کیا ہے، ذیل میں آپ کے کچھ اقوال فقہیہ کا تذکرہ مناسب رہے گا، جس سے ان کے فقہی مقام اور اجتہادی بصیرت تک رسائی میں سہولت رہے گی۔ (۱)ناقص زائیدہ بچہ پر نماز جنازہ پڑھی جائیگی یانہیں؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ اس پر نمازِ جنازہ پڑھی جائیگی؛ جب وہ چار ماہ کا ہوجائے تو اسے غسل دیا جائیگا اور نماز پڑھی جائیگی، اس لیے کہ حدیث میں آیا ہے "السَّقْطُ یُصَلَّی عَلَیْہِ" (مصنف ابن ابی شیبہ:۳/۳۱۷) اس لیے کہ یہ بھی ایک جان ہے، اس میں روح پھونکی گئی ہے اور چار ماہ میں روح پھونک دی جاتی ہے اس لیے اس پر نماز پڑھنا چاہئے اور یہی بات سعید بن المسیب، ابن سیرین، اسحاق رحمہم اللہ نے اختیار کی ہے؛ نیز ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بھی یہی قول اختیار کرتے ہوئے اپنے مردہ بیٹے کی نماز جنازہ پڑھی تھی۔ (المغنی لابن قدامہ:۴/۴۹۷) حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس کے خلاف روایت منقول ہے۔ (الاستذکار الجامع لمذاہب الفقہاء: ۲/۳۲) (۲)حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تکبیراتِ انتقالیہ کو سنت قرار دیتے ہیں، اسی کو فقہاء کرام نے لیا ہے؛ لیکن دیگر صحابہ کرام کے اقوال کے پیش نظر دیگر ائمہ کرام نے تکبیراتِ انتقالیہ کو واجب تک قرار دیا ہے، حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے قول کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعرابی کو نماز سکھائی ہے، اس کو فرائض وواجبات نماز کی تعلیم دی اس میں تکبیرتحریمہ کا تو ذکر ہے؛ لیکن تکبیرات انتقالیہ کا کوئی ذکر نہیں ہے؛ حالانکہ یہ موقع بیان کرنے کا ہے؛ یہاں پر خاموشی عدم وجوب پر دلالت کررہی ہے لہٰذا وہ احادیث جن میں ہر اٹھنے وجھکنے کے وقت تکبیر کی بات آئی ہے وہ استحباب پر محمول ہے۔ (موسوعہ فقہیہ کویتیہ:۱۳/۲۰۷) (۳)حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ عمامہ پر مسح درست سمجھتے تھے ایک تو اُن کے سامنے وہ حدیث تھی جس میں یہ ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشانی کے بقدر مسح کیا اور عمامہ پر مسح کیا اور خفین پر مسح کیا اور قیاس کا بھی تقاضہ یہ ہے کہ سر اور پیر دونوں ایسے اعضاء ہیں جو تیمم میں ساقط ہوتے ہیں، جب دونوں کا تیمم میں ایک حکم ہے تو ایسے ہی مسح کے سلسلہ میں بھی ایک ہی حکم ہوگا کہ جس طرح خف پہنے ہوئے ہونے کی صورت میں مسح درست ہے اسی طرح عمامہ باندھے ہوئے ہونے کی صورت میں بھی اس پر مسح درست ہوگا۔ (موسوعہ فقہیہ کویتیہ: ۳/۳۰۵۔ موسوعۃ فقھیۃ:۳۷/۲۵۷) (۴)حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اُمّ ولد کی بیع جائز قرار دی ہے؛ اس کی ایک دلیل تو یہ تھی کہ آپﷺ کے زمانے میں اُمّ ولد کو بیچا جاتا تھے، عقلی دلیل یہ ہے کہ اُمّ ولد بچہ پیدا ہونے سے قبل بہرحال باندی ہے لہٰذااس کو بیچنا درست ہے تو بچہ پیدا ہونے کے بعد بھی اس کی بیع درست ہونی چاہیے؛ مگر یہ کہ کوئی دلیل اس کی بیع کے ناجائز ہونے پر وارد ہو؛ لہٰذا استصحاب حال سے اس کی بیع درست ہی ہونی چاہیے۔ (بدایۃ المجتہد: ۲/۳۲۱) (۵) مالدار پر قربانی کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سنت قرار دیا ہے؛ دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جب ذی الحجہ کے دس ایام آجائیں تو تم میں کا کوئی شخص قربانی کرنا چاہے تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے حدیث میں قربانی کو ارادہ پر موقوف رکھاگیا ہے؛ لہٰذا یہ وجوب کی دلیل نہیں ہوسکتی۔ (مجموع شرح مھذب: ۸/۳۸۵) ہم نے اس مقام پر معدودے چند مسائل کا ذکر کیا ہے، دراصل اس امر کی جانب نشاندھی مقصود ہے کہ ائمہ کرام کے درمیان پایا جانے والا اختلاف یہ صحابہ کرام سے ہی چلا ہے؛ نیزاجتہاد یہ کوئی ایسا عمل نہیں جسے ائمہ کرام نے ایجاد کیا ہو؛ بلکہ اجتہاد کا عمل قرنِ اوّل ہی سے جاری ہے، پیش آمدہ مسائل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اجتہاد کا سہارا لیا ہے اور آراء کے اختلاف کے موقعہ پر ہرایک نے وسعت کی راہ اپناتے ہوئے اپنی اپنی رائے پر عمل کیا کسی نے دوسرے پر طعن وتشنیع نہیں کی، ہرایک نے اپنے مخالف کا احترام کیا؛ انہوں نے اختلاف کو صرف علمی حلقوں تک ہی محدود رکھا، اس علمی رائے کے اختلاف کو آپسی چپقلش ذاتی عناد خلاف کا ذریعہ نہ بنایا، جس کا لازمی نتیجہ تھا کہ ان میں مخالف رائے سامنے آنے کے باوجود تحمل دشوار نہ تھا اور کوئی اپنی ہی رائے کو ضد وہٹ دھرمی کے بناء پر حق اور دوسری رائے کو باطل نہیں قرار دیتا، یہ علمی اختلاف کی وسعت کا ہی اثر تھا انہوں نے زیادہ سے زیادہ اپنی رائے کو "صَوَابٌ یَحْتَمِلُ الْخَطَاءَ" (کہ رائے درست ہے اور غلطی کا بھی احتمال ہے) اور دوسرے کی رائے کو "خَطَأٌ یَحْتَمِلُ الصَّوَابَ" (یعنی غلطی وچوک ہے مگر درستگی کا احتمال ہے) کا درجہ دیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے درمیان اختلاف کے باوجود انہوں نے اختلافی مسائل کی تبلیغ و فروعی مسائل کی تشہیر کے بجائے متفق علیہ عقائد کی تبلیغ مناسب سمجھی اور انہیں اختلافی مسائل کی تبلیغ سے رونما ہونے والے خطرات کا بھی بخوبی احساس تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین فروعی مسائل میں اختلاف ہونے کے باوجود کبھی انہوں نے اسے ایمان وکفر کا معیار یاگمراہی وضلالت نہیں قرار دیا، آج ایسی کتابیں دستیاب ہیں جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بھی فقہی مسائل مذکور ہیں جنھیں دیکھ کر ان کے فقہی اختلاف کی نوعیت مکمل طور پر آشکارا ہوسکتی ہے؛ اگر ہم ان سے صرفِ نظر کرکے صرف ائمہ کرام کو موردِ طعن قرار دیں تو یہ ہماری کوتاہی ہوگی اور علمی قابلیت کی کمی اور استعداد کی قلت پر دلالت ہوگی۔