انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** موضوع ِحدیث میں تعامل امت پر نظر جامع ترمذی کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ امام ترمذی حدیث کی روایت کے ساتھ ساتھ امت کے تعامل پر بھی پوری نظر رکھتے ہیں اور اہل علم کے مختلف مسالک سے بحث کرتے ہیں اوران کے حوالے بھی دیتے ہیں، ان کا موقف یہ ہے کہ سنت صرف روایت سے ثابت نہیں ہوتی، اس کے ساتھ امت کا تعامل بھی ضروری ہے کوئی حدیث سند کے لحاظ سے کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو؛ اگر اس پر امت کا عمل نہیں تو اس کی حجیت قطعی نہ رہے گی، زیادہ گمان یہی ہوگا کہ وہ عمل منسوخ ہوچکا، محدثین حدیث کی حفاظت پر اس کے معمول بہ ہونے سے بھی استدلال کرتے رہے ہیں، امام وکیع نے اسمعیل ابن ابراہیم مہاجر سے نقل کیا ہے: "کان یستعان علی حفظ الحدیث بالعمل بہ"۔ (تاریخ ابی زرعہ الدمشقی:۱/۳۱۱) ترجمہ: حفظ حدیث میں اس کے عمل سے بھی مدد لی جاتی تھی (یعنی یہ کہ اس پر عمل بھی ہو)۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث کے معمول بہ ہونے کا اس کی صحت اورمقبولیت پر بہت اثر رہا اورمحدثین کو ایسی روایات بہت کھٹکتی رہی ہیں جو معمول بہ نہ رہی ہوں، امام ترمذی ایک مقام پر لکھتے ہیں: "جَمِيعُ مَا فِي هَذَا الْكِتَابِ مِنْ الْحَدِيثِ فَهُوَ مَعْمُولٌ بِهِ وَبِهِ أَخَذَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مَاخَلَا حَدِيثَيْنِ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِالْمَدِينَةِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ وَحَدِيثَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِذَا شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجلدوهُ فَإِنْ عَادَ فِي الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوهُ"۔ (جامع ترمذی، کتاب العلل:۶۲۶/۲، موقع الإسلام) ترجمہ: جو کچھ اس کتاب میں ہے اس پر (کسی نہ کسی حلقے میں) عمل ضرور رہا ہے اوراس کے مطابق اہل علم کی ایک جماعت نے فیصلہ کیا ہے سوائے ان دو حدیثوں کے ایک حدیث حضرت ابن عباسؓ کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خوف، سفر اوربارش کے کسی عذر کے بغیر مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر یکجا اورمغرب اور عشاء اکٹھی پڑھی ہیں، اور دوسری حضورﷺ کی یہ حدیث کہ جب کوئی شراب پیئے تو اسے کوڑے لگاؤ اور چوتھی دفعہ پئے تو اس کوقتل کردو۔ یہ دونوں حدیثیں سند کے اعتبار سے لائق استدلال ہیں، لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ ائمہ دین میں کسی نے ان کے ظاہر پر عمل نہیں کیا، بلکہ اس کے ترک پراہل علم کا اجماع رہا ہے۔ ائمہ مجتہدین اوران کے تمسکات کو علم حدیث کے موضوع میں شامل نہ کیا جائے تو بڑی مشکلات پیدا ہو جائیں گی، صحت حدیث کا مدار صرف سند پر نہیں، اہل علم کے عمل سے بھی حدیث قوی ہوجاتی ہے، یہ صحیح ہے کہ اکثراوقات عمل صحت پر متفرع ہوتا ہے؛ لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کبھی صحت عمل پر بھی متفرع ہوتی ہے۔ مشہور غیر مقلد عالم مولانا عبدالحق سیالکوٹی لکھتے ہیں: اکثر اوقات عمل صحت پر متفرع ہوتا ہے اورصحت روایت اصول کی رو سے شروط معتبرہ مجوزہ ائمہ جرح و تعدیل کے ساتھ ہوتی ہے اور بعض دفعہ صحت عمل پر متفرع ہوتی ہے، صورت اول عام ہے،صورت دوم خاص ہے اور اس کی تصریح محققین نے کردی ہے، امام جلال الدین سیوطی اپنی کتاب التعقبات علی الموضوعات میں لکھتے ہیں: "ان الحدیث اعتضد بقول اھل العلم وقد صرح غیر واحد بان من دلیل صحۃ الحدیث قول اھل العلم بہ وان لم یکن لہ اسناد یعتمد علی مثلہ"۔ (تنزیہ الشریعۃ للکنانی:۲/۱۲۰) ترجمہ:اہل علم کے قول اورتعامل کے ساتھ حدیث ضعیف، ضعف سے نکل کر صحیح اورقابل عمل ہوجاتی ہے؛ اگرچہ اس کی اسناد لائق اعتماد نہ ہو، بہت سے اہل علم کا یہ قول ہے۔ بعض فضلائے امت و امناء ملت میں اس صورت دوم کے اپنے موضع میں پائے جانے کی وجہ سے بعض کوتاہ اندیش جاہل اپنی کج فہمی کی وجہ سے ان پر اعتراض کرتے ہیں کہ فلاں مولوی حدیث کا تارک ہے۔ (الانصاف لرفع الاختلاف:۷۷۶،مطبوعہ:۱۹۱۰ ء، مطبع: رفاہ عام اسٹیم پریس، لاہور) حافظ ابن صلاح مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ جب ہم کسی حدیث کو صحیح قرار دیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حدیث یقینا صحیح ہے اوراس کی صحت درجہ علم تک پہنچتی ہے؛ بلکہ اس حکم صحت سے مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ اس میں صحیح کی وہ فنی شرائط موجود ہیں جو محدثین کے یہاں صحت حدیث کے لیے درکار ہیں،لہذا گمان یہی ہے کہ وہ حدیث صحیح ہوگی، اسی طرح ضعیف کا مطلب بھی یہ نہیں کہ یقینی طورپروہ خلاف واقعہ ہے، ہوسکتا ہے کہ نفس الامر میں صحیح ہو؛ یہی وجہ ہے کہ اہل علم کا تعامل اس کی فنی کمزوریوں کو ڈھانپ لیتا ہے۔