انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جنگ خالدران اسمعیل صفوی کی جنگی تیاریوں کا حال سُن کریوم پنج شنبہ ماہ ربیع الاول ۹۲۰ھ مطابق ۲۰،اپریل ۱۵۱۴ء کو سلطان سلیم نے مقام بنی شہر سے جہاں فوجیں جمع ہوئیں تھیں مع فوج کو چ کیا بنی شہر دردانیال کے یورپی ساحل پر ایک مقام کا نام ہے،ایسیائے کوچک میں داخل ہوکر ایک ہفتہ کے بعد ۲۷،اپریل کو سلطان سلیم کی خفیہ پولیس نے شاہ اسمعیل صفوی کے ایک جاوسوس کو گرفتار کیا، یہ جاسوس جب سلطا سلیم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو اس نے اس کو کوئی سزا نہ دی ؛بلکہ ایک خط شاہ اسمعیل کے نام لکھ کر اس جاسوس کو دیا کہ یہ خط اپنے بادشاہ کے پاس پہنچا دو،اسی کے ساتھ اپنا ایلیچی بھی ایران کی طرف روانہ کیا،سلطان سلیکم نے اس خط حمد ونعمت کے بعد لکھا تھا کہ میں سلطنت عثمانیہ کا سلطان ،بہادروں کا سردار ،بت پرستوں اور سچے مذہب کے دشمنوں کو تباہ و برباد کرنے والا سلیم خاں بن سلطان بایزید خان بن سلطان محمد خان بن سلطان مراد خان کچھ لشکر ایران کے سردار امیر اسمعیل سے مخاطب ہوکر کہتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ کا کلام تغیر اورسفاہت سے بری ہے مگر اس میں بے انتہا راز ہیں جس کو انسانی عقل نہیں سمجھ سکتی اس باری تعالی نے اسنا کو زمین پر خلیفہ بنا یا کیونکہ انسان ہی میں روحانی و جسمانی قوتیں مجتمع ہیں اورا نسان ہی ایسا حیوان ہے جو خدا کی صفات کو سمجھ سکتا ہے اوراس اعلیٰ خوبیوں کی وجہ سے پرستش کرتا ہے،انسان کو سوائے دین اسلام کے اور کسی مذہب میں سچا اور صھیح علم حاصل نہیں ہوسکتا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی واطاعت کے بغیر کامایبی کا راستہ ہاتھ نہیں آسکتا ،ارے امیر اسمعیل یاد رکھ تو ہرگز فوزو فلاح کو نہیں پہنچ سکتا کیونکہ تونے طریقہ نجات کو چھوڑ کر اوراحکام شرع کی خلاف ورزی کرکے اسلام کے پاک اصولوں کو ناپاک کردیا ہے،تونے عبادت گاہوں کو مسمار کردیا،ناجائز اورخلاف شرع تدبیروں سے تونے مشرق میں تخت حکومت حاصل کیا،تو صرف مر اورحیلوں سے اس مرتبہ کو پہنچا ہے تو نہایت ذلیل حالت سے اس جاہ وحشمت تک پہنچا ہے تو نے مسلمانوں پر بے رحمی اور طلم کے دروازے کھول دیئے تو نہ صرف جھوٹا بے رحم اور مرتد ہے ؛بلکہ بے انصاف بدعتی اور کلام الہی کی بے عزتی کرنے والا ہے تونے کلام الہی میں ناجائز تاویل کو دخل دے کر اسلام میں نفاق اور تفرقہ ڈالا ، تونے ریاکاری کے پردہ میں ہر طرف فتنہ و فساد اورمصیبت کے بیچ بودئیے اور بے دینی کا علم بلند کردیا ہے، تو نے نفس امارہ سے مغلوب ہوکر بہت بڑی زیادتیاں اور معیوب باتیں کی ہیں اور سچے خلفاء یعنی حضرت ابوبکر صدیقؓ ،حضرت عمر فاروقؓ اورعثمان غنیؓ پر تبرا کہنے کی تونے سب کو اجازت دے رکھی ہے،ہمارے علماء دین نے تیرے قتل کا فتویٰ دے دیا ہے کیونکہ تو کفریہ کلمات اورکفریہ حرکات کا مرتکب ہے،علماء دین نے یہ بھی فتویٰ دیا ہے کہ ہر مسلمان کافرض ہے کہ حفاظت مذہب کے لئے مستعد ہو اور تجھ میں اور تیرے معتقدین میں جونا پاکی ہے وہ نیست ونابود کردی جائے،علمائے دین کے اس ارشاد پر جو عین قرآن کے مطابق ہے نیز اس خیال سے کہ دین اسلام کو تقویت ہو اوران