انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فضائل وخصائل حضرت امیرمعاویہ سے ایک سوترسٹھ ۱۶۳/حدیثیں مروی ہیں، جن کوبعد میں ابن عباس رضی اللہ عنہ، ابن عمر، ابن زبیر، ابوالدردا رضی اللہ عنہم وغیر صحابہ اور ابن المسیب وحمید بن عبدالرحمن رحمہم اللہ وغیرہ تابعین نے روایت کیا ہے، آپ کے فضائل میں بھی بہت سی حدیثیں مشہور ہیں، ترمذی نے احادیث حسن کی ذیل میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امیرمعاویہ کی نسبت فرمایا کہ الہٰی معاویہ کوہدایت کرنے والا اور ہدایت پانے والا کردے، مسنداحمد حنبل میں لکھا ہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: الہٰی معاویہ کوحساب وکتاب سمجھا اور عذاب سے بچا، خود امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ کوخلافت کی اس وقت سے امید تھی جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ فرمایا کہ جب توبادشاہ ہوجائے تولوگوں سے بحسن سلوک پیش آنا، حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اپنے عہد خلافت میں حج سے فارغ ہوکر مدینہ میں آئے اور یہاں چند روز ٹھہرے، ایک روز عبداللہ بن محمد بن عقیل بن ابی طالب امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ ابوقتادہ انصاری بھی اس طرح آنکلے، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے اُن کودیکھ کر فرمایا کہ مجھ سے ملنے کے لیئے تمام لوگ آئے؛ مگرانصار نہیں آئے، ابوقتادہ نے فرمایا کہ ہمارے پاس سواری نہیں ہے، اس لیئے نہیں آسکے، امیرمعاویہ نے فرمایا کہ تمہارے اونٹ کیا ہوئے؟ انھوں نے جواب دیا کہ تمہارے اور تمہارے باپ کے تعاقب میں ہمارے سارے اونٹ تھک گئے ہیں؛ پھرکہنے لگے ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ میرے بعد ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ لوگ حق دار کے مقابلہ میں غیرحقدار کوترجیح دیں گے، امیرمعاویہ نے فرمایا کہ پھرایسی حالت کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ فرمایا ہے کہ کیا کرنا چاہیے؟ ابوقتادہ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نسبت کی حالت ارشاد فرمایا ہے کہ صبر کرنا چاہیے، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بس پھرتم صبر کرو۔ قریش میں سے ایک جوان آدمی امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان کوبرابھلا کہنے لگا، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کی بدزبانی سن کرفرمایا کہ میرے بھتیجے اس حرکت سے باز آجا؛ کیونکہ بادشاہ کا غصہ بچےکا سا ہوتا ہے اور اس کا مواخذہ شیر کاسا، شعبی کا قول ہے کہ عقالانِ عرب چار ہیں: (۱)معاویہ (۲)عمربن العاص (۳)مغیرہ بن شعبہ (۴)زیاد رضی اللہ عنہم۔ معاویہ حلم وخردمندی کی وجہ سے، عمروبن العاص مشکلات پیش آمدہ کے سلجھانے کی قابلیت کے سبب، مغیرہ اوسان خطانہ ہونے کی وجہ سے اور زیاد ہرچھوٹی بڑی بات میں؛ نیز قاضی بھی چار ہیں: (۱)عمر (۲)علی (۳)ابن مسعود (۴)زید بن ثابت رضی اللہ عنہم، جابر کا قول ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کرقرآن وفقہ کا عالم اور طلحہ بن عبیداللہ سے بڑھ کربغیر سوال کے عطا کرنے والا اور معاویہ سے بڑھ کرحلیم وعقیل اور عمروبن العاص سے بڑھ کرخالص دوست میں نے نہیں دیکھا، حضرت عقیل بن ابی طالب ایک روز امیرمعاویہ کے پاس گئے، امیرمعاویہ نے ان کودیکھ کرازراہِ خوش طبعی کہا کہ دیکھو! یہ عقیل ہیں، ان کے چچا ابولہب تھے، حضرت عقیل نے فوراً جواب میں کہا کہ دیکھو! یہ معاویہ ہیں، ان کی پھوپھی حمالتہ الحطب تھی، حضرت عبداللہ بن عباس سے کسی نے حضرت امیرمعاویہ کی نسبت دریافت کیا توانھوں نے فرمایا: کہ ان کا حلم غصہ کے لیئے تریاق تھا او ران کی سخاوت زبانوں پرقفل لگادیتی تھی، ان کودلوں کوجوڑنا خوب آتا تھا اور یہی سبب ان کے استحکامِ حکومت کا ہوا، ایک روز امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے خود فرمایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں مجھ کوجوکامیابی حاصل ہوئی اس کے چار سبب ہیں: اوّل: یہ کہ میں اپنے راز کومخفی رکھتا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام باتیں لوگوں پرظاہر کردیتے تھے۔ دوّم: یہ کہ میرے پاس فرماں بردار فوج تھی اور علی کے پاس نافرمان لوگ تھے۔ سوّم: یہ کہ میں نے جنگ جمل میں مطلق حصہ نہیں لیا۔ چہارم: یہ کہ میں قریش میں مقبول تھا اور علی سے لوگ ناراض تھے۔