انوار اسلام |
س کتاب ک |
آدمی کب معذور شمار کیا جاتا ہے اور کب نہیں اِس سلسلہ کے مسائل واحکام وضو سے معذور ہونے اور نہ ہونے کی صورتیں اور احکام کیا ہیں؟ کسی کوپیشاب کا قطرہ کم وبیش آتا رہتا ہے؛ مگرنماز کا پورا وقت گھیرتا نہیں ہے اتنا وقت مل جاتا ہے کہ طہارت کی حالت میں نماز ادا کرسکے تو وہ معذور نہیں ہے، اس کو چاہئے کہ قطرہ رک جانے کا انتظار کرے؛ پھروضو کرکے نماز پڑھ لے اگر نماز پڑھتے ہوئے قطرہ آنے کا شبہ ہوجائے تو نماز توڑ کروہ جگہ دیکھ لے اگر واقعی قطرہ ہے تو شرم گاہ پانی سے دھوئے اور وضو کر کے کپڑا بدل کر نماز پڑھے؛ اگرقطرہ آیا نہ ہو ایسا ہی شبہ ہوا ہوتو آئندہ اس قسم کے شبہ کی پرواہ نہ کرے؛ بلکہ وضو کرنے کے بعد میانی پرقدرے پانی چھڑک دے، شبہات سے بچنے کی یہ بھی ایک تدبیر اور علاج ہے اور اگرقطرہ آتا رہتا ہے اور اتنا وقت بھی نہ ملے کہ طہارت کے ساتھ اس وقت کی نماز ادا کرسکے تو وہ معذور ہے ایسا معذور ہرنماز کے وقت وضو کرکے پاک کپڑا پہن کرفرض، واجب، سنت، نفل جو چاہے پڑھ سکتا ہے، جب تک اس نماز کا وقت باقی رہے گا، قطرہ آنے سے وضو نہیں ٹوٹےگا (ہاں قطرہ کے علاوہ دوسرے نواقض سے وضو ٹوٹ جائے گا) اگر پورا ایک وقت ایسا گذرجائے کہ اس میں طہارت سے نماز ادا کرنے کا موقع نہ ملے اور معذور ہونے کا حکم لگ جائے تو اس کے بعد دوسرے نمازوں کے اوقات میں پورا وقت قطرہ جاری رہنا شرط نہیں؛ کبھی کبھی قطرہ آجانا بھی معذور بنے رہنے کے لیے کافی ہے، ہاں اگرنماز کا ایک وقت کامل (پورا) ایسا گذرجاے کہ اس میں ایک دفعہ بھی قطرہ نہ آوے تو اب وہ معذور نہ رہے گا اسی طرح نکسیر کا جاری رہنا، خروجِ ریح، دست کا ہونا، عورت کودمِ استحاضہ کا آنا، ناسور (یعنی وہ زخم جوہمیشہ رستا رہتا ہے اور اچھا نہیں ہوتا) وغیرہ کا مریض نماز کے پورے وقت میں وضو کرکے نماز نہ پڑھ سکے توعذر کے ختم ہونے تک معذور شمار ہوگا، اس کا حکم یہ ہے کہ ہرنماز کے وقت وضو کرلیا کرے جب تک وہ وقت رہے گا اس وضو سے جتنی نمازیں چاہے پڑھ سکتا ہے؛ البتہ جس بیماری میں مبتلا ہے اس کے سوا اگرکوئی اور بات ایسی پائی جائے جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تو وضو جاتا رہے گا ایسے ہی جب نماز کا وقت جاتا رہے تو بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے، جیسے عصر کی نماز کے وقت کیا ہوا وضو غروب آفتاب سے جاتا رہے گا اس بیماری کے سبب کپڑا ناپاک ہوا ہو اور نماز ختم کرنے سے پہلے ناپاکی لگنے کا گمان نہیں ہے تو اس کا دھوڈالنا واجب ہے، اگرناپاکی لگنے کا گمان ہے تو دھونا واجب نہیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ:۴/۶۷، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی)