انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** رموزِ اوقاف تلاوت اور تجوید کی سہولت کے لیے ایک اور مفید کام یہ کیا گیا کہ مختلف قرآنی جملوں پر ایسے اشارے لکھدیئے گئے جن سے یہ معلوم ہوسکے کہ اس جگہ وقف کرنا (سانس لینا) کیسا ہے؟ ان اشارات کو "رموزِاوقاف" کہتے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ ایک غیرعربی داں انسان بھی جب تلاوت کرے تو صحیح مقام پر وقف کرسکے اور غلط جگہ سانس توڑنے سے معنی میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہو، ان میں سے اکثر رموز سب سے پہلے علامہ ابوعبداللہ محمد بن طیفور سجاوندی رحمۃ اللہ علیہ نے وضع فرمائے (النشر فی القرآت العشر: ۱/۲۲۵) ان رموز کی تفصیل یہ ہے: ط:۔ یہ "وقفِ مطلق" کا مخفف ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں وقف کرنا جائز ہے۔ ج:۔ یہ "وقفِ جائز" کا مخفف ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں وقف کرنا جائز ہے۔ ز:۔ یہ "وقفِ مجوز" کا مخفف ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وقف کرنا درست تو ہے؛ لیکن بہتر یہ ہے کہ وقف نہ کیا جائے۔ ص:۔ یہ "وقف مرخص" کامخفف ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جگہ بات تو پوری نہیں ہوئی؛ لیکن جملہ چونکہ طویل ہوگیا ہے، اس لیے سانس لینے کے لیے دوسرے مقامات کے بجائے یہاں وقف کرنا چاہئے (المنح الفکریہ: ۶۳) م:۔ یہ "وقفِ لازم" کا مخفف ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہاں وقف نہ کیا جائے تو آیت کے معنی میں فحش غلطی کا امکان ہے؛ لہٰذا یہاں وقف کرنا زیادہ بہتر ہے، بعض حضرات اسے وقفِ واجب بھی کہتے ہیں؛ لیکن اس سے مراد فقہی واجب نہیں جس کے ترک سے گناہ ہو؛ بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ تمام اوقاف میں اس جگہ وقف کرنا سب سے زیادہ بہتر ہے (النشر: ۱/۲۳) لا:۔ یہ "لَاتَقِفْ" کا مخفف ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ "یہاں نہ ٹھہرو" لیکن اس کا منشاء یہ نہیں کہ یہاں وقف کرنا ناجائز ہے؛ بلکہ اس میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں وقف کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اس کے بعد والے لفظ سے ابتداء کرنا بھی جائز ہے؛ لہٰذا اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اگر یہاں وقف کیا جائے تو بہتر یہ ہے کہ اسے دوبارہ لَوٹا کر پڑھا جائے، اگلے لفظ سے ابتداء کرنا مستحسن نہیں (النشر: ۱/۲۳۳) ان رموز کے بارے میں تو یقینی طور پر ثابت ہے کہ یہ علامہ سجاوندی کے وضع کئے ہوئے ہیں ان کے علاوہ بھی بعض رموز قرآن کریم کے نسخوں میں موجود ہیں، مثلاً: مع:۔ یہ "معانقہ" کا مخفف ہے، یہ علامت اس جگہ لکھی جاتی ہے؛ جہاں ایک ہی آیت کی دوتفسیریں ممکن ہیں، ایک تفسیر کے مطابق وقف ایک جگہ ہوگا اور دوسری تفسیر کے مطابق دوسری جگہ؛ لہٰذا ان میں سے کسی ایک جگہ وقف کیا جاسکتا ہے؛ لیکن ایک جگہ وقف کرنے کے بعد دوسری جگہ وقف کرنا درست نہیں، مثلاً :ذٰلِکَ مَثَلُھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ، وَمَثَلُھُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ، کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأْہٗ الخ اس میں اگر التَّوْرٰۃ پر وقف کرلیاتو الانجیل پر وقف درست نہیں، اور اگر الانجیل پر وقف کرنا ہے تو التوراۃ پر وقف درست نہیں ،ہاں دونوں جگہ وقف نہ کریں تو درست ہے، اس کا ایک نام "مقابلہ" بھی ہے اور اس کی سب سے پہلے نشاں دہی امام ابوالفضل رازیؒ نے فرمائی ہے (النشر: ۱/۲۳۷، الاتقان: ۱/۸۸) سکتہ:۔ یہ "سکتہ" کی علامت ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اس جگہ رُکنا چاہئے؛ لیکن سانس نہ ٹوٹنے پائے یہ عموماً اس جگہ لایا جاتا ہے؛ جہاں ملاکر پڑھنے سے معنی میں غلط فہمی کا اندیشہ ہو۔ وقفہ:۔ اس جگہ "سکتہ" سے قدرے زیادہ دیر تک رُکنا چاہئے؛ لیکن سانس یہاں بھی نہ ٹوٹے۔ ق:۔ یہ "قِیْلَ عَلَیْہِ الْوَقْفُ" کا مخفف ہے، مطلب یہ ہے کہ بعض حضرات کے نزدیک یہاں وقف ہے اور بعض کے نزدیک نہیں ہے۔ قف:۔ یہ لفظ "قِفْ" ہے جس کے معنی ہیں "ٹھہرجاؤ" اور یہ اس جگہ لایا جاتا ہے جہاں پڑھنے والے کو یہ خیال ہوسکتا ہو کہ یہاں وقف درست نہیں۔ صلے:۔ یہ "اَلْوَصْلُ اَوْلٰی" کا مخفف ہے جس کے معنی ہیں کہ "ملاکر پڑھنا بہتر ہے"۔ صل:۔ یہ "قَدْ یُوْصَلُ"کا مخفف ہے؛ یعنی یہاں بعض لوگ ٹھہرتے ہیں اور بعض ملاکر پڑھنے کو پسند کرتے ہیں۔ وقف النبی صلی اللہ علیہ وسلم:۔ یہ اُن مقامات پر لکھا جاتا ہے جہاں کسی روایت کی رُو سے یہ ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت کرتے ہوئے اس جگہ وقف فرمایا تھا۔ (النشر فی القرآت العشر: ۱/۲۲۵)