ملکوں اور ان لوگوں کو جو تیرے ہاتھوں سے نالاں ہیں کس طرح رہائی ملے،ہم نے یہ ارادہ کرلیا ہے کہ لباس شاہانہ کو اتار کرزرہ بکتر پہن لیں اوراپنے جھنڈے کو جو آج تک ہمیشہ فتح یاب رہا ہے ،میدانِ جنگ میں نصب کردیں اور انتقام لینے والی تلوار کو غیظ وغضب کے میان سے نکالیں اوران سپاہیوں کو لے کر جن کی تلواریں زخم کاری لگاتی اورجن کے نیزے اعداء کے جگر کو توڑ کر پار نکل جاتے ہیں تجھ پر حملہ آور ہوں ہم نے آبنائے کو عبور کرلیا ہے اورمید کامل ہے کہ خدائے تعالیٰ کی دستگیری سے تیرے ظلم و فساد کو بہت جلد فرو کردیں گے اور فخر ورعونت کی بوجو تیرے دماغ میں سمائی ہے اورجس کے سبب سے تو آورارگیوں میں مبتلا اورکبائر کا مرتکب ہوا ہے نکال باہر کریں گے تیری خوف زدہ رعایا کو تیرے ظلم سے بچائیں گے اورتیرے برپا کئے ہوئے فتنہ و فساد کے بگلوں میں تجھ کو برباد کردیں گے،مگر باوجود اس کے چونک ہم لوگ احکام شرع کے پابند ہیں،ا س لئے ہم نے ضروری سمجھا کہ لڑائی کے شروع ہونے سے پہلے تیرے سامنے قرآن مجید رکھیں اور سچا دین قبول کرنے کی تجھ کو نصیحت کریں اس لئے ہم یہ خط تجھ کو تحریر کررہے ہیں، برائی سے بچنے کا سب سے اعلیٰ طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے اعمال کا خود محاصبہ کرکے صدق دل سے تائب ہو اورآئندہ کے لئے اپنی بد اعمالیاں ترک کردئے، نیز جوملک تونے ہماری سلطنت سے نکال کر اپنی سلطنت میں ملا لیا ہے اس سے دست بردار ہوکر ہمارے صوبہ داروں کو اس پر قبضہ دلادے،اگر تجھ کو اپنی حفاظت اوراپنا آرام منظور ہے تو ان احکام کو تعمیل کرنے میں ہرگز تاخیر نہ کر لیکن اگر توشامت اعمال کی وجہ سے اپنے باپ دادا کی طرح ان بد افعال اور غل طریقہ کو نہ چھوڑے گا اوراپنی بہادری اورقوت کے گھمنڈ میں شیوۂ ظلم وناانصافی کو ترک نہ کرے گا تو دیکھ لینا تھوڑے دنوں میں تمام میدان ہمارے خیموں سے پٹ جائیں گے اورہم اپنی شجاعت کے عجیب وغریب تماشے تجھے دکھائیں گے،اس وقت دنیا دیکھ لے گی کہ خدائے تعالی جو سب سے بڑا منصف ہے کیا فیصلہ صادر فرماتا ہے، والسلام علی من اتبع الھدی۔ جیسا کہ سلطان سلیم کے اس خط میں اشارہ موجود ہے ،شاہ اسمعیل نے یہ بھی سخت نامعقول حرکت کی تھی کہ اپنی رعایا کے تمام سُنی لوگوں کے مقبرے اورمسجدیں مسمار کراکر سنیوں کو حد سے زیادہ ذلیل اورتنگ کررکھا تھا خود اسمعیل کے باپ دادا شیعہ نہ تھے ؛بلکہ وہ عثمانیوں کی طرح سنت جماعت طریقہ پر عامل اورصوفی لوگ تھے،شیخ جنید کے زمانہ سے جب کہ جنگی کا روائیوں کا سلسلہ اس خاندان نے شروع کیا تو لوگوں کو محبت اہل بیت کی ترغیب دینی شروع کی کیونکہ اس طرح ان کو کامیابی کی زیادہ توقع تھی، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ وہ بہت جلد اسی شیعہ مسلک پر سیایس اغراض کی وجہ سے قائم ہوگئے جو ان سے پہلے شیعوں نے اپنا دستور العمل بنایا تھا، اسمعیل صفوی نے اس معاملے میں سب سے زیادہ غلو اختیار کیا اوربادشاہ ہوکر اپنی تمام قلم وہیں شیعہ مذہب کی اشاعت شروع کردی چونکہ ایرانیوں میں پہلے سے اس مذہب کے قبول کرنے کا مادہ موجود تھا اس نے اس کو بڑی کامیابی ہوئی جن راسخ العقیدہ مسلمانوں نے شیعیت سے النکار کیا ان پر مصائب کے پہاڑ توڑدیئے گئے اورساتھ ہی یہ اشاعتی کام قلمروعثمانی میں بھی شروع کردیا،سلطان بایزید نے تو کوئی انتظام نہ کیا لیکن سلطان سلیم نے اس طرف فوری توجہ مبذولکرکے اس فتنہ کا استیصال کردیا جس کا ذکر اوپر آچکا ہے،سلطان سلیم عثمانی نے مذخورہ خط کے ساتھ اپنا ایک ایلچی بھی بھیجا اوراس کو سمجھا دیا کہ اگر شاہ اسمعیل راہ راست پر آجائے اور ہماری باتوں کو مان لے تو اس سے کہا جائے کہ وہ شہزادہ مراد کو جو اس کے پاس پناہ گزیں ہے ہمارے پاس بھیج دے اسمعیل صفوی نے اس خط کو پڑھ کر سلطان سلیم کے ایلیچی کو فوراً شہزادہ مراد کے سپرد کردیا اوراس نے اسمعیل صفوی کے اشارے کے موافق اس ایلیچی کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا، یہ حرکت اسمعیل صفوی کی بہت ظالمانہ اورمراسم شاہانہ کے خلاف تھی،پھر اسمعیل نے سلطان سلیم کے خط کا جواب لکھکر اس کے پاس روانہ کیا اس خط میں اسمعیل صفوی نے لکھا کہ: ‘‘میں نہیں سمجھ سکا کہ آپ اس قدر ناخوش اوربرافروختہ کیوں میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ افیمکے نشے میں یہ خط لکھا گیا ہے،آپ کو اگر لڑنا ہی منظور ہے تو میں بھی ہر طرح سےتیار ہوں،جو کچھ خدا کی مرضی ہے اس کا بہت جلد ظہور ہوجائے گا اورجب میدان میں مقابلہ ہوگا تب آپ کو قدر وعافیت معلوم ہوگی۔’’ اس خط کے ساتھ اسمعیل صفوی نے افیون کا ایک ڈبہ بطور تحفہ سلطان سلیم کے پاس بھیجا جس سے مقصود یہ تھا کہ تم افیون کھانے کے عادی ہو اوراسی کی نشے میں ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہولہذا افیون کے تحفے کو بہت پسند کرو گے سلطان سلیم اس خط اورافیون کو دیکھ کر بہت غیظ وغضب میں آیا اوراپنے ایلیچی کے قصاص میں اس نے اسمعیل صفوی کے ایلیچی کو قتل کرادیا اوراپنے لشکر کا خوب بندوبست کرکے تبریز کی جانب (جو اسمعیل صفوی کا دارالسلطنت تھا) روانہ ہوا، شہر سیواس میں پہنچ کر سلیم نے اپنی فوج کی موجودات لی تو اسی ہزار سوار اور چالیس ہزار پیدل تھے، اس نے سواس سے قیصر یہ تک چالیس ہزار پیدلوں کو تقسیم کرکے ہر منزل پر ایک مناسب تعداد متعین کردی اورحکم دیا کہ جب سلطانی لشکر قیصر یہ سے ایک منزل آگے بڑھے تو ہر منزل کی متعینہ فوج ایک ایک منزل آگے بڑھ جائے اورسب سے پچھلا دستہ جو سیواس میں متعین ہے سیواس کو چھوڑکر اگلی منزل میں پہنچ جائ، یہ انتظام اس نے اس لئے کیا کہ سامانِ رسد کے پہنچنے میں آسانی رہے لیکن جوں ہی سلطان سلیم اپنی حدودِ سلطنت سے نکلکر ایرانی قلمرو میں داخل ہوا اس نے دیکھا کہ اسمعیل صفوی کے حکم سے ایرانیوں نے تمام علاقے کو ویران اور کھیتوں کو برباد کردیا ہے،اسمعیل صفوی نے بڑے اہتمام اورانتظام کے ساتھ اپنے علاقے کو ویران کرانا شروع کردیا تھا تاکہ عثمانی لشکر کو گھاس کا ایک تنکا اورغلہ کا ایک دانہ نہ مل سکے،سبز درختوں اور ہر قسم کی نباتات کو جلا کر خا ک سیاہ بنادینے کے کام پر اس نے بہت بڑی فوج متعین کردی تھی، اس فوج کا یہی کام تھا کہ عثمانی لشکر کے آگے آگے ملک کو برباد اورخاک سیاہ بناتی جائے، پہلے سے ان علاقوں میں اشتہار دیدیا گیا تھا کہ تمام باشندے اپنے اپنے سامان کو جو اٹھاسکتے ہیں اٹھاکر اورباقی کو آگ لگا کر اندرون ملک کی طرف چلے جائیں ورنہ شاہی فوج ان کو زبردستی جلا وطن کردے گی اور ان کی تمام املاک وسامان کو جلاڈالے گیا،اسمعیل صفوی کے اس انتظام واہتمام کا اثر یہ ہوا کہ مملکت ایران کی حدود میں داخل ہوتے ہی سلطان سلیم عثمانی کو مشکلات کا مقابلہ کرنا پڑا، اگرچہ سلطان سلیم عثمانی نے پہلے ہی سے یہ بھی انتظام کرلیا تھا کہ طرابزون کے بندرگاہ پر قسطنطنیہ اوریورپی صوبوں سے سامانِ رسد کے جہاز آتے رہیں اوروہاں سے خچروں اوراونٹوں پر لاد لاد کر لشکرِ سلطانی میں سامانِ رسد کے پہنچنے کا انتظام رہے،اس کام کے لئے اس نے پانچ ہزار سپاہی اوربہت سے اونٹ اورخچر مقرر کردیئے تھے مگر پھر پھی جس علاقے میں اس کو سفر کرنا پڑرہا تھا اس علاقے سے کسی چیز کا بھی دستیاب نہ ہونا بے حد موجب تکلیف تھا شاہ اسمعیل صفوی خود بھی فوج لے کر اپنے صوبوں کی اس مکمل بربادی میں مصروف تھا، اور پیچھے ہٹتا چلا جاتا تھا سلیم عثمانی کو توقع تھی کہ اسمعیل صفوی اپنے ملک کی سرحد پر سدِّ راہ ہوگا لیکن اس نے یہ تدبیر سوچی تھی کہ سلیم عثمانی خود ہی اتنے بڑے لشکر کو دور تک نہ لاسکے گا اور تنگ آکر پیچھے ہٹ جائے گا، اسمعیل صفوی کا یہ منصوبہ بلا نتیجہ نہ رہا سلطان کی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار کیا اور سردارانِ لشکر نے سلطان کو رائے دی کہ اسمعیل صفوی چونکہ مقابلہ پر نہیں آتا اورپیچھے بھاگتا جاتا ہے لہذا اب ہم کو بھی واپس ہوجانا چاہئے مگر سلطان سلیکم نے اس بات کو ناپسند کیا اورآگے ہی بڑھتا گیا،اس حالت میں سلطان نے فوج کے لئے ضروریات مہیا کرنے اور رسد رسانی کے انتظام کی طرف توجہ مبذول رکھنے میں بڑی قابلیت کا اظہار کیا سلطان دیار بکر ہوتا ہوا آذر بائیجان کے علاقے میں داخل ہوا، ایک منزل پر سلطان کے سپہ سالار ہمدان پاشا کو جو سلطان کا بچپنے کا دوست اور ہم سبق بھی تھا دوسرے سرداروں نے ترغیب دی کہ آپ سلطان کو واپس ہونے پر آمادہ کردیں،ہمدان پاشاہ نے سلطان کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ آپ اس حملہ آوری میں اپنی فوج کو ناراض نہ کریں اور موجودہ حالات اس کے متقاضی ہیں کہ اب واپس چلیں سلطان سلیم نے یہ سنتے ہی ہمدان پاشا کی گردن اڑادی اورکسی کو چون و چرا کی جرأت نہ ہوئی،آخر ایک منزل پر جان نثاری فوج نے جو سب سے زیادہ جری اورباحوصلہ سمجھی جاتی تھی متفقہ آواز بلند کی کہ ہم اب ہرگز آگے قدم نہ بڑھائیں گے اوریہیں سے واپس ہونا چاہتے ہیں،سلطان سلیم نے جب دیکھا کہ ساری کی ساری فوج سرکشی پر آمادہ ہے تو وہ اگلے دن صبح کو گھوڑے پر سوار ہوکر جان نثاری فوج کے درمیان آکھڑا ہوا اورتمام فوج کو اپنے گرد جمع کرکے ایک تقریر کی کہ: میں اس لئے یہاں نہیں آیا ہوں کہ ناکام واپس جاؤں جو لوگ بہادر ہیں اوراپنی شرافت کی وجہ سے بزدلی ونامردی کے عیب کو اپنے لئے گو ارا نہیں کرتے اور تیر وشمشیر کے زخموں سے نہیں ڈرتے وہ یقیناً میرا ساتھ دیں گے لیکن جو لوگ نا مرد ہیں اوراپنی جان کو اپنی عزت سے زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں اوراپنے گھروں کو واپس ہونا چاہتے ہیں اور صعوبات کے برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے میری طرف سے ان کو اجازت ہے کہ وہ اسی وقت بہادروں اور جواں مردوں کی صفوں سے جدا ہوجائیں اوراپنے گھروں کو واپس چلے جائیں،اگر تم میں سے ایک شخص نے بھی میرا ساتھ نہ دیا اورتم سب کے سب ہی نامردوں میں شامل ہوگئے تو تنہا آگے بڑھوں گا اوربغیر معرکۂ قتال وجدال گرم کئے ہوئے ہرگز واپس نہ ہوں گا۔ یہ کہہ کر سلطان سلیم نے حکم دیا کہ نامرد لوگ ہمارا ساتھ چھوڑدیں اورجو بہادر وغیرت مند ہیں وہ اسی وقت کوچ پر آمادہ ہوجائیں؛چنانچہ فوراً تمام فوج وہاں سے سلطان کے ساتھ چل پڑی اورایک شخص بھی ایسا نہ نکلا جو وہاں سے واپس ہونے کی جرأت کرتا سلطان کی اس ہمت مردانہ کی برکت تھی کہ اگلی منزل پر فوج جاکر مقیم ہوئی تو گرجستان یعنی کاکیشیا کے ایک عیسائی سردار کی طرف سے بافراط سامان رسد سلطانی فوج کے لئے پہنچا جو سلطان کی خوشنودی مزاج کے لئے بطور مہمان نوازی بھجوایا گیا تھا،اب اسمعیل صفوی کا دار السلطنت تبریز کچھ زیادہ دورنہ رہا تھا،سلطان سلیم کوچ و مقام کرتا ہوا وادیٔ خالدران میں پہنچا اوراس وادی کے مغربی جانب کے ایک ٹیلہ پر چڑھا تو سامنے میدان میں اس کو ایرانی فوج نظر آئی جس کو دیکھ کر وہ بہت ہی خوش ہوا، اب تک دوران سفر میں سلطان سلیم نظم ونثر کے کئی خطوط اسمعیل صفوی کے نام بھیج چکا تھا جن میں سے ہر ایک خط میں اس نے کوشش کی تھی کہ اسمعیل صفوی کو غیرت دلا کر مقابلہ پر آنے کی ترغیب دے ،سلطان سلیم شاہ صفوی کے مقابلہ پر نہ آنے سے بہت ہی افسردہ خاطر اوررنجیدہ تھا اور اسی لئے وہ جلد جلد منزلیں طے کرتا ہوا بڑھتا چلا جاتا تھا کہ اسمعیل صفوی کو اس کے دارالسلطنت میں پہنچ کر للکار ے،اسمعیل صفوی اگر اپنے دارسلطنت کو بھی چھوڑ کر پیچھے ہٹ جاتا تو ممکن تھا کہ اس کا منصوبہ کار گرثابت ہوجاتا اورسلطان سلیکم تبریز سے آگے نہ بڑھتا لیکن وہ سلطان سلیکم کی پیش قدمی کو اس سے زیادہ برداشت نہ کرسکا ،وادیٔ خالدان تبریز سے بیس کو س کے فاصلے پر تھی اور اسمعیل صفوی نے مقابلہ کے اسی مقام کو سب سے زیادہ موزوں مقام سمجھا تھا،اسمعیل صفوی کی فوج سلطان سلیم کی فوج کے برابر ہی تھی مگر اس فرق کو نظر انداز نہ کرنا چاہئے کہ سلطان سلیم کی فوج پیہم بڑی بڑی کڑی منزلیں بے کرتی ہوئی پہنچی بھی اوربہت ہی تھکی ہاری ہوئی تھی لیکن اسمعیل صفوی کی فوج خوب تازہ دم اورہرطرح ہر قسم کے سامان سے آراستہ وپیراستہ تھی،اسمعیل صفوی اوراس کی فوج کو کاملِ یقین تھا کہ ہم سلیم عثمانی اوراس کی فوج کو ضرور شکست فاش دیں گے، اسمعیل صفوی نے مقابلہ کرنے میں جو دیر اور توقف کیا وہ اس کی نہایت ہی زبردست سپاہیانہ چال تھی اوراس کی تجربہ کاری نے عثمانی لشکر کو صعوبات سفر سے کمزور وستوہ کرکے ایسے مقام پر لاڈالا تھا جہاں وہ تمام وکمال برباد ہونے کے لئے گویا صفوی لشکر یاموت کے منہ میں پہنچ چکا تھا،اس موقع پر پہنچ کر سلطان سلیم کا فرض تھا کہ وہ اپنے لشکر کو کم از کم ایک دن یا چند ہی گھنٹے آرام دینے کی کوشش کرتا اورسستانے کا موقع دیتا،لیکن وہ چونکہ تمام سفر میں اس بات کی دعائیں مانگتا ہوا آیا تھا کہ کسی طرح اسمعیل صفوی مقابلہ پر آجائے لہذا خالد ران کے میدان میں اسمعیل صفوی اوراس کے لشکر کو سامنے دیکھ کر وہ تامل نہ کرسکتا تھا،اُدھر اسمعیل صفوی کو اپنے جاسوسوں کے ذریعہ پہلے سے معلوم