انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حیات طیبہ۵۸۳ء شام کا سفر جب آپﷺ کی عمر بارہ سال کی ہوئی تو آپﷺ کے چچا ابو طالب نے قریش کے کاروان تجارت کے ساتھ ساتھ شام جانے کا ارادہ کیا، آپﷺ بھی اُن کے ساتھ اس سفر میں شریک رہے، اس قریشی قافلہ نے بصریٰ نام کی اہم تجارتی منڈی میں پڑاؤ ڈالا، وہا ں بحیرا نامی انجیل کے عالم اور عیسائی راہب کی خانقاہ تھی، اس راہب نے اپنی خانقاہ میں سے دیکھا کہ قافلہ والوں میں سے ایک نوجوان پر ابر سایہ کئے ہوئے ہے؛ حالانکہ اس وقت دھوپ تھی اور کوئی سایہ دار درخت نہ ملنے کی وجہ سے وہ نوجوان دھوپ میں بیٹھ گیا تھا تو درخت کی شاخیں اس پر جھک گئیں، راہب اپنی بصیرت سے پہچان گیا کہ یہ نوجوان خصوصی اہمیت کا حامل ہے، چنانچہ اس نے تمام قافلہ والوں کی دعوت کا اہتمام کیا، قافلہ والے حضور کو سامان کی نگرانی کے لئے خیمہ پر چھوڑ کر دعوت میں شریک ہوئے ، اس نے پوچھا کہ کوئی اور آنے والا تو نہیں ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ایک نوجوان کو خیمہ کی حفاظت کے لئے چھوڑا ہے، اس پر اس نے کہا کہ میزبان کے لئے کسی مہمان کو چھوڑنا مناسب نہیں معلوم ہوتا اور آپﷺ کو بلوانے کے لئے کہا، جب آپﷺ شریک طعام ہوئے تو اس نے ایک ایک بات کا غور سے معائنہ کیا اور آسمانی کتابوں کی تصدیق کے لئے اُس نے آپﷺ کی پیٹھ دیکھی جس پر مہر نبوت تھی، اس نے حضرت ابوطالب سے حضور ﷺ کے رشتہ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے ، لیکن راہب نے کہا کہ اس کے علم کے مطابق اس لڑکے کا باپ زندہ نہیں ہے، حضرت ابو طالب نے کہا کہ حقیقت میں ان کے باپ زندہ نہیں ہیں، پھرحضرت ابو طالب سے کہا کہ وہ حضور ﷺ کو فوراً اپنے شہر لے جائیں اور یہود سے آپ کی حفاظت کریں، جب لوگوں نے راہب سے پوچھا کہ تم نے کیونکر جانا تو اس نے کہا! جب تم لوگ پہاڑ سے اترے تو جس قدر درخت اور پتھر تھے سب سجدے کے لئے جھک گئے، اس کے بعد حضرت ابوطالب پھر کبھی شام کے سفر میں آپ ﷺ کو ساتھ نہیں لے گئے مبادا کہیں آپ ﷺ کو کوئی نقصان نہ پہنچے، اسی سال حضرت عمر ؓ بن الخطاب کی ولادت ہوئی۔