انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** نبوت اور حدیث کی تاریخ حدیث کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی بعثت انبیاء کی تاریخ،امتوں کو حدیث کے ذریعہ ہی آسمانی کتاب ملتی رہی اور اس امت کوبھی آنحضرتﷺ کے واسطے سے قرآن ملا، قرآن اور حدیث جمع ہوئے تو اسلام کے اس دورِ آخر کا آغاز ہوگیا،آنحضرتﷺ پرپہلی وحی("اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ" العلق:۳۰) غارِ حرا میں نازل ہوئی تو آپ نے اس کی خبر ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریؓ اور ورقہ بن نوفل کو دی، یہ حدیث کا آغاز تھا، امام بخاری(۲۵۶ھ)نے صحیح بخاری کا آغاز اسی باب سے کیا ہے"كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الْوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم"یعنی حضورﷺ پر وحی کا آغاز کیسے ہوا،یہ وحی کا پہلا دن تھا، سو یہ بات بالکل صحیح تاریخی ہے کہ حدیث اور بعثت کی تاریخ ایک ہے، ایک ساتھ دونوں شروع ہوئیں،امام بخاری نے بھی اس سے تنبیہ فرمادی کہ جو بعثت کی تاریخ ہے وہی حدیث کا نقطۂ آغاز ہے،آنحضرتﷺ کے عہد میں اسلام کی جو تشکیل ہوئی اس کے آثار حدیث کا سرمایہ ہے، یہ آثار روایت میں ہوں یاعمل میں یا آپ کے اصحاب کرام کی فکر وادا میں،ہر پہلو سے ان کا مبدا وتاریخ حسی ہے اور یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ حدیث کا آغاز کسی اندھیرے میں نہیں ہوا، اس کے ہر پہلو میں تسلسل اور اتصال قائم ہے روایت میں سند سے تسلسل پیدا ہوتا ہے اورامت میں تعامل سے سند چلتی ہے اور یہی علم الاٰثار ہے۔