تھا کہ عثمانی لشکر سامنے سے نمودار ہونے والا ہے لہذا وہ پہلے ہی سے حملہ آوری پر مستعد اوراپنے میمنہ و میسرہ کو درست کرچکا تھا اوراس بات پر مستعد تھا کہ عثمان لشکر کو جو تھکا ہوا آرہا ہے آرام کرنے کا موقع نہ دیا جائے ،اسمعیل صفوی کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ سلطان سلیکم کے ساتھ ایک ہلکا توپ خانہ بھی ہے،اس کو سلطانی فوج کی تعداد اورہر حصہ فوج کی حالت سے بخوبی آگاہی حاصل تھی،شاہ صفوی نے اپنے اسیّ ہزار سواروں کے دو حسے کئے،ایک حصہ تو اپنی ماتحتی میں رکھا اور دوسرا حصہ اپنے سپہ سالار ابو علی کے سپرد کیا اوریہ قرار دیا کہ عثمانی فوج جس وقت لڑائی شروع کرے تو ایرانی فوج کے سامنے کی صف مصروف جنگ ہو اوریہ دونوں حصے جو چالیس چالیس ہزار سواروں پر مشتمل تھے داہنے بائیں جانب کترا کر اورگھوم کر عثمانی فوج کے عقب میں پہنچ جائیں اور پیچھے سے حملہ کرکے ترکوں کا قافیہ تنگ کردیں،ادھر سلطان سلیم نے ایرانی فوج کو سامنے مستعد دیکھتے ہی ایشیائے کوچک کی تمام فوج اپنے سپہ سالار سنان پاشا کے سپرد کی اوریورپی علاقے کی فوج حسین پاشا کو ددی،سنان پاشا کو میمنہ پر اورحسین پاشا کو میسرہ پر رکھا،خود اپنے جان نثار دستہ کو لے کر قلب میں قائم ہوا اورآگے جاگیرداروں اوررضا کاروں کے غول کو بطور ہر اول بڑھایا، توپ خانہ ایک مناسب موقع پر نصب کردیا گیا،اسمعیل صفوی کوچونکہ توپ خانہ کا حال معلوم تھا اور وہ جانتا تھا کہ لڑائی شروع ہونے کے بعد توپوں کا رخ جلد نہیں بدلا جاسکے گا،لہذا اس نے ترکوں کی توپوں کو بیکار کرنے کے لئے ہی اپنے اسی ہزار سواروں سے وہ کاملینا چاہا تھا جس کا اوپر ذکر ہوا اسمعیل صفوی کی یہ تدبیر جنگ بڑی عاقلانہ اورقابل تعریف تھی؛چنانچہ طرفین سے فوجیں بڑھیں اور معرکہ کارزار کے گرم ہوتے ہی اسمعیل صفوی نے اپنے چالیس ہزار سوار لے کر عثمانیہ لشکر کے میمنہ کی سمت کو کتراتے اور گھومتے ہوئے حملہ کیا، دوسری طرف ابو علی نے اپنے چالیس ہزار سواروں سے ترکی لشکر کے میسرہ کا ارادہ کیا، لڑائے کے شروع ہوتے ہی عثمانیہ لشکر سے تکبیر کی آوازیں بلند تھیں اورایرانی لشکر سے ‘‘شاہ شاہ’’ کی آوازیں آرہی تھیں یعنی ایرانیوں کا نعرۂ جنگ اپنے بادشاہ اسمعیل صفوی کا نام لینا تھا اورعثمانی لشکر کا نعرہ جنگ اللہ اکبر کے سوا اور کچھ نہ تھا، دونوں لشکروں کی ان آوازوں نے صاف طور پر بتادیا تھا کہ ان میں کون موحد ہے اورکون مشرک ،بہرحال اسمعیل صفوی توپوں کی زد سے صاف بچ کر اپنے ارادے میں کامیاب ہوا یعنی اس نے حسین پاشا کی فوج کے عقب سے پہنچ کر سخت حملہ کیا اور یورپی دستوں کے اکثر سردار اورسپاہی اس معرکۂ عظیم میں مارے گئے دوسری طرف ابو علی نے سنان پاشا کی فوج پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی لیکن ابو علی اپنے منصوبے میں پورے طور پر کامیاب نہ ہوسکا ؛بلکہ اس کی فوج کا ایک حصہ توپ خانہ کی زد میں آگیا اورابو علی مارا گیا، سنان پاشا نے بآسانی ابو علی کی فوج کو مغلوب کرلیا،لیکن حسین پاشا کی حالت بہت نازک ہوگئی کیونکہ اس طرف ایرانی بہت چیرہ دستی دکھارہے تھے،سلطان سلیم بڑی احتیاط کے ساتھ میدان کا نگراں تھا،اس نے اس بات کی کوشش نہیں کی کہ وہ سلطان بایزید یلدرم کی طرح اپنے سپہ سالاری کے منصب کو فراموش کرکے ایک شمشیر زن سپاہی کی حالت میں تبدیل ہوجائے،جب سلطان سلیم کو یہ یقین ہوگیا کہ سنان پاشا کو کسی امداد کی ضرورت نہیں ہے ؛بلکہ وہ اپنے حریف کو مغلوب کرچکا ہے تو اپنے رکابی دستہ کو لے کر فوراً حسین پاشا کی مدد کو پہنچا اور ایک ایسا زبردست اور رستمانہ حملہ کیا کہ ایرانیوں کے پاؤں اکھڑ گئے،اسمعیل صفوی نے فرار کی عار گوارا کی۔ اسمعیل کو عثمانی سپاہی گرفتار ہی کرچکے تھے کہ اسمعیل کے ایک ہمراہی مرزا سلطان علی نے کہا کہ میں شاہ اسمعیل ہوں عثمانی سپاہی اس کی طرف متوجہ ہوگئے اوراسمعیل صفوی کو بھاگ کر جان بچانے کاموقعہ مل گیا تمام میدان ایرانیوں سے خالی ہوگیا اورسلطان سلیم کو فتح مبین حاصل ہوئی،سلطان نے آگے بڑھ کر اسمعیل صفوی کے لشکر گاہ پر قبضہ کیا تو معلوم ہوا کہ اسمعیل اس سراسمیگی کے ساتھ فرار ہوا ہے کہ اپنا سفری خزانہ اوراپنی پیاری بیوی بھی اپنے خیمہ ہی میں چھوڑ گیا ہے سلطان سلیم نے عورتوں اور بچوں کو قید و حراست میں رکھ کر خبگی قیدیوں کو قتل کردیا اورمیدانِ جنگ کا معائنہ کرنے سے معلوم ہوا کہ اس لڑائی میں چودہ عثمانی اور چودہ ہی ایرانی صاحب علم سپہ سالار مارے گئے،سلیم کو اپنے سرداروں کے مارے جانے کا سخت ملال ہوا اوراس نے بڑی عزت کے ساتھ ان کی تجہیز وتکفین سے فراغت پاکر تبریز کا ارادہ کیا،یہ لڑائی مقام خالدران میں ۲۳ اگسٹ ۱۵۱۴ء مطابق ۲۰ ماہ رجب ۹۲۰ھ کو ہوئی،اس لڑائی سے تیرہ دن کے بعد سلطان سلیم تبریز دارالسلطنت ایران میں داخل ہوا، اسمعیل صفوی خالدران سے بھاگ کر تبریز میں پہنچا تھا لیکن جب اس کو یہ معلوم ہوا کہ سلطان سلیم تبریز کی طرف آرہا ہے تو وہ تبریز سے خراسان کی طرف بھاگ گیا اوراپنی سلطنت کے مشرقی حصہ پر اپنا قبضہ قائم رکھا،سلطان نے تبریز میں آٹھ روز قیام کیا اس کے بعد قرہ باغ کی طرف بڑھا،جب سلطان تبریز میں مقیم تھا تو اس کے پاس مرزا بدیع الزماں جو تیموری نسل کا شہزادہ تھا ملنے آیا،سلطان نے اس کی بہت عزت وتکریم کی سلطان سلیم کا ارادہ تھا کہ قرہ باغ سے آگے بڑھ کر آذر بائیجان ہی کے میدانوں میں موسم سرما بسر کرے اورموسم بہار کے شروع ہونے پر مشرقی ممالک کی فتوحات کے لئے بڑھے لیکن اس کی فوج نے اب پھر سرکشی پر آمادگی ظاہر کی اورسلطان کو مجبور کیا کہ وطن کی طرف واپس ہو یہ واپسی سلطان کی ایسی ہی تھی جیسی کہ سکندر کی واپسی دریائے ستلج کے کنارے سے مجبورا ہوئی تھی،سکندر کو بھی اس کی فوج ہی نے واپس ہونے پر مجبور کردیا تھا،سلطان سلیم قرہ باغ سے واپس تو ہوا مگر وہ سیدھا قسطنطنیہ نہیں چلا گیا ؛بلکہ اس نے واپس ہوکر ایشائے کوچک کے شہر اماسیہ میں مقام کیا اوریہیں موسم سرما بسر کرکے موسم بہار کے شروع ہونے پر پھر فوج کشی کرکے آرمینیا وجارجیہ اور کوہِ قاف کا علاقہ فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کیا، آذر بائیجان کا صوبہ پہلےہی اس کے قبضہ میں آچکا تھا اب اس کے بعد سلطان کا ارادہ تھا کہ کردستان اور عراق یعنی دو آبہ دجلہ و فرات کو بھی فتح کرکے اپنی حکومت میں شامل کرے جس پر اب تک اسمعیل صفوی کا اقتدار باقی تھا،لیکن سلطان کے پاس قسطنطنیہ سے خبر پہنچی کہ وہاں کی فوج سرکشی پر آمادہ ہے اور قسطنطنیہ کے وایسرائے کے ساتھ گستاخی سے پیش آئی ہے،اس لئے اسکو مجبوراً اپنے دارالسلطنت قسطنطنیہ کی طرف متوجہ ہونا پڑا،لیکن اس طرف جنگی کاروائیاں اور فتوحات کا سلسلہ جاری رکھنے کے لئے اس نے تجربہ کا ر سردار مامور کئے جنہوں نے چند ہی روز کے بعد کردستان ،عراق اورساحل خلیج فارس تک کے تمام صوبے فتح کرکے سلطنتِ عثمانیہ میں شامل کردیئے اوراسمعیل صفوی کی قریباً آدھی سلطنت،عثمانیہ سلطنت میں شامل ہوگئی، اسمعیل صفوی نے بار بار پاؤں مارے لیکن عثمانیہ سرداروں سے ہمیشہ شکست کھائی۔ سلطان سلیم فتح خالد ران کے بعد جب تبریز میں داخل ہوا تو اس نے تبریز سے جو سب سے بڑا فائدہ حاصل کیا وہ یہ تھا وہاں کے ایک ہزار معماروں اورکاریگروں کو بیش قرار روزینے اورجاگیریں دے کر قسطنطنیہ میں آباد ہونے کے لئے بھیج دیا،اس زمانے میں تبریز کے معمار ساری دنیا میں مشہور اوراپنے فن میں بے نظیر سمجھےجاتے تھے،سلطان نے ان لوگوں کو قسطنطنیہ بھیج کر قسطنطنیہ کی ایک بڑی واہم ضرورت کو پورا کردیا،شاہ اسمعیل صفوی نے اس شکست کے بعد کئی مرتبہ سلطان سلیم کے پاس صلح کی درخواستیں بھیجیں اوربہت کوششش کی کہ کسی طرح سلطان سلیم اس کی طرف سے مطمئن ہو لیکن سلطان کو اسمعیل صفوی سے ایسی نفرت تھی کہ اس نے اس طرف مطلق التفات نہ کیا اورحالت جنگ کو اس کے ساتھ قائم رکھنا ہی مناسب سمجھا،اگر اس کے بعد سلطان سلیم کو شام و مصر کی طرف متوجہ ہونے کا موقعہ نہ ملتا تو وہ ضرور ایک مرتبہ پھر ایران پر فوج کشی کرکے اسمعیل صفوی سے بقیہ ملک بھی چھین لیتا اور ترکستان تک فتح و فیروزی کے ساتھ چلا جاتا مگر اس کے بعد سلیم کو خود ایران کی طرف آنے کا موقعہ نہیں ملا اوراس کے سرداروں نے مفتوحہ ملک کو اپنے قبضے سے نہیں نکلنے دیا، اس حملہ اوراس لڑائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشرق کی جانب سلطنتِ عثمانیہ کی حدود بہت وسیع ہوگئیں اورنہایت زرخیز اورسیر حاصل صوبوں کا اضافہ ہوا اورآئندہ کے لئے مشرق کی جانب سے کسی حملہ کا خطرہ باقی نہ رہا، اسی سلسلہ میں یہ بات بھی بیان کردینے کے قابل ہے کہ اسمعیل صفوی کی چہیتی بیوی جب سلطان سلیم کے قبضے میں آگئی تو شاہ اسمعیل نے سلطان سلیم کے پاس اپنے ایلیچی بھیجے کہ میری بیوی کو میرے پاس بھیج دو،یہ وہ زمانہ تھا کہ شاہ سلیم ایشیائے کوچک کے شہر اماسیہ میں قرہ باغ سے آکر مقیم اور موسم سرما کا زمانہ بسر کررہا تھا،سلطان سلیم سے یہی توقع تھی کہ وہ شاہ صفوی کی بیوی کو اس کے پاس بھیج دے گا لیکن سلطان چونکہ شاہ صفوی کو مرتد اوربے دین خیال کرتا تھا اور اس کے اعمال ناشائستہ کی وجہ سے بہت ناراض تھالہذا سلطان نے اس کے ساتھ کسی قسم کی مروت کا برتاؤ کرنا نہیں چاہا، اب تک شاہِ صفوی کی بیوی عزت واحترام کے ساتھ نظر بند تھی،سلطان نے اس کے بھیجنے سے صاف انکار کردیا اور جنگ خالدران سے پانچ دھ مہینے کے بعد شاہ اسمعیل کی بیگم کا نکاح اپنے ایک سپاہی جعفر چلپی کے ساتھ کردیا، اسمعیل صفوی کو یہ سن کر کہ اس کی بیوی ایک ترک سپاہی کی بیوی بن کر اس کے گھر میں مسرت و شادامانی کے ساتھ زندگی بسر کررہی ہے سخت صدمہ ہوا اورجب تک زندہ رہا اسی حست اور حزن وملال میں مبتلا رہا۔